عمران خان کی ”سیکولر“ میڈیا سے بے زاری

April 01, 2013

ماضی میں کسی بھی اہم عہدے کے لیے تعیناتی کرتے وقت ایک بنیادی اصول کو ہمیشہ مدنظر رکھا جاتا تھا یا تو مطلوبہ شخص کا نام یا متعلقہ عہدے کے لیے دوسرے زیر غور ناموں کو سیکیوٹی کلئیرنس کے لیے مختلف سیکیورٹی ایجنسیوں کے پاس بھیجا جاتا تھا تا کہ مذکورہ شخص یا اشخاص کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت مکمل جائزہ رپورٹ حکومت کے سامنے ہو۔ کسی ایک ایجنسی پر انحصار کرنے کی بجائے مختلف سیکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے آنے والی رپورٹس کسی شخص کے بارے میں ایک ایسا خاکہ پیش کرنے میں مدد دیتی تھیں جس کو اہم تعیناتیوں سے قبل مدنظر رکھنا ملکی اور قومی مفاد میں ضروری ہوتا تھا۔ سال 2008میں ایک ملاقات میں مجھے میاں نواز شریف صاحب نے خود بتایا تھا کہ جنرل مشرف کو آرمی چیف بنانے سے قبل جب انہوں نے ایجنسیوں کی رپورٹس مانگیں تو مشرف کے بارے میں صاف صاف لکھا گیا تھا کہ وہ ایک erratic personality (ناقابل اعتبار شخصیت) ہیں ۔ مشرف کی کچھ اور بھی ایسی ہی ”صفات“ کے بارے میں ایجنسیوں نے اُس وقت کے وزیر اعظم کو رپورٹ پیش کی مگر اس کے باوجود میاں صاحب نے مشرف کو ہی آرمی چیف لگایا اور پھر جو میاں صاحب کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھگتنا پڑا وہ سب پر عیاں ہے۔ نجانے میاں صاحب نے اس واقعے سے سبق سیکھا بھی یا نہیں مگر گزشتہ پانچ سال سے اس ملک میں حکمرانی کرنے والوں نے سیکیورٹی ایجنسیوں کو اس لحاظ سے بلکل ٹھنڈ کرا دی۔ اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں پر تعیناتیاں کرتے وقت یہ تکلف ہی نہ کیا جاتا تھا کہ متعلقہ اشخاص کی سیکیورٹی کلئیرنس کی جائے۔ جسے جی میں آتا اپنی مرضی و منشاء کے مطابق کہیں بھی لگا دیا جاتا۔ اہم اور قومی سلامتی کے لیے انتہائی نازک عہدے بھی ایسی تعیناتیوں سے نہ بچ سکے۔ ایک وزیر صاحب کے بارے میں ہر زبان پر یہ بات تھی کہ وہ برطانوی ایجنسی (MI6) کا آدمی ہے۔ جبکہ انتہائی متنازعہ افراد کو اہم اور نازک ترین سفارتی عہدے دیے گئے۔ میموگیٹ کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے کمیشن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر قصور وار تھے اور یہ کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ بے وفائی کی۔ میمو گیٹ کمیشن کی رپورٹ اس وقت سپریم کورٹ کے پاس موجود ہے۔ انتہائی کرپٹ، بدعنوان لوگوں کو چن چن کر ایک سے بہتر ایک عہدے پر لگایا گیا اور اگر کسی سیکیورٹی ایجنسی نے کوئی رپورٹ بھی ایسے احباب کے خلاف دی تو اُسے ردی کی ٹوکری میں پھینکا جاتا رہا۔ نہ صرف سرکاری نوکری سے نکالے گئے لوگوں کو نوازا گیا بلکہ سزا یافتہ مجرموں پر بھی حکومتی عہدے نچھاور کیے گئے۔ آپ ڈاکٹر شعیب سڈل، جنرل پاشا یا کسی دوسرے سابق یا موجودہ ایجنسی چیف (Spymaster) سے پوچھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ کس طرح پاکستان کو نوچ کر کھانے والوں اور ملک دشمن عناصر کے بارے میں ایجنسیوں کی رپورٹس کو بغیر اہمیت دیے ایک طرف رکھا جاتا رہا۔ کروڑوں اور اربوں کھانے والوں کے متعلق ذمہ داروں کو بتایا گیا مگر جب ذمہ دار خود کھانے پینے میں مصروف ہوں تو ایسی رپورٹس کو کون گھاس ڈالے گا۔اب تو حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ چاہے کوئی امریکی ایجنٹ ہو یا انڈیا کا چہیتاکسی کے لیے پاکستان میں کوئی بھی عہدہ لینا مسئلے کی بات ہی نہیں۔ بلکہ اگر کوئی پاکستان کو گالیاں دیتا رہا، اس سے غداری کرتا رہا، اسلام کو بُرا بھلا کہتا رہا اور اب بھی ایسا کرتا ہے تو پھر اس سب کو تو آج ایک ”قابلیت“ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اب تو دیکھنا یہ ہے کہ ایسے ”قابل“ وزیراعظم کب بنتے ہیں۔ پہلے توپاکستان کی ایجنسیوں خصوصاً آئی ایس آئی کے کلئیر کردہ افراد کو اعلیٰ ترین عہدوں پر تعینات کیا جاتا تھا مگر اب بین لاقوامی ایجنسیاں یہاں اپنے مہروں کو ہر طرف لگا رہی ہیں تا کہ امریکی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے چاہے اس کے لیے پاکستان کو ہی کیوں نہ قربان کرنا پڑے۔ امریکی مفادات کے محافظ اور ہندوستان کو ایک ذمہ دار ریاست اور پاکستان کو غیر ذمہ دار ریاست کے طور پر پیش کرنے والوں کی تو یہاں جیسے لاٹری ہی لگ گئی ہو۔ ان حالات میں پاکستان اور نظریہ پاکستان کا تحفظ کون کرے گا۔ موجودہ نگراں حکمرانوں سے تو کوئی بہتری کی امید نہیں۔ نجانے کون کس کی نمائندگی کر رہا ہے مگر پاکستان کے مستقبل کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ کسی بھی اہم سرکاری عہدے پر تعیناتی سے قبل متعلقہ شخص کا سیکیورٹی چیک کرایا جائے اور ایسے افراد جو پاکستان کے دشمنوں کے وفادار ہیں اُن کو کسی بھی عہدے پر نہ لگایا جائے۔ اس سلسلے میں میڈیا کو ایک اہم کردار ادا کرنا چاہیے مگر میڈیا بھی بس سودا بیچنے میں مصروف ہے چاہے اس کا جو بھی نتیجہ ہو۔ میڈیا میں موجود ”اسلام مخا لف“ طبقہ سے بیزار تحریک انصاف کے عمران خان نے چند دن پہلے مجھے فون کیا اور کہنے لگے کہ نام نہاد سیکولر جو دراصل اسلام مخالف ہیں نے اُن کی شخصیت کو صرف اس لیے ٹارگٹ بنایا ہوا ہے کیوں کہ وہ اسلام کا نام بار بار لیتے ہیں۔ عمران کا کہنا تھا کہ کتنے ایسے ”اسلام مخالفوں“ نے اُنہیں ٹارگٹ کیا کیوں کہ اپنے حالیہ لاہور کے جلسے میں انہوں نے اللہ، قرآن اور اسلام کا بارہا ذکر کیا۔ خان صاحب کے مطابق ان ”اسلام مخالفوں“ کو یہ بھی تکلیف ہے کہ تحریک انصاف کا موٹو قرآنی آیت کو کیوں رکھا گیا۔