حکمت عملی واضح کریں

May 20, 2020

پاکستان میں کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال میں حکومت کی بدلتی حکمت عملی اور نئی سوچ سے وائرس کے متاثرین اور اموات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور حکومتی وزرا کے بیانات سے اشارے مل رہے ہیں کہ حکومت ہرڈ امیونٹی (Herd Immunity) کی غیر علانیہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ Herdکے معنی ’’ریوڑ‘‘ اور Immunityسے مراد ’’مدافعت‘‘ ہے۔

بھیڑوں کے ریوڑ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ جب ریوڑ میں شامل کوئی بھیڑ بیمار پڑ جائے تو بھیڑ چرانے والا گڈریا اُس بھیڑ کو ریوڑ سے الگ نہیں کرتا بلکہ اُسے صحت مند بھیڑوں کے درمیان ہی رہنے دیتا ہے جس کے نتیجے میں ابتدا میں بیمار بھیڑ کے وائرس سے صحت مند بھیڑیں بھی بیمار ہونے لگتی ہیں اور اس طرح یہ بیماری ایک بھیڑ سے پورے ریوڑ کو منتقل ہو جاتی ہے تاہم اِس دوران ریوڑ میں شامل بھیڑوں میں قوتِ مدافعت پیدا ہونے لگتی ہے اور وہ اپنے اندر وائرس سے مقابلے کی قوت پیدا کرکے صحت مند ہونے لگتی ہیں لیکن ریوڑ میں شامل کچھ کمزور بھیڑیں قوتِ مدافعت پیدا نہ ہونے کے باعث بیماری کا مقابلہ نہیں کر پاتیں اور مر جاتی ہیں۔

ماہرین صحت کے مطابق کورونا وائرس سے بچنے کے دو ہی طریقے ہیں یا تو اِس کی ویکسین دستیاب ہو جائے یا پھر جسم میں کورونا وائرس سے لڑنے کی قوتِ مدافعت پیدا کی جائے۔

موجودہ صورتحال میں چونکہ کورونا وائرس کی ویکسین دستیاب نہیں تو کچھ ممالک ہرڈ امیونٹی جیسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہونے کا سوچ رہے ہیں جس کے تحت آبادی کے زیادہ تر حصے کو وائرس سے ایکسپوزڈ کیا جائے تاکہ ہرڈ امیونٹی کے تحت اُن میں قوت مدافعت پیدا کرکے کورونا وائرس کو شکست دی جا سکے۔

واضح رہے کہ دنیا میں سویڈن وہ واحد ملک ہے جس نے Herd Immunityکی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے۔ برطانیہ نے شروع میں یہ حکمت عملی اپنائی گئی تھی مگر جب متاثرین اور اموات میں بے تحاشا اضافہ ہونے لگا تو یہ حکمت عملی موخر کر دی گئی۔

لگتا ہے کہ پاکستان میں بھی حکومت Herd Immunityکی حکمت عملی پر کاربند ہے جس کے اشارے اُس وقت ملے جب وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا یہ بیان سامنے آیا کہ ’’کورونا وائرس سے سب کو گزرنا ہے، بہتر ہے کہ وائرس کو پھیلنے دیا جائے تاکہ لوگوں میں قوتِ مدافعت پیدا ہو سکے‘‘۔

بعد ازاں وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے ایک ٹی وی پروگرام میں واضح الفاظ میں کہا کہ ’’کورونا وائرس سے نمٹنے کے دو ہی راستے ہیں، ایک وائرس سے بچائو کی ویکسین اور دوسرا ملک کی 70فیصد آبادی کو کورونا وائرس کا شکار ہونے دیا جائے اور قوتِ مدافعت کو Achieveکیا جائے‘‘۔

اِن بیانات نے لوگوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور اب وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ ’’ہمیں اب کورونا کے ساتھ ہی زندگی گزارنا ہے‘‘۔

اِن بیانات کے بعد لاک ڈائون میں بتدریج نرمی ایسے وقت میں دیکھنے میں آئی جب کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں اور اموات میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا جس سے اِن افواہوں کو تقویت ملی کہ حکومت Herd Immunityکی حکمت عملی پر کاربند ہے۔

اس حکمت عملی کے تحت کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کو صحت مند لوگوں کے درمیان چھوڑ دیا جائے گا جس سے شروع میں لوگوں میں وائرس تیزی سے پھیلے گا مگر آہستہ آہستہ صحت مند افراد قوتِ مدافعت کے سبب وائرس کو شکست دے دیں گے تاہم کچھ ضعیف العمر افراد جنہیں دیگر بیماریاں لاحق ہوں گی، کمزور قوت مدافعت کے باعث موت کا شکار ہو جائیں گے لیکن زیادہ تر آبادی قوتِ مدافعت کے باعث وائرس پر قابو پا لے گی۔

شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت لاک ڈائون میں بتدریج نرمی کر رہی ہے اور اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ کورونا وائرس ریوڑ کی مانند قوتِ مدافعت کا سامنا نہیں کر سکے گا اور اپنی موت آپ مر جائے گا لیکن خدشہ یہ ہے کہ لاک ڈائون ختم کرنے کے نتیجے میں کہیں پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کا گراف دوسرے ممالک کے مقابلے میں اوپر نہ چلا جائے اور مغربی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اموات کی شرح نہ بڑھ جائے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ لاک ڈائون میں نرمی کی وجہ سے کورونا وائرس کے کیسز اور شرح اموات میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور گزشتہ روز صرف ایک دن میں ریکارڈ 1841نئے کیسز اور 36اموات ہوئیں۔

دنیا بھر میں اب تک 49لاکھ سے زائد افراد کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں جن میں سے 3لاکھ 20ہزار افراد موت کا شکار ہو چکے ہیں جو کورونا وائرس کا شکار ہونے والوں میں موت کی شرح کا تقریباً 7فیصد بنتی ہے۔ اِس کے برعکس اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کی بائیس کروڑ آبادی میں اب تک تقریباً 44ہزار افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سے تقریباً 940افراد موت کا شکار ہو چکے ہیں جو کورونا وائرس کا شکار ہونے والوں میں اموات کی شرح کا 2فیصد بنتی ہے۔

اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ کورونا کا ٹیسٹ نہ ہونے کے سبب پاکستان میں متاثرین کی اصل تعداد 80ہزار سے زائد ہے تو شرح اموات 1.1فیصد بنتی ہے اور اگر وزیر موصوف اسد عمر کی حکمت عملی کے تحت ملک کے 70فیصد لوگوں میں کورونا وائرس پھیلنے دیا جائے تو پاکستان میں کورونا سے 15لاکھ سے زائد اموات ہو سکتی ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ حکومت کھلے الفاظ میں اس بات کا اعتراف کرے کہ وہ کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے ہرڈ امیونٹی کی حکمت عملی پر کاربند ہے اور لاک ڈائون ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اگر حکومت نے ہرڈ امیونٹی کی خطرناک حکمت عملی کا تصور پاکستان میں اپنایا تو اِس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے اور ہم معیشت کو بچانے کے نام پر لاکھوں جانوں کو قربان نہیں کر سکتے۔