سفید کوے (قسط نمبر4)

May 31, 2020

بنجمن فرینکلن کو بابائے ریاست ہائے متحدہ امریکا بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی خودنوشت میں ایک واقعہ تحریر کیا ہے۔ جب وہ اٹھارہویں صدی میں پینسلوینیا کی قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے، تواُنھیں ایک اور رکن کی شدید مخالفت کا سامناتھا۔ انھیں دشمنی تک جاتی اس مخالفت سے نمٹنے کی ترکیب سمجھ میں نہ آتی تھی۔ ایک مرتبہ، ان کے الفاظ میں ’’مجھے معلوم ہوا کہ اس کے پاس لائبریری میں ایک نادر ونایاب کتاب ہے۔ مَیں نے اُسے ایک نوٹ لکھ کر بھیجا کہ اگر وہ مجھے متعلقہ کتاب چند روز کے لیے عاریتاً مطالعے کے لیے دے دے تو اس کی مجھ پر مہربانی ہوگی۔ اُس نے فوری طور پر مجھے کتاب دے دی۔ ایک ہفتے کے بعد میں نے بہت شُکر گزاری کے اظہار پر مبنی ایک نوٹ کے ساتھ اُسے کتاب واپس کردی۔ جب ہم اگلی مرتبہ اسمبلی میں بیٹھے تو اُس نے مجھ سے گفت گوکی (جو کہ اُس نے اِس سے پہلے کبھی نہ کی تھی) اُس کا رویہ بہت مہذّبانہ تھا۔ اِس کے بعد وہ ہمیشہ میری مدد کے لیے تیار رہتا تھا اور ہم بہت گہرے دوست بن گئے۔ ہماری دوستی اُس کی موت تک برقرار رہی۔‘‘ بنجمن فرینکلن کے اس عمل کو علمِ نفسیات میں علمی عدم اطمینان (Cognitive dissonance)کہتے ہیں۔

اس میں دماغ میں دو متضاد خیالات کے درمیان تناؤ کی کیفیت رہتی ہے، جس سے ایک عدم اطمینان کی صُورت پیدا ہوتی ہے۔ اس تناؤ سے نجات کے لیے دماغ ان میں سے ایک خیال کو چُن لیتا ہے اور دوسرے خیال کو اس کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔ جب بنجمن نے کتاب مانگی، تب تک حریف رکن اسمبلی اپنے دماغ میں خیال رکھتاتھا ’’مَیں بنجمن فرینکلن کو پسند نہیں کرتا۔‘‘جب اُس نے کتاب دے کر بنجمن کو فائدہ دیا یا اُس پر مہربانی کی تو اُس کے تحت الشعور میں ایک اور خیال نے جگہ بنالی ’’ناپسندیدہ لوگوں کو فائدہ دینا ایک تکلیف دہ کام ہے، سو میں صرف اُن لوگوں کی مدد کرتا ہوں، جنھیں میں پسند کرتا ہوں۔‘‘ اِس خیال نے آہستہ آہستہ پہلے خیال کی جگہ لے لی، کیوں کہ دماغ دو متضاد خیالات کو بمشکل جگہ دیتاہے۔

یوں اُس کےہاں بنجمن کےلیے پسندیدگی پیدا ہوگئی۔ بنجمن فرینکلن ایفیکٹ کے مطابق اگر کوئی چاہتا ہے کہ لوگ اسے پسند کریں تو وہ ان سے چھوٹی چھوٹی مہربانیوں اور آسانیوں کی درخواست کرے۔ غیر مہذّب معاشروں میں امکان موجود ہے کہ کسی مہربانی کی درخواست رد کردی جائے یااُسے ذلت تک لےجایا جائے مگر دوسری جانب یہ محسن کے جذبۂ توقیری یا احساسِ برتری کی تشفّی کرکے اسے مہربانی پر بھی آمادہ کر سکتی ہے۔ یوں مخالف یا حریف سے مدد طلب کرنے کے فقط برُے اثرات کے متعلق خیال عمومی طور پر مغالطے میں شمار ہوتا ہے۔ انسانی ذہن بہت سے نفسیاتی امور کے بارے میں عام غلط فہمیوں کو درست تسلیم کرتا ہے۔ یہ بھی ایک مغالطہ ہے کہ انسانی یادداشت کیمرے کی طرح ہوتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسانی یادداشت میں خطا کھانے کا بہت امکان ہوتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ ماضی کے کسی واقعے کی تفصیلات میں ازخود ردوبدل کرتی رہتی ہے۔ دوہزار افراد سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق 63 فی صد لوگ سمجھتے ہیں کہ انسانی یادداشت کیمرے کی طرح کام کرتی ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے واقعات میں جج اور پولیس گواہان کے اعتماد سے دھوکا بھی کھاجاتے ہیں۔

بعض دفعہ گواہان بزعمِ خود درست کہہ رہے ہوتے ہیں مگر ان کی یادداشت اُنھیں دھوکا دے جاتی ہے اور بہت سے مواقع پر کسی واقعے یا سیاسی جلسے کے عینی شاہدین وہی کچھ یاد رکھتے ہیں، جس پر وہ یقین کرتے ہیں۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ کوئی عینی شاہد جتنا پرُاعتماد ہوگا، وہ اتنا ہی درست ہوگا۔ تحقیق بتاتی ہے کہ درستی اور اعتماد کا آپس میں خاصا کم زورتعلق ہے۔ دماغ کی صلاحیت اورکارکردگی کے حوالے سے ایک واقعے پر دنیا بھر کے ایک ہزار سے زائد نفسیاتی امور سے متعلق ثقہ جرائد میں مضامین لکھے جاچکے ہیں۔ ہنری مولاسن کو بچپن سے مرگی کے دورے پڑتے تھے۔ ستائیس برس کی عمر میں اُس کا ایک بڑا آپریشن کیا گیا۔ آپریشن کے نتیجے میں وہ یادداشت کھو بیٹھا۔ سرجری کے دوران اس کے دماغ کی دونوں جانب سے بڑے حصّے نکال دیے گئے۔ نتیجتاً وہ طویل مدتی یادداشت میں کوئی بھی بات محفوظ کرنے سے محروم ہوگیا۔

البتہ اس میں چند استثنیات تھیں۔ مثلاً اُسے جان ایف کینیڈی کے حوالے سے یاد تھا کہ 1963میں ایک امریکی صدر کوڈیلاس میں قتل کردیا گیا تھا۔ ہنری کے آپریشن سے پہلے ماہرینِ طب سمجھتے تھے کہ یادداشت دماغ کی بیرونی تہہ میں برابر بکھری ہوتی ہے۔ اس پر کی گئی تحقیق میں یہ بات غلط ثابت ہوئی۔ وہ اس آپریشن کے بعد اپنے بقیہ دماغ کے سہارے قریباًنصف صدی تک روزمرہ یادداشت کے ساتھ زندہ رہا۔ یوں انسانی دماغ کے متعلق بہت سے خیالات اور مفروضے غلط ثابت ہوئے۔ دماغ ایک ایسا پیچیدہ اور شان دار عضو ہے جس کے بے شمار فوائد اور کام راز میں ہیں اور ان پر تحقیق جاری ہے۔ دوسرے الفاظ میں انسانی دماغ خود کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہے۔ کِم پِیک بھی انسانی دماغ کی کرشمہ سازیوں کا مظہر تھا۔ اُس پر بنائی گئی ہالی ووڈ کی فلم ’’رین مین‘‘ نے نہ صرف کئی آسکرجیتے بلکہ لوگوں کو آٹزم کی دماغی بیماری سے بھی آگاہ کیا۔

اُس وقت لوگوں میں ایک غلط خیال پیدا ہوگیا تھا کہ گو آٹزم کے مریض میں جسمانی و دماغی صلاحیتوں کا فقدان ہو جاتا ہے، مگر متبادل طور پر چند غیر معمولی صلاحیتیں پیدا ہوجاتی ہیں، جیسا کہ اُس فلم میں دکھایا گیا تھا اور دیگرکئی فلمز اورناولز کی وجہ سے معروف ہوگیا۔ فلم ساز نے کِم کی داستان میں کچھ زیادہ ہی رنگ آمیزی کردی۔ اِس رنگ آمیزی کی وجہ سے لوگ آٹزم کی جانب اس طرح متوجّہ ہوئے، جیسے کبھی ہالی ووڈ کے ستارے راک ہڈسن کی وجہ سے ایڈز کی جانب متوجّہ ہوئے تھے اور پاکستانی ناظرین وشائقین طاہرہ نقوی کی 1982میں کینسر سے بے وقت موت کی وجہ سے دوبارہ سرطان ایسے موذی مرض کی جانب متوجّہ ہوکر آزردہ ہوگئے تھے۔ درحقیقت کِم کو آٹزم تھا ہی نہیں۔

اُسے آٹزم سے کہیں بڑھ کر دماغی پیچیدگیوں کا سامنا تھا۔ اُس کے بھیجے کے پچھلے حصّے میں نقص تھا اور اس کے دائیں اور بائیں حصّوں کو جوڑنے والی نسوں کی پیچیدہ گٹھڑی موجود ہی نہ تھی۔ اس کے باوجود وہ حیران کُن صلاحیتوں اور علوم کا حامل تھا۔ اُس نے بارہ ہزار سے زیادہ کتب پڑھ رکھی تھیں، جو لفظ بہ لفظ اُس کے عکسی حافظے میں موجود تھیں۔ وہ کلینڈرکا عمدہ حساب کتاب کرلیتا تھا۔ تاریخ، ادب، موسیقی، جغرافیے اورسفری راستوں پر غیر معمولی دست رس رکھتا تھا اور اپنے عِلم سے مخاطب کو حیران کردیتا تھا۔ اُس کا کیس نہ صرف ماہرین بلکہ عام لوگوں کے لیے بھی دل چسپی کا باعث رہا،جو انسانی دماغ کی کارکردگی کے حوالے سے عرصے سے مغالطوں کے شکار چلے آرہے تھے۔

انسانی دماغ وفہم، مغالطوں اور واہموں کی ایک عجیب پُراَسرار دنیا ہے۔ اس میں بہت سے صحیح العقل اور بظاہر دانش مند لوگ پُریقین انداز میں اغلاط کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بات کو پھیلایا جائے تو بہ قول میر تقی میر ؔ؎ یہ توّہم کا کارخانہ ہے،یاں وہی ہے جو اعتبار کیا۔ عظیم فلسفی، برٹرینڈرسل نے بھی کیا برمحل اورخُوب کہا تھا، ’’مَیں اپنے عقائد و نظریات کی خاطر کبھی مرنا نہ چاہوں گا کیوں کہ میں غلطی پر ہوسکتاہوں۔‘‘نفسیات دانوں نےایک دل چسپ تجربہ کیا۔ جیمز کون اور جیکولین پِکرل نے مختلف لوگوں کو فرداً فرداً ان کے بچپن کی یادیں دہرانے کو کہا۔ بعد میں انھوں نے جب زیرِ تجربہ لوگوں کے سامنے اُن ہی کی یادیں دہرائیں تو اُن میں ’’بازار میں گم ہوجانے کی‘‘ غلط یاد شامل کردی۔ انھوں نے مختلف انداز اور اوقات میں یہ بات اتنی مرتبہ دہرائی کہ یہ بات لوگوں کی یادداشت کا حصّہ بن گئی اور وہ واقعی سمجھنے لگے کہ بچپن میں وہ بازار میں کھو گئے تھے۔ اس تجربے کی بنیاد پر بحث چِھڑ گئی کہ انسانی یادداشت کس حد تک قابلِ بھروسا ہوسکتی ہے۔ بعد ازاں یہ تجربہ دیگر نفسیات دانوں نے بھی مختلف چھوٹی چھوٹی مگر جھوٹی یادوں کے ساتھ دیگر افراد کے ساتھ دہرایا اوراسے قریباً یکساں طور پر درست پایا۔

والدین میں ایک مغالطہ وسیع پیمانے پرپایا جاتا ہے کہ گھر کی تربیت کا بچّوں پر اہم ترین اثر مرتب ہوتا ہے۔ حقیقت میں اُن پر گھر سے باہر کے ماحول اور اپنے ہم عُمروں یا بچّوں کے اُس گروہ کا، جس میں وہ اٹھتے بیٹھتے ہیں، مجموعی طور پرزیادہ اثرہوتا ہے۔ یہ حقیقت تو اب پاکستان میں عُمرانیات کی درسی کتابوں میں بھی درج ہوچکی ہے۔ اسی لیے والدین کو گھر کے ماحول کے علاوہ بچّوں کے دوستوں، اسکول کے ماحول، تجربات اور میڈیا سے ان کےمخصوص تعلق پر، کہ وہ کیسے پروگرام دیکھتے ہیں اور کن گروپس میں شامل ہیں، نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔

اس کے باوجود وہ جینیاتی عوامل کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ یہ جینیاتی عوامل ہی ہیں، جو کم عُمربچّوں کو جب انھوں نے دوست نہیں بنائے ہوتے اور وہ اسکول بھی نہیں جارہے ہوتے، مختلف مزاج اور شخصیات کا حامل بناتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وہ جڑواں بچّے، جنھیں مختلف والدین گود لے کر پالتے ہیں، عموماً ایک طرح کی عادات کے حامل ہوتے ہیں۔ جب کہ یہ تو ایک عام مشاہدہ ہے کہ ایک ہی گھر میں پلنے والے بچّے مختلف مزاج و فطرت کے حامل ہوتے ہیں۔ مہاجر والدین کے بچّوں پر اُس مُلک کے مزاج کے زیادہ اثرات مرتّب ہوتے ہیں، جہاں وہ ہجرت کر کے آئے ہوتے ہیں، بجائے والدین کے آبائی وطن کے۔ انسان ڈھل جانے اور ماحول کے مطابق تبدیل ہوجانے والی مخلوق ہے۔

سو، بچّوں کا نئے وطن کے مطابق ڈھل جانا ہی ان کی بقا اور ترقی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ایک اور دل چسپ تجربہ ظاہر کرتاہے کہ ایسا المیہ جو انسان سے انفرادی سطح پر کلام کرے، زیادہ پرُاثرہوتا ہے۔ یونی ورسٹی آف پینسلوینیا میں ایک تجربہ و مشاہدہ کیا گیا۔ لوگوں کو تین گروپس میں تقسیم کردیا گیا۔ ایک گروپ کو ایک چھوٹی سی بچّی کے بارے میں بتایا گیا، جو بھوک سے مر رہی تھی، دوسرے گروپ کو ان لاکھوں لوگوں کا بتایا گیا، جو قحط کا شکار تھے اور تیسرے گروپ کو دونوں صُورتوں سے آگاہ کیا گیا۔ نتیجتاً اُس گروپ نے، جسے بچّی کی کہانی سُنائی گئی تھی، اُس کے لیے دُگنا چندہ دیا، بہ نسبت اُس گروپ کے، جسے لاکھوں قحط زدگان کے اعداد و شمار دیے گئے۔ انھوں نے بچّی والے گروپ سے قحط زدگان کے لیے آدھا چندہ دیا۔

تیسرے گروپ نے بچّی کی ابتلا کو لاکھوں لوگوں کے مصائب کے پس منظر میں دیکھا۔ یوں اُسے اس بچّی کے المیے کی شدت کم معلوم ہوئی اور اس نے بھی نسبتاً کم چند ہ دیا۔ درحقیقت انسان کسی دوسرے شخص کی پریشانی کو بنیادی شخصی اور انفرادی سطح پر زیادہ محسوس کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ویت نام کی جنگ میں ایک جلتی بھاگتی بچّی کی تصویر، شامی مہاجر بچّے کی ساحل پر تنہا لاش یا قصور میں زیادتی کا نشانہ بن کر قتل ہونے والی بچّی کی تصویر لوگوں میں ایک دَم شدت سے جذبۂ ہم دردی اُبھار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس ذرائع ابلاغ پر آنے والی ہزاروں لوگوں کے مصائب کی تصاویر انھیں اس طرح سے متحرک نہیں کرتیں۔ اس معاملے میں ایک استثنا ہے اور وہ ہے عظیم حادثات۔ عظیم سانحات دیکھنے اور پڑھنے والوں پر زیادہ شدّت سے اثرات مرتّب کرتے ہیں کہ یہ غم کی عمومی تعریف سے نکل جاتے ہیں۔ بھلے وہ دوسری جنگ ِ عظیم کا سانحہ ہو یا تقسیمِ ہند پر ہونے والی عظیم ہجرت کے دوران قتلِ عام کا گہرا غم۔

انسانی تصّورات اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عمل اور ردعمل پر کس طرح اثر انداز ہوا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے ہارورڈ یونی ورسٹی کے پروفیسر رابرٹ روز نتھل نے ایک تجربہ کیا، جسے بعد ازاں ایک یونانی سنگ تراش کے نام سےمنسوب کرکے ’’پِگ میلیئن ایفیکٹ‘‘ کا نام دیا گیا۔ 1964میں سان فرانسکو کے ایک اسکول کے اساتذہ کو پرنسپل نے بتایا کہ ان کے ہاں ہارورڈ یونی ورسٹی کے معروف پروفیسر رابرٹ روز نتھل طلبہ کی ذہانت جانچنے کے لیے آئیں گے۔ پروفیسر ہر کلاس میں گئے اور بچّوں کی ذہانت کا امتحان لیا۔ چند روز بعد وہ نتائج کے ساتھ لوٹے اور اساتذہ کو ہر جماعت میں موجود ذہین ترین بچّوں کی نشان دہی کی اور پیش گوئی کی کہ وہ بچّے مستقبل میں بہت بہتر کارکردگی دکھائیں گے۔

آیندہ برسوں میں ویساہی ہوا۔ ہرجماعت میں ان مختصر تعداد میں موجود بچّوں نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ایسا بھی ہوا کہ ان گروہوں کے اُن طلبہ کے، جو بظاہر اوسط درجے کی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے آرہے تھے، نتائج میں یکایک بہتری آگئی۔ بعد ازاں اساتذہ کو بتایا گیا کہ پروفیسرکے وہ نتائج فرضی تھے اور غیر معمولی بچّوں کے مختصر گروہ درحقیقت بہت ذہین اور اوسط ذہانت پر مشتمل بچّوں کے مِلے جُلے گروپ تھے۔ اُنھیں بے ترتیبی سے چُنا گیا تھا۔ دراصل یہ اساتذہ کی ان بچّوں سے بہتر کارکردگی کی توقعات اور ان پر زیادہ توجّہ تھی، جس نے اُنھیں نہ صرف ان کی غیر معمولی صلاحیتیں باور کروا دیں بلکہ بچّوں کے اعتماد اور جذبے میں بھی اضافہ کیا۔ یعنی اگر کسی عام انسان کو اُس کے غیر معمولی ہونے کا یقین دلا دیا جائے اور اس پر ہم دردانہ توجّہ بڑھا دی جائے، تو وہ پہلے سے بڑھ کر بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔

کئی دہائیوں کے تجزیوں، مزید تجربات اور تنقید کے بعد یہ طریقہ نہ صرف مستند ثابت ہوا ہے بلکہ بے شمار تعلیمی اور تربیتی اداروں میں مستعمل بھی ہے۔ انسانی نفسیات کی بوالعجبیوں پر ایک اورتجربہ کام یاب ہوچکا ہے۔ عمومی طور پر دفاعی اور دیگر اداروں میں پہلے پلان کے ناکام ہونے کی صُورت کو مدنظر رکھ کر دوسرا پلان بھی رکھا جاتا ہے۔ یقینا ایسا کرنا ان اداروں کے لیے تو بہترین حکمت ِ عملی ہے مگر انفرادی سطح پر نفسیات دان کچھ اوربتاتے ہیں۔ یونی ورسٹی آف پنسلوینیا میں مختلف افراد پر ایک تجربہ کیا گیا۔ انھیں مختلف منصوبوں پر کام دیا گیا۔ اُن افراد نے، جن کے پاس کام کے آغاز میں ایک متبادل پلان بھی تھا، بے دلی سے کام کا آغاز کیا۔

ان کے ذہنوں میں یہ بات موجود تھی کہ اگر پہلا پلان کام یاب نہ ہوا تو سہارے کے لیے ایک دوسرا پلان تو موجود ہے ہی۔ اس کے برعکس اُن لوگوں نے، جن کے پاس ایک ہی پلان پر انحصار کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ تھا، زیادہ دل جمعی سے کام کا آغاز کیا اور بالآخر پہلے گروپ سے زیادہ بہتر نتائج سامنے لے کر آئے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ مستقبل اور متبادل کا سوچنا ایک صحت مند اور اچھی بات ہے، پر اُنھیں مبہم اورغیر واضح رکھنا چاہیے تاکہ پہلے پلان پر زیادہ پرُیقین ہو کر کام کیا جاسکے۔

یہاں اُن غریب اوربے سہارا بچّوں کی مثال بھی برمحل ہے، جن کے پاس زندگی میں کام یاب ہونے کے لیے اَن تھک محنت کے علاوہ کوئی اورچارہ نہیں ہوتا۔ دنیا میں کام یاب لوگوں کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، جو بہت غربت اورناداری سے اپنی محنت کے بل بوتے پر اُٹھے۔ اس کے برعکس بےشمارخوش حال گھرانوں کے بچّے عملی زندگی میں اس لیے بھی زیادہ کام یابی حاصل نہیں کرپاتے کہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ ناکامی کی صُورت میں انھیں خاندانی سہارا مل جائے گا۔ اُن کے پاس ایک متبادل پلان موجود ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ زیادہ محنت نہیں کرتے۔ ’’کرنٹ بائیولوجی‘‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ہم میں سے بیش تر لو گ ’’مثبت تعصب‘‘ کا شکار رہتے ہیں۔

ہم عموماً اپنی آیندہ زندگی کا غیر جذباتی اور مدلل تجزیہ کرنے کی بجائے اُمید کا دامن تھامے رکھتے ہیں۔ یہ یقینا بہت اچھی بات ہے اور ترقی کے لیے ناگزیر بھی۔ بیش تر لوگ توقع کرتے ہیں (سوائے قنوطیوں کے) کہ وہ اپنے شعبہ ہائے زندگی اور ملازمتوں میں ترقی کریں گے، خوش گوار ازدواجی زندگی گزاریں گے، خُوب صورت فرشتوں کے سے معصوم بچّے ان کے نصیب میں لکھ دیے گئے ہیں اور وہ طویل صحت مند زندگی گزاریں گے۔ مگر زندگی کے حقائق ان کی توقعات سے مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح نفسیاتی و عمرانی علوم میں باقاعدہ ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، جسے ''Confirmation Bias'' یا ’’تصدیقی تعصب‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق ہمارا دماغ بےشمار حقائق، نظریات اور تجربات میں سے لاشعوری طور پر ان ہی کو چُنتا ہے، جو ہمارے پہلے سے قائم شدہ نظریے یاخیال کی تصدیق کریں۔ اس کا اطلاق مذہب، اخلاقیات، وطنیت، سیاست، معاشرت اور بے شمار شعبوں پر ہوتا ہے۔

عام آدمی جو ایک خیال پر یقین رکھتا ہے، وہ اس کے حق میں خود ہی بےشمار دلائل تراش لاتا ہے، البتہ ذہین اور بیدار مغز لوگوں کا معاملہ مختلف ہے، وہ دلائل کی تکڑی پر دونوں جانب کا موازنہ کرکے نہ صرف حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس طرح دانش ورانہ انصاف سے بھی کام لیتے ہیں۔ بعض اوقات چند لوگ دانش ورانہ مباحث پر اس درجہ برہم ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنے ان نظریات کو، جوانھیں جگہ پیدائش، خاندانِ پیدائش یا مقامِ پرورش کی وجہ سے حاصل ہوئے ہوتے ہیں، ذاتی سطح پر لاتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ یہ سب عوامل ان کے اختیار میں نہیں بلکہ ان کے واقعۂ پیدائش سے منسلک ہیں۔ (جاری ہے)