جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھ گیا

May 21, 2020

وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ایک بار پھر ڈیر ہ غازی خان پر ترقیاتی منصوبوں کی بھرمار کردی اور ملتان کے عوام حیرت سے منہ تکتے رہ گئے کہ پنجاب کے سارے وسائل پہلے لاہور پر خرچ ہوتے تھے ،اب ڈیرہ غازی خان پر صرف کئے جارہے ہیں ،تاہم ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی وجہ سے جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھ گیا ہے اوروہ حکومتی وسائل ایسے پسماندہ علاقوں پر صرف کررہے ہیں ،جہاں پہلے کبھی پنجاب حکومت کی توجہ ہی نہیں گئی ،مثلاً انہوںنے ٹرائبل ایریا میں بجلی پہنچانے کے لئے 27 کروڑ روپے کی رقم میپکوکے حوالے کردی ہے ،تاکہ وہ علاقے جہاں پچھلے 70 برسوں سے بجلی موجود نہیں تھی ،انہیں یہ سہولت فراہم کی جاسکے ،تاہم اس دورہ ڈی جی خان کے موقع پرانہیں ایک منصوبے کے حوالے سے تنقید کا سامنا ہے۔

حالانکہ یہ منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کی ڈیرہ غازی خان میںاشد ضرورت بھی تھی ،یہ منصوبہ کارڈیالوجی ہسپتال کا ہے ،وہ جنوبی پنجاب میں ملتان کے بعد اب ڈیرہ غازی خان میں بننے جارہا ہے ،اس پر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی بھرپورستائش ہونی چاہیے تھی ،لیکن اس کے نام کی وجہ سے انہیں تنقید کے نشانہ پر رکھ لیا گیا ہے ،کیونکہ انہوں نے اس کا نام فتح محمد بزدار انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی رکھا ہے ،جو کہ ان کے والد کے نام پر ہے ،اگرچہ فتح محمد بزدار اس علاقہ کی ایک بڑی سیاسی شخصیت رہے ہیں اور ذوالفقارعلی بھٹو کے زمانے سے وہ رکن اسمبلی بنے رہے ،لیکن اتنے بڑے منصوبے کا نام ان کے نام سے منسوب کردینا ،خود تحریک انصاف کی اس پالیسی کے خلاف ہے جس میں شخصیات کی بجائے نظریات کو اہمیت دینے کی بات کی جاتی رہی ہے ،خود وزیراعظم عمران خان بھی میاںنوازشریف ، شہباز شریف پر اس لئے تنقید کرتے رہے ہیں کہ انہوںنے سرکاری وسائل سے جو منصوبے بنائے ،انہیں اپنے نام سے وابستہ کرلیا ،اب یہی کام اگرتحریک انصاف کے حکمران بھی کریں گے تو وہ سارا فلسفہ جو شخصیت پرستی کے خلاف ماضی میں تحریک انصاف کا بیانیہ رہا ہے حرف غلط کی طرح مٹ جائے گا ،یہی وجہ ہے کہ خود تحریک انصاف کے کارکن اور رہنما وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے اس فیصلہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں ،کچھ ان کے حامی بھی ہیں ،جنہوں نے بہت سے ایسے منصوبوں کو مثال بنا کر جو حکومتی شخصیات کے ناموں سے منسوب کئے گئے یہ دلیل پیش کی ہے کہ فتح محمد بزدار جیسے ایک بزرگ سیاستدان کے نام پر اگر جو اب اس دنیا میں بھی نہیں ہیں،ایک ہسپتال قائم کرکےکون سے بڑی غلطی کی گئی ہے ؟

یہاں تو زندہ لوگوں کے نام پر سرکاری ادارے کام کررہے ہیں ،خود ملتان میں قائم چودھری پرویز الہی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا حوالہ بھی دیا جارہا ہے ،جو چودھری پرویز الہی کے نام پر اس وقت رکھا گیا ،جب وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے ،نوازشریف اور شہبازشریف نیز بے نظیر بھٹو کے ناموں پر تو بے شمارسرکاری ادارے کام کررہے ہیں ،مگرایسی مثالیں یہاں اس لئے کارگرثابت نہیںہوسکتیں کہ تحریک انصاف نے اس روایت کو ختم کرنے کی مہم کا آغاز کیا تھا ،مگراب وہ خود اس کا حصہ بنتی جارہی ہے ،تاہم اس سے قطعہ نظر ڈیرہ غازی خان کے لئے کارڈیالوجی ہسپتال کا تحفہ کسی بڑی نعمت سے کم نہیں ہے ،اس کے بڑے دوررس اور مثبت اثرات مرتب ہوںگے ،کیونکہ اس وقت پورے جنوبی پنجاب میں امراض دل کا صرف ایک ہسپتال ملتان میںکام کررہا ہے ،جس پر نہ صرف تینوں ڈویژنوں اور بلوچستان سے آنے والے مریضوں کا بھی شدید دباؤ ہوتا ہے ،ڈیرہ غازی خان میں 200 بیڈز کے اس ہسپتال کے قیام سے نہ صرف ڈیرہ غازی خان بلکہ بلوچستان سے آنے والے مریضوں کو امراض دل کے علاج کے لئے ایک بہتر سہولت میسر آئے گی ۔

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ عثمان بزدار کا سارا محور ڈیرہ غازی خان ڈویژن بنا ہوا ہے اور وہ ملتان کو نظرانداز کررہے ہیں ،تو اسے غلط قرار نہیںدیا جاسکتان،ایک زمانے میں یہ کہا جاتا رہا کہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی چپقلش کے باعث وزیراعلی عثمان بزدار ملتان کا دورہ نہیں کرتے ،کیونکہ وہ ان دونوں شخصیات کے درمیان جاری تنازعہ میں کسی ایک کی طرف جھکاؤ سے بچنا چاہتے ہیں ، ملتان میںایک اور ایسا واقعہ رونما ہوا ہےکہ جس نے صوبہ میںمیرٹ پر تعیناتیوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ،چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی ملتان کی تعیناتی کے مسئلہ پر اس وقت ایک عجیب وغریب صورتحال سامنے آرہی ہے ،سی ای او ہیلتھ کی پوسٹ پر ڈاکٹر منور عباس تعینات تھے ،جنہیںسنگین بے قاعدگیوں کے الزامات کی وجہ سے وزیراعلیٰ کے حکم پر عہدے سے ہٹا دیا گیا ،اب چاہئے تو یہ تھا کہ 20 گریڈ کی اس پوسٹ پر کسی سینئر اور ایماندار ڈاکٹر کو تعینات کیا جاتا ،لیکن اس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی ،جب ایک 18 گریڈ کے ڈاکٹر ارشد ملک کے سی ای او ہیلتھ کے آرڈر کردیئے گئے ،یادرہے کہ ماضی میں خود تحریک انصاف شہباز شریف کی اس پالیسی پر تنقید کرتی رہی ہے کہ وہ جونیئر افسروں کو سینئر پوسٹوں پر تعینات کرتے ہیں،تاکہ وہ ان کی ہر جائز و ناجائز بات مانیںِاور اس پر عمل بھی کریں ،اب یہ بات ایک معمہ بنی ہوئی ہے کہ ڈاکٹر ارشد ملک گریڈ 18 میں ہونے کے باوجود گریڈ20 کے عہدے کے آرڈر کیسے لے آئے ؟

ادھر جب اس بات کی خبرصوبائی وزیر توانائی ڈاکٹراختر ملک کو ہوئی ،جو ملتان کےہر محکمہ کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں، توانہوں نے مبینہ طورپر ڈپٹی کمشنر ملتان کو یہ پیغام بھجوایا کہ وہ جونئیر ڈاکٹر کو سینئر پوسٹ کا چارج نہ لینے دیں ،اس طرح ڈاکٹر ارشدملک آرڈرز کے باوجود ابھی تک عہدے کا چارج نہیں سنبھال سکے ،جبکہ اس اہم پوسٹ پر کوئی دوسرا سینئر ڈاکٹر بھی تعینات نہیں کیا گیا،ذرائع کے مطابق صوبائی وزیر نے بھی مداخلت اس لئے نہیںکی کہ میرٹ کی خلاف ورزی ہورہی ہے ،بلکہ وہ اورچند دیگر اراکین اسمبلی بھی اس پوسٹ پر جس ڈاکٹر کو تعینات کرانا چاہتے ہیںوہ بھی گریڈ بیس کے نہیںہیں ،حقائق جو بھی ہوں اس وقت کورونا کی وجہ سے سے محکمہ صحت میں ریڈ الرٹ ہے اور اس کی قدم قدم پرسی ای او کی ضرورت پڑتی ہے ،ایسے حالات میں بھی اس اہم پوسٹ کا خالی رہنا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ پنجاب میں فیصلہ سازوں کی ترجیحات کچھ اور ہیں اور بہت سے فیصلے خود وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے بھی بالا بالا کئے جاتے ہیں ۔

یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ 20 گریڈ کے افسر کی تعیناتی ہمیشہ گورنر پنجاب اورچیف سیکرٹری کی منظوری سے ہوتی ہے جبکہ نچلے گریڈ کے ملازمین کو محکمہ کو سیکرٹری تبدیل یا تقرر کرسکتاہے ،ڈاکٹر ارشد ملک کی تقرری سیکرٹری صحت نے کی ہے ،جب ان کے علم میںلایا گیا کہ صوبائی وزیر نے ڈاکٹرارشد ملک کو عہدے سنبھالنے سے روک دیا ہے ،تو انہوں نے اپنے اس فیصلہ پر سٹینڈ لینے کی بجائے مبینہ طور پر ہاتھ کھڑے کردیئے ،مگر سوال یہ ہے کہ انہوں نے ایسا فیصلہ کیا ہی کیوں ؟ اور اس کے پیچھے کن لوگوں کا ہاتھ تھا،سیاسی مداخلت ختم کیوں نہیں ہوسکی ؟اس کی تحقیقات ہونی چاہئے۔