پاکستانی…ہونا ہے انہیں خراب ابھی اور زیادہ!

April 03, 2013

دھماکوں کے جنگل میں راستہ بنانا مشکل ہورہا ہے
فرانس کی نیشنل انٹیلی جنس سروس کے ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ 7/7 کے بعد فرانس میں مقیم ہزاروں پاکستانیوں نے مغرب کے خلاف نفرت کا محاذ بنانے کیلئے انتہا پسندی کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ اس لئے فرانسیسی حکومت کو چاہئے کہ وہ فرانس میں مقیم پاکستانی کمیونٹی پر نظر رکھے اور اس کی سرگرمیوں کو مانیٹرنگ کرے تاکہ فرانس کو ان انتہا پسندوں کے حملوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔ اس بیان کے ساتھ ہی فرانس بھر میں دہشت گردوں کے حملوں کے خدشے کے پیش نظر حفاظتی انتظامات کو پہلے سے زیادہ سخت کردیا گیا ہے۔ (جیوے جیوے پاکستان) ڈچ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق فرانسیسی اخبار ”لی فگارو“ نے انکشاف کیا ہے کہ 7 جولائی کے لندن میں ہونے والے بم دھماکوں میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کے بعد فرانس کو بھی اس انتہا پسند گروپ سے خطرہ لاحق ہے۔ رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ مختلف راستوں سے پاکستانیوں کی فرانس میں آمد و رفت میں اضافہ ہوگیا ہے جبکہ انتہا پسند گروپوں کی فرانس میں زیر زمین سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی انتہا پسند تنظٰم لشکر طیبہ جسے پاکستان میں کالعدم قرار دیا جاچکا ہے کا خصوسی طور پر ذکر کرتے ہوئے اخبار نے لکھا ہے کہ ان شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ فرانس میں رہنے والے پاکستانیوں نے مغرب کے خلاف اپنی نفرت کے اظہار کیلئے شدت پسندی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا راستہ چن لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی روک تھام کیلئے فرانس کی حکومت نے مختلف پبلک اور مصروف مقامات پر ویڈیو کیمرے اور دوسرے الیکٹرونک آلات نصب کئے ہیں۔ صرف دارالحکومت پیرس میں قریباً بیس ہزار ویڈیو کیرے نصب کئے ہیں اس کے علاوہ پوسٹ آفس، ریلوے سٹیشن،انڈر گراؤنڈ، معروف شاہراہوں اور شاپنگ سنٹروں پر بھی اسی نوعیت کے کیمرے نصب کر دیئے گئے ہیں۔ جن کی کل تعداد 25 ہزار سے زائد بنتی ہے۔ فرانسیسی انٹیلی جنس ایجنسی ڈی سی آر جی کے مطابق ہم پوری طرح چوکس ہیں اور حکومت اپنے فرائض کو بخوبی سمجھتی ہے۔
فرانس کی چھ کروڑ کی آبادی میں پچاس لاکھ سے زائد مسلمان ہیں جبکہ یہودی صرف چھ لاکھ ہیں۔ مسلمانوں کی یہ تعداد یورپ میں آباد کسی بھی ملک کے مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ یورپی یونین کے ممالک میں 2 کروڑ سے زائد مسلمان رہتے ہیں۔ صرف فرانس میں 25 ایسی مساجد ہیں جن کا نظم و نسق انتہا پسند اسلامی گروپوں کے ہاتھوں میں ہے۔ ان مساجد میں اشتعال انگیز تقریریں اور خطبے دیئے جاتے ہیں جو مسجدوں میں آنے والے نوجوانوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں کی طرح فرانس میں بھی مساجد کے پیش اماموں کی ماڈرن یا عصری تعلیم سے روشناس کروانے کی مہم زور پکڑ چکی ہے کیونکہ امام حضرات یورپی معاشرے اور بالخصوصی فرانسیسی سوسائٹی کے بارے میں قطعی لاعلم ہیں اور بعض مذہبی حوالوں کے جواز میں غلط تاویل پیش کر دیتے ہیں۔ چنانچہ فرانس میں حکومت کی جانب سے انہیں ٹریننگ کے عنوان سے مختلف لٹریچر کا مطالعہ کروایا جارہا ہے۔ فرانسیسی حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق فرانس میں مساجد اور مسلم تعلیمی اداروں کے سربراہوں کی اب اسلام کے مختلف مضامین کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک میں سیکولرازم کی تاریخ کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے۔ وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ”علماء کرام“ کو جو مضامین پڑھائے جائیں گے ان میں بیرون ڈی مونٹیک کے نظریات اورابن کثیر کی تفسیر شامل ہوگی۔ ان مضامین کے علاوہ فرانسیسی مفکر، دانشور اور ماہرین تعلیم ایسے مضامین کا انتخاب کریں گے جس سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کی بو نہ آتی ہو۔ علاوہ ازیں توحید، قانون شرعیہ کے اصول، فقہ اور مختلف فکر کے علماء کی تفاسیر قرآن بھی آئمہ حضرات کو مہیا کی جائیں گی۔ اس کا مقصد آئمہ حضرات اور علماء کرام کی معلومات میں اضافہ کرنا اور ان کے اندر وسعت نظری پیدا کرنا ہے۔ ان دستاویزات کی تیاری میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ مساجد کے امام حضرات فرانسیسی معاشرے کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ ان حضرات کومختلف اسلامی موضوعات کی بنیادی معلومات مہیا کرنا ضروری ہوگیا ہے تاکہ وہ عہد حاضر کے تقاضے بخوبی پورے کر سکیں۔ اس کے علاوہ انہیں فرانسیسی زبان بھی سکھائی جائے گی تاکہ وہ قرآن و حدیث کی تعلیمیات غیر عربی خواتین و حضرات اور فرانسیسی قوم تک بہتر انداز میں پیش کرسکیں۔ اماموں کو ملکی قوانین کے علاوہ فرانسیسی سماج کی روایات بھی سکھائی جائیں گی۔ فرانسیسی حکومت کا یہ پروگرام دو مرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے مرحلے میں امام بننے والے حضرات کو دو سالہ کورس کروایا جائے گا جبکہ دوسرے مرحلے میں چھ ماہ کی خصوصی تربیت دی جائے گی۔ فرانسیسی وزیر داخلہ نے نیوز ایجنسیوں کو بتایا کہ مسلم اماموں کا فرانسیسی تہذیب و تمدن اور زبان پر عبور بے حد اہم مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ ٹریننگ بعض شہروں میں شروع بھی کر دی ہے جن میں پیرس، لیون، اور مارسیل شامل ہیں۔ وزیر داخلہ نے اس بات سے اتفاق کیا کہ آسٹریلیا کی طرح فرانس کی یونیورسٹیوں میں بھی امام بننے کے خواہشمند طلباء کو سیکولر مضامین پڑھائے جائیں گے جس کے ذریعے انہیں تہذیب اور ثقافت سمجھنے میں مدد ملے گی اور اسلام میں رواداری کو فروغ ملے گا۔ یہاں میں یہ بات بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اماموں اور خطیبوں کو اس طرح کی تعلیم وتربیت دینے کے پروگرام کئی یورپی ممالک میں بے حد اہمیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ملکوں کے کئی سویلین مسیحی گروپ حکومت کے زیر نگرانی اماموں کو مغربی معاشرہ کی سیکولر طرز زندگی سکھانے والی تعلیم و تربیت اور ٹریننگ فراہم کرنے کی تجویز پر عمل کیلئے آگے آئے ہیں۔ اور اس سلسلے میں اپنی خدمات حکومت کو پیش کی ہیں جس پر بعض مسلم گروپوں نے اعتراض بھی کیا ہے۔ اس طرح کے گروپس کا کہنا ہے کہ مسلم علماء اور مفکرین کو جو خاص مذہبی فرائض انجام دیتے ہیں مغربی تہذیب اور سیکولرازم سکھانے اور انہیں مسیحی مکتبہ فکر کی جانب سے تربیت فراہم کرنے کی بات ناقابل فہم ہے۔ دریں اثناء ڈچ حکومت نے 20 صفحات پر مشتمل اپنی سفارشات جاری کی ہیں جن میں تجویز کیا گیا ہے کہ ہالینڈ میں اماموں اور مذہبی رہنماؤں کو اپنے فرائض منصبی انجام دینے کیلئے ڈچ زبان اور ڈچ سوسائٹی کے بارے میں مکمل آگاہی ہونی چاہئے۔ جید علماء کو مغربی معاشرے کے بارے میں آگاہی ہونی چاہئے یا نہیں؟ میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچیئے، بے شک نہ میں عالم ہوں نہ فاضل نہ جید، فقہیہ نہ مفتی، نہ واعظ نہ مولوی، نہ مفسر نہ شارح امام اور نہ سوادِ اعظم۔