گنو! ہیں قبروں پہ پھول کتنے

April 04, 2013

ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کو 34 برس پورے ہو گئے۔4/اپریل1979ء کی صبح دھوپ ہمارے صحنوں میں تعزیت کرنے اتری تھی۔ اخترحسین جعفری نے لکھا تھا”اب کسی ابجد سے زندان ستم کھلتے نہیں“۔آج کے پاکستان میں جہاں60 فیصد ووٹر چالیس برس سے کم عمر کے ہیں، بھٹو صاحب کا شخصی سحر کم ہو جانا سمجھ میں آتا ہے۔ بھٹو نے جس نسل کی آنکھوں میں تارے اور دلوں میں انگارے بھرے تھے وہ اب ساٹھ کی حدود عبور کر چکی ہے۔ آج پاکستان کی فعال آبادی کا بڑا حصہ ایسا ہے جس نے آنکھ کھولنے کے بعد ذرائع ابلاغ اور عدالتوں میں پیپلزپارٹی کے خلاف یکطرفہ مقدمہ سنا ہے۔ عوام کی اس بے اعتنائی میں پیپلزپارٹی کی اپنی حکمت عملی اور کارکردگی کا بھی ہاتھ ہے۔ یوں بھی 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد سیاست کی حرکیات ہی بدل گئیں۔
تھے اپنے زمانے کے جواں اور طرح کے
ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت پاکستان کی تاریخ کا مرکزی استعارہ ہے۔ قیام پاکستان کے چار برس بعد 1951ء میں لیاقت علی خان کی شہادت دراصل اعلان تھی کہ اقتدار سیاسی قیادت سے غیر منتخب سول اور فوجی افسر شاہی کے ہاتھوں میں منتقل ہو چکا۔ یہ ایک جمہوری ریاست کے نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ میں تبدیل ہونے کا عمل تھا۔ عوام کے حق حکمرانی سے انکار کا یہ سلسلہ16 دسمبر1971ء کو پاکستان ٹوٹنے پر منتج ہوا۔ سیاسی رہنماؤں نے ازسرنو پاکستان کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا۔ 5جولائی1977ء کو ایک بار پھر آمریت نے شب خون مارا۔ بھٹو صاحب کو ایک ایسے مقدمے میں موت کے گھاٹ اتارا گیا جس میں اتنے قانونی سقم تھے، جتنے چھلنی میں سوراخ۔ پاکستان کے لوگوں کے خلاف یہ جرم جنرلوں کے برسراقتدار ٹولے نے کیا تھا۔ اس وقت کی عدلیہ اس جرم میں شریک تھی۔ دسمبر2000 میں نواز شریف کے مشرف حکومت سے معاہدہ کر کے جلاوطنی اختیار کرنے پر طعنے دینا آسان ہے۔ ہماری اجتماعی یادداشت کمزور ہے۔ ہمیں آمروں کا قعرمذلت میں ڈوب کر رخصت ہونا تو یاد رہتا ہے، ہمیں آمریت کا کروفر اور جبروت یاد نہیں رہتااس لئے کہ ہم اپنے اجتماعی ضمیر میں چھپے خوفناک آسیبوں کا سامنا کرنے کے بجائے اپنی ہر ناکامی کا لاشا کسی اجنبی دروازے پر چھوڑ آتے ہیں۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کا بنیادی قضیہ یہ تھا کہ اس ملک پر عوام حکومت کریں گے یا غیر منتخب طالع آزما۔ یہ طالع آزما کہیں باہر سے نہیں آتے اور ان کے حواری بھی ہمارے درمیان ہی سے برآمد ہوتے ہیں۔ سیاسی قیادت کی مجبوری ہوتی ہے کہ فوج کے کندھوں پر سوار ہو کر آنے والے آمر کی مزاحمت کرتے ہوئے فوج کے ادارے کی مذمت نہیں کی جا سکتی۔ وطن سے محبت کرنے والا کوئی شہری اپنے ملک کی فوج کا مخالف نہیں ہو سکتا۔ ادھر بندوق بردار طالع آزما کے لئے کوئی اخلاقی بندش نہیں ہوتی کہ بیک جنبش لب ساری سیاسی قیادت کو بدعنوان اور نااہل قرار دے۔
آئین کو بارہ صفحات کا کتابچہ قرار دے۔ محب وطن سیاسی کارکنوں کو شرپسندوں کا نام دے اور بابائے قوم کی جعلی ڈائریاں دریافت کرے۔ 1979ء میں پیپلزپارٹی کے سامنے بھی یہ سوال تھا کہ ضیاء الحق اور اس کے ٹولے کی سیاہ کاری کو فوج سے کس طرح الگ رکھا جائے۔ سو یہ موٴقف اختیار کیا گیا کہ بھٹو صاحب کو امریکہ نے پھانسی دلائی ہے۔ سبب یہ کہ بھٹو صاحب عالم اسلام اور تیسری دنیا کو متحد کر رہے تھے اور ایٹم بم بنانا چاہتے تھے۔ ارے بھائی کہاں کی تیسری دنیا؟ یہ سرد جنگ کے تناظر میں گھڑا ہوا ایک سیاسی نعرہ تھا۔ آدھی آمریتیں روس کی پناہ میں تھیں اور آدھی آمریتوں کو امریکہ راتب فراہم کرتا تھا۔ صاحب کیسی اسلامی دنیا؟ بیشتر مسلم اکثریتی ممالک کے حکمران تب بھی امریکہ کے کاسہ لیس تھے اور آج بھی ہیں۔ ایٹم بم بنانے کا ارادہ اگر ایسا ہی خطرناک تھا تو ضیاء الحق امریکہ کی ناک کے نیچے ایٹم بم بناتا رہا۔ عالمی طاقتوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں انہیں آمریت سے نفور نہیں ہوتا اور انسانی حقوق سے غرض نہیں ہوتی۔ ضیاء الحق اور امریکی حکومت کا معاشقہ تو دسمبر 1979ء میں سوویت یونین کے افغانستان میں داخلے کے بعد شروع ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو برسراقتدار فوجی جنتا نے پھانسی دی اور سبب یہ کہ بھٹو پاکستان کا آخری سیاست دان تھا جو عوامی تائید سے حکومت کرنے کا ارادہ اور صلاحیت رکھتا تھا۔ جمہوری عمل کے نام ہی سے وہ ذہن بدکتا ہے جسے بھٹو صاحب بونا پارٹ ازم کا نام دیتے تھے۔ بھٹو کے حامی تعداد میں بھی کم پڑ گئے اور ان کی توانائیاں بھی پیچ دار غلام گردشوں کی نذر ہو گئیں مگر وہ سوال جو بھٹو نے تین اپریل کی رات اڈیالہ جیل کے احاطے میں اٹھایا تھا ابھی تک زندہ ہے ، ہمارا سیاسی بیانیہ اسی سوال سے تشکیل پاتا چلا آ رہا ہے۔
پرویز مشرف وطن واپس آ گئے۔ انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہماری مخصوص فکری کج روی کے عین مطابق پرویز مشرف کے خلاف فرد جرم میں اکبر بگٹی، لال مسجد اور بے نظیر بھٹو کے حوالے گونج رہے ہیں۔ پرویز مشرف کے بنیادی جرائم دو ہیں۔ اس نے کارگل میں مہم جوئی کر کے منتخب حکومت کو مفلوج کیا اور اکتوبر 99ء میں منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کر کے آئین شکنی کی۔ چنانچہ اس نے غاصبانہ اقتدار کے 9برس میں جو کچھ کیا وہ ایک جرم مسلسل کی حیثیت رکھتا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ فوج اپنے سابق سربراہ کی توہین نہیں ہونے دے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا پرویز مشرف نے آئین شکنی کر کے فوج کا احترام بڑھایا تھا۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ کیا ممکنہ طور پر رکن پارلیمینٹ بننے کے بعد پرویز مشرف آئین اور پارلیمینٹ کی بالادستی کا دفاع کر سکیں گے۔ ہماری تاریخ اصغر خان ، اسلم بیگ اور حمید گل جیسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ پرویز مشرف کا مخمصہ یہ ہے کہ وہ سابق آمر ہوتے ہوئے اپنی آئین شکنی کا دفاع کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بونا پارٹ ازم اور جمہوری حکمرانی کی کشمکش کا سوال ہے۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ پرویز مشرف سیاست میں بری طرح ناکام ہوں گے۔
اس وقت ملک میں عوام کے حق حکمرانی سے جڑی ہوئی ایک مشق جاری ہے۔ انتخابی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال ہو رہی ہے۔ امیدواروں سے عبادات نیز مقدس آیات سے متعلق سوالات کئے جا رہے ہیں۔ ایک گروہ آئین کی 62  63 شقوں کی لفظ بہ لفظ پابندی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ ایک اور گروہ کا تقاضا ہے کہ امیدواروں کی اہلیت کو صرف مالی بے ضابطگیوں تک محدود رکھا جائے۔ دونوں گروہ اپنی اپنی فکری افتاد کے مطابق 62  63 کی آئینی شقوں سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ اصل سوال شہریوں کے تین بنیادی حقوق کا ہے۔ بالغ رائے دہی کا حق غیر مشروط ہے۔ ووٹ دینے کے اسی حق سے رائے دہندہ کا حق امیدواری منسلک ہے۔ جو ووٹ دے سکتا ہے، وہ ووٹ کے لئے امیدوار بھی ہو سکتا ہے۔ انتخابی عمل میں شرکت کے اس غیر مشروط حق سے جمہوری حکمرانی کا تیسرا اہم اصول برآمد ہوتا ہے۔ پارلیمینٹ کا حق قانون سازی مطلق اور غیر مشروط ہے۔62  63 کی دہائی دراصل پارلیمینٹ کے حق قانون سازی ہی کی جڑیں کاٹتی ہے۔ 62  63 کے مندرجات ضیاء الحق کی آمریت کی دین ہیں۔ ان میں گناہ اور مذہبی تعلیمات جیسے موضوعی تصورات شامل ہیں۔ آج الیکشن کمیشن اور دوسرے غیر منتخب اداروں کے ذریعے سیاسی مخالفین کی نااہلی کا تقاضا ہو رہا ہے۔ حتمی تجزیئے میں یہ دفعات اپنے فرقے کے سوا دوسروں کو کافر سمجھنے والے خدائی فوج داروں کے ہاتھ میں عوام کے حق حکمرانی کے خلاف ہتھیار بن جائیں گی۔ یہ مثالی جمہوریت کے نام پہ حقیقی جمہوریت کا قتل ہے۔ بھٹو کا اٹھایا ہوا سوال ابھی غیر متعلق نہیں ہوا۔ اگرہم ہر برس 4/اپریل کو قبروں پہ رکھے پھول گنتے ہیں تو آج 62  63 پر بغلیں بجانے والے کل سر نہوڑائے سوچیں گے کہ ترکشوں میں بچے ہوئے ہیں اصول کتنے۔