ہاتھی کی آزادی اورکشمیر کہانی

May 24, 2020

تحریر:روبینہ خان۔۔۔ مانچسٹر
یہ سچی کہانی سری لنکا کے ایک ہاتھی کی ہے۔یہ ہاتھی بہت ہی خوبصورت بھولا بھالا اور معصوم سا تھا اس کا نام کاون تھا۔جب یہ ایک سال کا ہوا تو سری لنکا کی گورنمنٹ نے اس کو تحفہ کے طور پر اپنے دوست ملک کے حکمران کو دے دیا ۔ہاتھی اپنے ماں باپ سے الگ ہوکر
دوسرے ملک جا پہنچااس کو چڑیا گھر میں پہنچا دیا گیاتاکہ بچے اس خوبصورت ہاتھی کو دیکھ کر خوش ہوں ۔بچے تو اپنے ساتھی دوست کو دیکھ کر خوش ہوتے تھےلیکن ہاتھی کو کوئی چیز خوش نہیں کر رہی تھی اور وہ یہاں پر بچوں کے لئے خطرہ بنتا جارہا تھااس کے ساتھ اس کی ساتھی ، ساحلی بھی تھی جو کہ بنگلہ دیش سے اس کے لیے لائی گئی تھی۔بدقسمتی سے ساحلی بیمار ہوگئی اور اس کا ساتھ چھوڑ گئی۔اون اور ساحلی 22سال اس چڑیا گھر میں اکٹھے رہے تھے۔ اس افسوسناک واقعہ کے بعد ہاتھی کاون کی شرارتیں تشدد کی صورت اختیار کر گئی اور اس وجہ سے چڑیا گھر کے حکام نے اس کو زنجیریں پہنا دیں۔اس کے پاس کھیلنے کے لیے ایک چھوٹا سا تالاب تھا اور شاید کھانا پینا بھی اچھے طریقے سے نہیں دیا جاتا تھا۔ہو سکتا ہے کہ اردگرد کے جانور اس کی تنہائی اور بے چارگی پر ہنستے ہوںوہ لوگوں کو محظوظ کرنے کی بالکل بھی کوشش نہیں کرتا تھاعام طور پر چڑیا گھر کے جانور لوگوں اور خاص طور پر بچوں سے مانوس ہوتے ہیںکاون کے سلسلے میں یہ بات بالکل غلط تھی ۔ہماری اس دنیا میں جہاں جہاں انسان موجود ہیں، وہاں ان کے بنیادی حقوق متعین کردیئے گئے ہیں۔اصولی طور پر انسان کو حقوق ملنے چا ہئے۔بالکل اسی طرح حیوانات کے بھی حقوق ہیں۔رقی یافتہ ملکوں میں تو ان کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔پالتو جانوروں کی خوراک کیلئے گھر کے افراد کی طرح کھانے پینے کی چیزیں خریدی جاتی ہیں۔ موسم کیسا بھی سخت ہو ،ڈوگز کی تفریح کے لئے ان کو گھر سے باہر سیر کے لیئے لے کر جایا جاتا ہے۔خیراتی ادارے لوگوں سے فنڈز اکٹھا کرتے ہیںاور دنیا میں موجود کمزور اور بے گھر جانوروں کو شیلٹر مہیا کرتے ہیں۔دیکھا جائے تو واقعی ان لوگوں کے دلوں میں جانوروں کا بہت ہی درد موجود ہےجو کہ ایک صحیح بات بھی ہے۔ایسے ہی درد بھرے دل کے ساتھ ایک خاتون سنگر نے چڑیا گھر کے ہاتھی کاون کی تصویر دیکھی جو تنہائی اور بوریت کا شکار نظر آتا تھا۔اور اپنے حیوانی حقوق سے محروم تھا۔اس خاتون نے لوگوں سے لاکھوں کی تعداد میںدستخط کروا کر ایک پٹیشن تیار کی اور اس کے بعد عدالت میں اس مقدمے کو لے گی کہ اس ہاتھی کو آزاد کیا جائے اور اس کواس کے حقوق دیے جائیں اس کو سری لنکا واپس کیاجائے ۔چار سال تک چلنے والے مقدمے کا فیصلہ چار دن قبل کیا گیا ہےاور عدالت نے فیصلہ دیا ہےکہ کاون کو رہا کردیا جائے اور وائلڈ لائف اس کو سری لنکا میں محفوظ گھر تلاش کرکے دے ۔ 33سالہ ایشین ہاتھی کو اس کی اصل جگہ پہنچا کر اس کی آزادی واپس کی جائے۔یہ کہانی اسلام آباد کے "مرغزار زو" ، کے ہاتھی کے بارے میں تھی۔مورل آف دی سٹوری --دنیا میں جہاں بھی ظلم ہو رہا ہو، وہاں پر اس کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چا ہئے۔اب دنیا کے نقشے پر انسانوں کی دنیا کی طرف آ جائیںجہاں پر ملیئنز لوگ بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں جہاں پر ان کی آزادی سلب کی جا چکی ہے۔ایسی ہزاروں تصویریں اور ویڈیوز ہم دیکھتے ہیں جہاں پر کمزوروں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہےلیکن نہ کسی کے دل میں کوئی درد جاگتا ہے اور نہ ہی کوئی قابل عمل تحریک شروع ہوتی ہے۔ کورونا وائرس کے نتیجے میں دنیا بھر میںلاک ڈاؤن کیا گیاحالانکہ یہ قدم لوگوں کی حفاظت کے لئے تھا تاکہ کورونا وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص تک منتقل نہ ہو۔جلد ہی لوگ تنگ آگئےان کو اپنی آزادی چا ہئے تھی ۔پچھلے دنوں لندن میں بہت سے لوگوں کی گرفتاریاں بھی ہوئیں جو ایک مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ حکومت ان کو نہیں بتا سکتی کہ وہ گھر میں رہیں گے یا وہ باہر نکلیں گے یہ ان کا اپنا فیصلہ ہونا چا ہئے ۔یہ بات قطعی ناقابل فہم ہے کہ مہذب دنیا میں لاک ڈاؤن کے باوجود مغربی دنیا سے ایسی کوئی سٹیٹمنٹ سننے کو نہیں ملی جس میں یہ کہا گیا ہو کہ کشمیریوں کی خبر لو جن کو انسانی حقوق کے خلاف گھروں میں قید کیا گیا ہے۔ وہاںاگست کے مہینے سے سیکورٹی کے نام پر لاک ڈاؤن ہے۔تاحال انفرمیشن بلیک آؤٹ ہے ان پر ظلم ہو رہے ہیں۔ان کو مارا جا رہا ہے۔نوجوانوں کو گھروں سے اٹھا کرلے جایا جا رہا ہے۔ایک نوجوان نے بتایا کہ پولیس نے اس کو اتنا مارا کہ وہ بے ہوش ہوگیا۔ وہ جب ہوش میں آتا مارپیٹ کا سلسلہ پھر سے شروع ہو جاتا۔یہ ایک کی نہیں ہزاروں نوجوانوں کی روزمرہ کی کہانی ہےجو سچی بھی ہے اور دردناک بھی ہے۔دنیا جانتی ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہو رہا ہے ماورائےعدالت قتل ،ریپ،تشدد اور انسانوں پر پیلٹ گنز کا استعمال ہو رہا ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر کے بارے میں کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔اس کو دونوں ملکوں کے درمیان اندرونی معاملہ کہہ کر بات ختم کردی جاتی ہے۔پاکستانیوں کو کشمیریوں کا درد محسوس ہوتا ہے لیکن ابھی تک کچھ کیا نہیں جاسکا۔ ترکی اور ملائشیا کی طرف سے انٹرنیشنل فورمز پر مقبوضہ کشمیر کے حق میں آواز بلند کی گئی۔اقی اسلامی دنیا پر مقبوضہ کشمیر کے سلسلے میں سکوت طاری ہے۔متحدہ عرب امارات کی جانب سے تو انڈین حکومت کو اعزازات سے نوازا گیا ہے۔بعض عرب ممالک کی کشمیر کے سلسلے میں بے حسی سے سب واقف ہیں۔ شکوہ کریں تو کس سے کریں۔فلسطینیوں کی آزادی کی بات کریں یا روہنگیا کے مسلمانوں کے حقوق کی بات کریں۔کراچی میں پی آئی اے کے کے جہاز کی تباہی نے ہر دل کو دکھی کردیا ہے۔اللہ تعالی مرنے والوں کو جنت میں جگہ دے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔اس مرتبہ میٹھی عید میں مٹھاس ہوگی نہ رنگ ہوگا تاہم عید ایک مذہبی فریضہ ہے۔اکستان میں تو عید کی نماز ادا ہوگی کیونکہ لاک ڈاؤن ختم چکا ہےلیکن یوکے بھر میں تو لوگ عید گاہ نہیں جاسکیں گے اور سماجی دوریوں کی وجہ سے" عید مبارک" کا واحد ذریعہ ورچوئل ہوگا ۔ اگر خوش رہنے کے لیے کوئی کہانی ہے تو ہاتھی کی آزادی کی کہانی ہے جو اپنے انجام کو پہنچی۔ یوں بھی کہتے ہیں کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا
پاؤں۔بہرحال خواہش کرنے میں کیا حرج ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی پر درد کہانی ختم ہوجائےان کو حق خود ارادیت دیا جائےجو کہ اقوام متحدہ کےچارٹر کے عین مطابق ہے۔