سلطنت کی بقا شاہانہ کروفر نہیں، طاقتور افواج ہوتی ہیں

May 27, 2020

تحریر: حافظ عبدالاعلیٰ درانی۔۔ بریڈفورڈ
ایک کرنل کی بیوی کے حوالے سے جواودھم مچی وہ ہمارے ناہموار معاشرے کا ایک نمونہ تھا جس کی اصلاح فی الحال نظر نہیں آتی لیکن اس کی آڑ میں پاک فوج کے خلاف جو بلاوجہ طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا وہ نہایت غلیظ ہے کیونکہ یہ محاورہ بن چکا ہے کہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرنا ہو تو علما اور مدارس دینیہ کے خلاف بھڑکاؤ اور جب پاکستان کی سلامتی کے خلاف فضا پیدا کرنی ہو تو پاک فوج کے خلاف منفی پروپیگنڈہ شروع کردو ۔ جب بھی کوئی ایسا ناہموار واقعہ پیش آتا ہے تو پاک فوج کے خلاف زبان طعن دراز کی جاتی ہے لیکن ان ملک دشمن عناصر کی یہ سازش سب طبقے جان چکے ہیں اس لیے وہ برادشت کرجاتے ہیں آئیے آپ کو ملکوں کی تباہی کی وجہ فوج کو کمزور کرنا ثابت کردیتے ہیں۔ یاد رہے کہ کوئی بھی حکمران جو پاک فوج کے خلاف بولے گا عوام الناس انہیں لاجواب کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں :۔ یہ بغداد ہے خلیفہ پورے کروفر سے کرسی پر بیٹھا ہوا ہے اور سب وزیرو مشیر اس کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں۔ ’’ عوام پر اور ٹیکس لگاؤ اور خزانہ جمع کرو مجھے نیا محل تعمیر کرنا ہے ، خلیفہ وقت معتصم باللہ نے کہا پر حضور وہ مزید محصول نہیں دے سکیں گے ہم پہلے ہی ان کی اوقات سے زیادہ وصول کررہے ہیں تو پھر میرا محل کیسے تعمیر ہوگا ؟ اخراجات کم کرنے سے ، خلیفہ بغداد کے دربار میں مشہور تقیہ باز درباری مشیر و وزیر ابن علقمی نے کہا اخراجات سب سے زیادہ کس چیز پر ہورہے ہیں ؟ خلیفہ نے استفسارکیا آپ کے شاہانہ کروفر اور اسلامی فوج پر ، ابن علقمی نے کہا مجھے کیا کرنا چاہئے ابن علقمی ! خلیفہ نے پھر پوچھا خلیفہ کے شاہانہ کروفرمیں تو کمی وبیشی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا ، البتہ فوج کی تعداد اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کم کردیتے ہیں حضور خلیفہ نے چند لمحے سوچا اور فوج کو کم کرنے کا حکم دے دیا ، پونے دو لاکھ مسلح اسلامی فوج گھٹ کر دس ہزار رہ گئی ، زائد اسلحہ بیچ دیا گیا ، اور ابن علقمی کی دعوت پر ہلاکو سر پہ آن کھڑا ہوا ، بغداد تباہ کردیا گیا دس لاکھ لوگ مار دیئے گئے اور خلیفہ معتصم باللہ کو بیڑیوں میں جکڑ کر ہلاکو کے سامنے پیش کیا گیا ، ہلاکو کے دن رات خلیفہ کے محل میں گزرنے لگے جس طرح بلی شکار کے ساتھ کھیلتی ہے اسی طرح ہلاکو خلیفہ کے ساتھ کھیلتا ،خلیفہ کو کئی دن بھوکا رکھ کر جب ہلاکو نے خلیفہ کی میز پر کھانا کھاتے ہوے اسے دعوت دی تو وہ دوڑا چلا آیا اس کے لئے ایک طشت ڈھانپ کر اس کے سامنے رکھی گئی، کھاؤ ، کھاتے کیوں نہیں ؟ ندیدے پن سے طشت دیکھتے خلیفہ کو ہلاکو نے حکم دیا، خلیفہ نے طشت کا کپڑا اٹھایا تو دیکھا کہ وہ ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا تھا ، خلیفہ کا ہاتھ رک گیا، کھاؤ معتصم باللہ کھاؤ پیٹ بھرنے کو ایک روٹی کافی ہوتی ہے تم دولتوں کے انبار اکٹھے کرتے رہے ، کھاؤ اپنا یہ اکٹھا کیا ہوا مال ، ہلاکو نے سپاہی کو اشارہ کیا، اس نے جواہرات کی مٹھی بھری اور خلیفہ کے منہ میں انڈیل دی ، جتنی دولت تم نے اپنی شان و شوکت پر لگائی اتنی اپنی فوج بنانے میں لگاتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا،کیا تمہیں نہیں معلوم کہ ’’سلطنتیں ظاہری شان و شوکت یا آرائشوں سے نہیں بچا کرتیں ، یہ طاقتور افواج کی وجہ سے بچا کرتی ہیں ، ہلاکو نے گداز قالین کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے کہا۔اے نرم قالینوں کے عادی انسان کاش تم نے جنگوں کی گرمی کا مزہ چکھا ہوتا ، تمہارے کنیزوں کے رقص پر داد دیتے ہاتھوں نے تلوار کی گرفت محسوس کی ہوتی تو آج اس ذلت کا سامنا نہ کرنا پڑتا،نرم قالینوں کے عادی انسان کو اسی کے قالینوں میں لپیٹ دو اور اسے گھوڑوں کی سموں تلے روند کر نشان عبرت بنا دو جن کو اپنے دفاع سے زیادہ اپنی عیاشیوں کی فکر ہو ان کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں، اپنی ہی فوج کے اٹھارہ فیصد بجٹ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے والے مسلمانوں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ کے گھر فاقے ہوتے تھے پر ان کے گھر کی دیواریں تلواروں سے سجی ہوتی تھیں ، سہولتوں ، عیاشیوں میں بقا ڈھونڈنے والو بقا صرف طاقت سے ملتی ہے ورنہ کیا لیبیا و عراق کے لوگ سہولتوں کے عادی نہ تھے ، ملٹری بجٹ پر طعنہ زنی کرنے والو امریکہ سے برطانیہ تک جن کی خوشحالیوں پر تمہاری آنکھیں چکاچوند ہیں ان کی تاریخیں تو پڑھو کہ ان کی سہولتیں بھی طاقتور افواج رکھنے کی وجہ سے ممکن ہو سکیں جو قومیں چہار طرف سے اپنے دشمنوں میں گھرے ہونے کے باوجود محافظوں کے ہاتھ باندھنا چاہیں وہ بقا کا حق کھو بیٹھتی ہیں۔ پاک فوج زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔