’وقت کی قدر و قیمت‘ اسلامی تعلیمات ک روشنی میں

June 07, 2020

ارشادِ ربانی ہے،’’(اُن سے کہا جائے گا) خوب لُطف اندوزی کے ساتھ کھاؤ اور پیو ،اُن (اَعمال) کے بدلے، جو تم گزشتہ (زندگی کے) اَیّام میں آگے بھیج چکے تھے۔‘‘(سورۃ الحاقہ)اس کے برعکس اگر اس زندگی میں وقت کی قدر نہ کی جائے اور اسے غفلت، سُستی و کاہلی میں گزارتے ہوئے برائی، شر کی نذر کردیا جائے، تو پھر مایوسی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سورۃ الفاطر میں ارشاد ربانی ہے، ’’کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو شخص نصیحت حاصل کرنا چاہتا، وہ سوچ سکتا تھا اور (پھر) تمہارے پاس ڈر سنانے والا بھی آچکا تھا، پس اب (عذاب کا) مزہ چکھو، سو ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہ ہوگا۔‘‘یہی وہ بنیادی فلسفہ ہے، جس کے باعث اسلام میں وقت کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اسے ضایع کرنے کے ہر پہلو کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ وقت کی قدر و منزلت اُجاگر ہو اور ہم ہر ساعت کو بہتر طریقے سے گزارنے کے قابل بن جائیں تاکہ ہمیں دنیا اور آخرت کی فوز و فلاح نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے، جس سے وقت کی بے پناہ اہمیت اُجاگر ہوتی ہے، کیوںکہ اللہ عزوجل کبھی بھی کسی کم تر چیز کی قسم نہیں کھاتا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ العصر میں زمانے کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا، ’’بےشک انسان خسارے میں ہے۔‘‘ (کہ وہ عمرِ عزیز گنوا رہا ہے)۔ حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا، ’’دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں، صحت اور فراغت۔‘‘ (صحیح بخاری، سنن ترمذی) اللہ تعالیٰ انسان کو جسمانی صحت اور فراغتِ اوقات کی نعمتوں سے نوازتا ہے، تو اکثر سمجھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہیں گی اور انہیں کبھی زوال نہیں آئے گا، حالاںکہ یہ صرف شیطانی وسوسہ ہے۔

لہٰذا انسان کو ان عظیم نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے انہیں بہتر طریقے سے استعمال میں لانا چاہیے۔ حضور اکرمﷺ کا ارشاد پاک ہے، ’’قیامت کے دن بندہ اس وقت تک (اللہ کی بارگاہ میں) کھڑا رہے گا، جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے گا۔ 1: اس نے اپنی زندگی کیسے گزاری؟ 2: اپنے علم پر کتنا عمل کیا؟ 3: مال کہاں سے کمایا اور کیسے خرچ کیا؟)4) اپنا جسم کس کام میں کھپائے رکھا؟‘‘(جامع ترمذی) حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا،’’اگر قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا سا پودا ہو تو اگر وہ اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ وہ حساب کے لیے کھڑا ہونے سے پہلے اسے لگا لے گا، تو اسے ضرور لگانا چاہیے۔‘‘(مسنداحمد بن حنبل) ذرا دیکھیے، حضور اکرمﷺ کس قدر وقت کی اہمیت اور اعمالِ صالحہ کا کس قدر احساس دلارہے ہیں کہ اگر قیامت قائم ہوجائے اور کوئی اس نفسانفسی کے عالم میں بھی ذرّہ بھر نیکی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، تو اس میں بھی غفلت کا مظاہرہ کرے، نہ وقت ضایع کرے بلکہ فوراً نیکی کر ڈالے۔ حضرت عبداﷲ بن عباس ؓسے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، ’’پانچ چیزوں کو پانچ سے قبل غنیمت سمجھو، زندگی کو مرنے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، فراغت کو مشغولیت سے پہلے، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، اور مال داری کو فقر سے پہلے۔‘‘ (مستدرک حاکم) اس حدیثِ پاک میں ہر صاحب ِ ایمان کے لیے یہ تعلیم ہے کہ اس فانی زندگی کے اوقات و اَدوار کو بہت دھیان اور توجّہ کے ساتھ گزارے۔

زندگی کو مرنے سے پہلے غنیمت سمجھے اور اس بات کا استحضار رکھے کہ روزِ قیامت اس کی ہرہر چیز کا حساب ہوگا۔ اس سے ہر چیز کے بارے میں باز پُرس ہوگی اور اسے اپنے ہر ہر قول و فعل کا جواب دینا ہے۔ قیامت کے دن اس کے اعمال نامے کو تمام اوّلین و آخرین کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ یہ وقت بڑی قیمتی دولت ہے، اس سے جو فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے، وہ کرلیا جائے، آج صحت و تن درستی ہے، کل نامعلوم کس بیماری کا شکار ہونا پڑجائے۔ آج جوانی کا سنہرا دَور ملا ہوا ہے، کل بڑھا پے میں نہ جانے کن احوال سے سابقہ پڑے اور کیا امراض و عوارض لاحق ہوجائیں۔ آج صاحبِ حیثیت ہیں، کل پتا نہیں کیا حالت ہوجائے؟ اس لیے جو کرنا ہے، کرلیا جائے، جو کمانا ہے کمالیا جائے، جو فائدہ اٹھانا ہے اٹھالیا جائے، ورنہ وقت دودھاری تلوار ہے، اگر ہم نے اسے نہ کاٹا، تو وہ ہمہیں کاٹ ڈالے گی۔

ارشادنبویؐ ہے، صحت اور فراغت دو ایسی عظیم نعمتیں ہیں، جن کے معاملے میں بے شمار لوگ خسارے میں رہتے ہیں، اس لیے بعد میں پچھتانے سے بہتر ہے کہ آج ہی ان کی قدرکرلے۔‘‘ (بخاری، ترمذی) عموماًجن صالح بندوں کے مزاج میں دین داری اور نیکی ہوتی ہے، وہ وقت کے قدر دان ہوتے ہیں۔ انہیںاپنی آخرت بنانے اور دنیا سنوارنے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ وہ بےکاری، آوارگی، لہو و لعب اور فضولیات میں اپنا وقت ضایع نہیں کرتے، کسی کا برائی سے تذکرہ کرنے، عیب جوئی، بہتان تراشی اور بے کار ولایعنی گفتگو کی انہیں فرصت نہیں ملتی۔ ان کی عملی زندگی حدیثِ نبویؐ کی عملی تفسیر ہوتی ہے۔ ترجمہ: ’’بےشک انسان کے اچھا مسلمان ہونے کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے کار اور فضول چیزوں کو چھوڑ دے۔‘‘ (ترمذی 2/58)

ہمارے اسلاف و بزرگانِ دین کی تاب ناک سیرت اور پاکیزہ زندگی میں بھی عمل کا داعیہ رکھنے والوں کے لیے بہترین اسوہ ہے کہ ان حضرات نے اپنی حیات ِ فانی کاسفر پوری ہوش مندی اور بےداری کے ساتھ مکمل فرمایا اور زندگی کے تمام مراحل میں وقت کی قدر دانی کی۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے ’’مومن صرف تین چیزوں کا آرزو مند ہوتاہے (1) توشہ آخرت کی فراہمی،(2) معاش کے لیے تگ و دو،(3) حلال چیزوں سے لطف اندوزی۔‘‘ اس حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ہر ایک مسلمان کو اپنے اوقات کس انداز میں ترتیب دینےچاہئیں اورایک مومن ومسلم سے اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنے اوقات کو یا تو عبادت میں لگائے اوراس کے بعد معاش کے حصول میں صرف کرے، کیوںکہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے، فرائض کے بعد جو فریضہ انسان پر عائد ہوتاہے، وہ حلال کمائی کا حصول ہے اور اس کے بعد جو وقت بچے، وہ اسے جائز تفریحات میں صرف کرے۔

اسلام نے جہاں ہر چیز کی حدود بتائی ہیں، وہیں اس نے تفریحات کی حدود سے بھی آگاہ کیا ہے۔ بہت سے لوگ ماضی کی خوش کن یادوں یا ماضی کی تلخیوں میں کھوئے رہتے ہیں، جب کہ بہت سے لوگ مستقبل کے حسین خواب دیکھتے اور آرزؤں اورتمناؤں کے محل تعمیر کرتے رہتے ہیں۔ حالاںکہ اگر غور سے دیکھا جائے، تو ماضی گزر چکا ہے اور مستقبل آنے والا ہے اورآنے والا وقت کیسا ہوگا، اس بارے میں کسی کو کچھ پتا نہیں۔ اس لیے اصل وقت جو ہر انسان کو حاصل ہے، وہ حال کا وقت ہے، جس میں آپ اورہم ہر ایک جی رہا ہے۔ امام غزالیؒ اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔ اوقات تین طرح کے ہیں، ایک وہ جس کے بارے میں انسان کو کچھ سوچنا نہیں ہے کہ وہ کیسے گزرا، مشقّت میں یاعیش وعشرت میں۔ ایک وہ جو آنے والا ہے، لیکن ابھی تک نہیں آیا، اورانسان نہیں جانتا کہ اس کے آنے تک وہ زندہ بھی رہے گا یا نہیں۔

مزید یہ کہ اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ اس میں اس کے ساتھ کیا فیصلہ فرمانے والاہے۔ اورتیسرا وقت وہ ہے، جو حاضر وموجود ہے، جس میں انسان کو اپنے رب کے احکام کی پاس داری کے ساتھ بھرپور جدوجہد کرنی چاہیے، اس طرح اگر آنے والا وقت نہ بھی مل سکا، تو کم ازکم موجودہ وقت کے ضایع ہونے کی حسرت تو نہیں رہےگی اوراگر آنے والا وقت آگیا، تو اس کاحق بھی وہ اسی طرح ادا کرے، جس طرح پہلے وقت کا کیاہے اپنی آرزوؤں کو پچاس سال تک دراز نہ کرے، بلکہ جو وقت ملا ہے، اس سے کماحقہ فائدہ اٹھانے کا عزم کرے، اور اس وقت کا استعمال اس طرح کرے، گویا یہ اس کی زندگی کے آخری لمحات ہیں۔