آفات، جنگیںں، مصائب اور انسان

June 08, 2020

٭… انسان نے ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے لئے اب تک جتنے ہتھیار تیار کئے ہیں ان میں زیادہ مہلک اور خطرناک کیمیاوی ہتھیار ہیں۔ یہ زہریلے کیمیکل ہیں جو گیس کی صورت میں بھی ہیں اور پائوڈر میں بھی۔ ان کو ہوا کے ذریعہ بھی پھیلایا جاسکتا ہے

٭…جدید ٹیکنالوجی کے حصول میں جس تیزی سے دنیا میں سیکڑوں سائنس دان اور ماہرین کام کررہے ہیں، یہ مصنوعی ذہانت کے حصول کی دوڑ ہے جس میں بیشتر ممالک نے ہزاروں روبوٹ تیار کرلئے ہیں جو دنیا کا ہر کام کرسکتے ہیں وہ بھی جوانسان کے بس میں نہیں ہے۔

٭…انسان نے اتنی ساری قدرتی آفات کے باوجود اپنی ترقی اور خوشحالی کے لئے کچھ اہم ترین ایجادات کی ہیں جو خود اپنے طور تباہ کن ثابت ہوسکتی ہیں۔ مثلاً گلوبل سسٹم آف سائبر ٹیکنالوجی جو دنیا کی معیشت، صنعتوں، سرمایہ کاری، بینکاری اور سیاست کو فروغ دینے کے لئے انتہائی مفید سسٹم ہے۔ اس سے دیگر شعبہ ہائے زندگی میں مدد لی جارہی ہے۔ اس نظام کو جدید سہولیات کی فراہمی کے لئے ہر طرف استعمال کیا جارہا ہے اس کے ساتھ ساتھ کچھ مفاد پرست یا جرائم پیشہ ماہر اس کو منفی طور پر بھی استعمال کررہے ہیں۔

کرہ ارض پر انسانی حیات اور بقا کی جدوجہدایک طرف آگ اور خون سے لبریز جنگ و جدل سے بھری پڑی ہے تو دوسری طرف قدرتی آفات اور خوفناک وبائی امر اض کی تباہ کاریوں سے بھری ہے۔انسانی تاریخ میں مختلف طاعونی وبائی امراض کے لرزہ خیز و اقعات رقم ہیں جن کی وجہ سے لاکھوں انسانوں کی جانیں گئیں، شہر اجڑے، ملک برباد ہوگئے اور تہذیبیں مٹ کر رہ گئیں یہ خوفناک اور ہولناک سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

پانچ ہزار قبل مسیح میں ’’صر‘‘ نامی طاعون دنیا میں پھیلا تھا غالباً اس کی شروعات چین کے قصبے سے شروع ہوئی تھیں، اس وبائی بیماری نے اطراف کے تمام علاقوں کی آبادیوں کو مٹادیا تھا۔ ماہر آثار قدیمہ نے اس گائوں کی کھدائی تو اس جگہ اور اطراف میں سیکڑوں جلی ہوئی کھوپڑیاں دریافت ہوئیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس طاعون میں مبتلا ہو کر مرنے والوں کی لاشوں کو گڑھوں میں ڈال کر جلادیا گیا تھا۔ اس جگہ کا قدیم نام ہامین منگا تھا۔ماہر آثار قدیمہ نےچین کے شمال مشرق کے علاقے میں بھی ایک شہر دریافت کیا جہاں اسی قسم کی وبائی بیماری اس تیزی سے پھیلی کہ وہ شہر سمیت اطراف کی آبادیاں بھی موت کا شکار ہوئیں، لوگوں کو دفنانے کا بھی موقع نہیں ملا۔

430 قبل مسیح میں یونان کے شہر ایتھنز میں پلیگ کی وبائی بیماری کے پھیلنے کے آثار ملے ہیں۔ اس وقت یونان اور اسپارٹا کی جنگ جاری تھی، یہ خطرناک وبائی مرض پانچ سال تک چلتا رہا۔ اس طاعون میں تقریباً ایک لاکھ سے زائدافراد ہلاک ہوگئے۔معروف یونانی تاریخ داں تھیس ڈمیڈنٹ کے مطابق تندرست و توانا فرد کا یکایک سرگرم ہوجانا، آنکھیں سرخ ہونا منہ سے خون بہنا اور پتپتے ہوئے جسم کےساتھ گر کر ہلاک ہوجاتا تھا۔ ستم یہ کہ اس وبائی مرض کے باوجود یونان اور اسپارٹا میں جنگ جاری رہی اور اسپارٹا کو زبردست شکست ہوئی۔ یونانی یہ جنگ جیت کر بھی وبائی مرض سے ہار گئے۔

180 عیسوی میں روم میں انٹونیو نامی پلیگ کی وباپھوٹ پڑی۔ اس طاعون کے روم میں پھیلنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ رومن اپنے پڑوس میں ایک بڑی جنگ جیت کر واپس آرہے تھے وہ اپنے ساتھ یہ بیماری بھی لے آئے۔ اس کا کسی کو علم نہ تھا۔ یہ چیچک کی وبا تھی جو کچھ دنوں بعد ظاہر ہونا شروع ہوئی اس وبا کانام انٹونیو پلیگ رکھا گیا ،کیونکہ سب سے پہلے اس نام کے سپاہی کو چیچک نکلی تھی۔ اس طاعون نے آناً فاناً پوری فوج سمیت پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس خوفناک طاعون سے روم اور اس کے اطراف میں آباد تقریباً تیس لاکھ افراد موت کی نیند سو گئے۔ اس میں یہی ہوا کہ رومن اور اسپارٹا کی جنگ تھی جس میں رومی فتح یاب ہو کر بھی اس طاعون کے ہاتھوں برباد ہوگئے۔

250 عیسوی میں روم پھر ایک وبائی بیماری نے ڈیرے ڈلال دیئے اس کو سائبیرین پلیگ کا نام دیا گیاہے۔ اس وبائی بیماری سے ہر روز تقریباً پانچ ہزار افرد ہلاک ہورہے تھے اور رومن کہتےتھے دنیا کا خاتمہ ہورہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں افراد ہلاک ہوگئے۔ لاشوں کو بڑے بڑے گڑھوں میں ڈال کر ان پر چونا لیپ کردیا گیا۔ آثار قدیمہ کے ماہرین نے ایسی قبریں بھی کھودی ہیں جس میں لاشوں کو آگ لگا کر جلایا گیا اور ان پر بھی چونا ڈالا گیا۔

سال 540 عیسوی میں بازنطائن ایمپائر کے دور میں جیئن نامی ایک وبائی مرض پھوٹ پڑا۔ اس دور میں بازنسٹائن کی سلطنت مشرقی مغربی یورپ سے مشرق وسطیٰ تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس وبائی مرض میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے جس سے بہت سے شہر اور گائوں ویران ہوگئے۔ بازنطائن سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔

سال 1342 عیسوی میں مغربی ایشیا کے کچھ علاقوںمیں بلیک ڈیتھ نامی پلیگ کی وبا پھوٹ پڑی جو یورپ کے علاقوں میں پھیل گئی۔ اس خوفناک طاعون سے آدھا یورپ متاثر ہوا شہروں اور گائوں میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اس کی وجہ سے کھیتوں اور شہروںمیں کام کرنے والے مزدور نایاب ہوگئے، کاروبار زندگی بری طرح متاثر ہوگئی ایسے میں بعض یورپی ملکوں کے ذہین افراد نے افرادی قوت کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ٹیکنالوجی دریافت کی اس دور میں یورپی ممالک بہت پسماندہ تھے مگر انسان زندہ رہنے کی جدجہد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا ہے۔

سال 1568 میں میکسیکو اور وسطی امریکا میں ایک خطرناک وائرس پھوٹ پڑا جس کو اس دور کے لوگوں نے کوکولیز کا نام دیا یہ وبائی بخار کی بیماری تھی جس میں شدت سے سردی لگتی اور بدن بخار سے تپنے لگتا جس کے بعد ناک سے خون بہتا اور مریض جاں بحق ہوجاتا اس مرض نے ان خطوں میں مسلسل تین سال تک تباہی پھیلائی اس وبائی بیماری سے مرنے والوں کی تعداد پندرہ لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔

سولہویں صدی کے آخری عشروںمیں شمالی امریکا کے ساحلی شہروںمیں پلیگ کی وبا پھوٹ پڑی یہ وبائی مرض یورپی اپنے ساتھ امریکا سے ہجرت کرکے لائے یہ بیماری آنے والے یورپی مہاجرین کے ساتھ ساتھ وہاں آباد ریڈ انڈین میں بھی پھیل گئی۔ ایک طرف یورپی مہاجرین وہاں کی مقامی آبادیوں پر حملے کرکے ان کو قتل کررہےتھے دوسری طرف چیچک جیسی موذی بیماری ان کے گلے پڑی اس میں ریڈ انڈینز کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ یورپی نووارد آکر یہاں اپنے جھنڈے گاڑھتے رہے اس پلیگ یورپی مہاجرین میں برطانوی، فرانسیسی، ہسپانوی، ولندیزی اور پرتگیزی بھی شامل تھے ان کی بھی بڑی تعداد اس بیماری سے ہلاک ہوئی۔

1664ءمیں لندن میں زبردست طاعون پھیلا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یورپی علاقوں کے لوگ ہجرت کرکے لندن آرہے تھے انہیں روزگار کی تلاش تھی، آنے و الوں کے ساتھ یہ وبائی بیماری بھی آگئی۔ یہ وبائی مرض پورے برطانیہ میں پھیل گیا جس میں بتایا جاتا ہے کہ پندرہ لاکھ افراد ہلاک ہوئے اس میں لندن کے سولہ ہزار شہری بھی شامل تھے۔ یہ وہی دورتھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کررہی تھی۔ ستم یہ کہ اس وبا کے خاتمے کے بعد ستمبر1666میں لندن کے باسیوں کو ایک اورہولناک مصیبت کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ لندن کے ایک علاقے میں آگ لگ گئی جو بے قابو ہوتے ہوئے آدھے سے زائدشہر میں پھیل گئی اس گریٹ فائر سے شہر کا آدھا حصہ تباہ ہوگیا بیشتر افراد آگ کی لپیٹ میں آکر ہلاک ہوگئے۔

1720ء میں فرانس کے جنوبی ساحلی شہر مرسلیز میں طاعون کی وبا پھیل گئی ۔ بتایا جاتا ہے کہ شہر کی بندرگاہ پر لنگرانداز ایک جہاز جو مشرقی بحیرہ روم کے علاقے سے امان لے کر آیا تھا اس سےچوہے شہر میں آئے اس جہاز کو قرنطینہ کردیا گیا تھا مگر جو چوہے شہر میں آگئے تھے انہوں نے پورے شہر میں پلیگ کی وبا پھیلادی۔ یہ وبا تین سال تک جاری رہی جس میں ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

1770ء میں روس کے شہر ماسکو میں طاعون کی وبا پھیلی، حکومت نے فوری لوگوں کو قرنظینہ میں رکھنا شروع کیا ، بڑے کلیسا کے آرچ بشپ نے بھی کلیسا میں عبادت کے اجتماع پر پابندی عائد کردی اس پر بہت سے شہری مشتعل ہوگئے اور شہر میں دنگے پھوٹ پڑے۔ اس وقت روس میں ملکہ کیتھرائن دوم کی حکمرانی تھی۔ ملکہ نے سختی سے جنگوں کو روکا اور قرنطینہ لازمی قرار دیا جس کے ایک عرصے بعد اس وبا کا خاتمہ ہوا مگر اس افراتفری اور طاعون کی وبا سے ایک لاکھ سے زائد افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

1793 ء میں اس وقت کے امریکی دارالخلافہ فلاڈلفیا میں یلوفیور یا پیلے بخار کی وبا پھوٹ پڑی۔ یہ مچھروں کی وجہ سے وبا پھیلی تھی ایسے میں یہ خبر اڑی کہ افریقی حبشی غلاموں کا خون گاڑھا ہوتا ہے ان پر مچھر کے کاٹنے کااثر نہیں ہوتا اس خبر کے بعد تمام سیاہ فام افریقی غلاموں کو نرسنگ کے کام پر لگادیا گیا۔ پیلے بخار کی وبا سے کالے گورے سب مرنے لگے جب موسم سرما شروع ہوا تو وبا ختم ہوئی اس وبائی مرض سے پانچ ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

1916 ء میں نیویارک میں پولیو کی وباپھیلی جس میں ستائیس بچے شدید متاثر اور معذورہوگئے، جبکہ چھ ہزار بچوں کی موت ہوگئی یہ بیماری زیادہ تر بچوں ہی میں پھیلتی ہے اس وقت اس کی ویکسین نہیں تھی۔ امریکی محکمہ صحت نے تحقیق کے بعد 1954ء میں پولیو کی ویکسین تیار کی۔ اس ویکسین کو تیار کرنے کے لئے نجی کمپنیوں نے خاصا زور لگایامگر حکومت نے اس دوا کواپنے کنٹرول میں رکھا ۔ اب بل ملینڈ گیٹس فائونڈیشن نے فلاحی طور پر اس ویکسین کے قطرے پلانے کی دنیا بھر میں مہم چلائی ہے جس کے نتیجے میں پولیو کا موذی مرض اب اٹھانوے فیصدختم ہوگیا ہے تاہم پاکستان میں بعض لوگ بچوں کو یہ ویکسین کے قطرے پلانے سےاجتناب برتتے ہیں ایسے میں حکومت کوعوامی آگہی پروگرام عام کرنا چاہئے۔

1918ء میں اسپین میں انفلوئنزا کا وائرس پھیلا۔ ابتدا میں اس پر کسی نے خاص توجہ نہ دی، مگر یہ فلو بہت تیزی سے پھیلتا چلا گیا اس وقت اس کی کوئی مخصوص دوا بھی نہیں تھی یہ پہلی جنگ عظیم کا دور تھا اوھر ہر طرف افراتفری مچی ہوئی تھی۔کہا جاتا ہےکہ یہ خوفناک وبا اسپین سے نہیں پھیلی بلکہ یورپ کے کسی علاقے سے اسپین میں داخل ہوئی تھی حالانکہ اسپین پہلی جنگ عظیم میںشامل نہیں تھا اور غیر جانبدار تھا۔ یہاں اخبارات آزاد تھے اور فلو کی خبریں شائع کررہے تھے جبکہ باقی یورپ کے اخبارات پر جنگ کی وجہ سے پابندیاں عائد تھیں اس لئے بھی اس فلو کو اسپین کے فلو سے تعبیر کیا جاتا رہا۔ اس وبا نے یورپ کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ امریکی بحری بیڑہ میں 40؍فیصد فوجی فلو کے نرغے میں آگئے اور یہ امریکا تک پھیل گیا۔ جنگ کی وجہ سے اسپتال زخمیوں سے بھرے تھے ڈاکٹرز اور نرسیں دن رات کام کررہےتھے دوسری طرف فلو کی وبائی بیماری ہزاروں لوگوں کو نڈھال کررہی تھی۔

حکومتوں نے اس وقت بھی لاک ڈائون کا سلسلہ شروع کیا، اجتماعات پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ اسکول، تھیٹر، کلب، مارکیٹ سب بند کردیئے گئے۔ اس بیماری میں بتایا جاتا ہے کہ پہلے کھانسی ہوتی، نزلہ زکام اور بخار بھی چھوت کی بیماری کی طرح لگ جاتے ،اس کے متاثر کرنے کی صورت حال لگ بھگ کرونا وائرس جیسی تھی۔ فلو سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے تدفین مشکل ہوگئی تھی۔ دوائیں نایاب تھیں اس لئے ڈاکٹرز نے اس علاج کے لئے اسپرین تجویز کرنا شروع کردی اس کے بعد معلوم ہوا کہ اسپرین دوا کے بجائے زہر کا کام کررہی ہے ،مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔ امریکا میں اس وقت فلاڈلفیامرکزی شہر تھا۔

امریکی ڈاکٹروں نے اس فلو کو وقتی قرر دیا اور خاص توجہ نہ دیاس وجہ سے یہ وبا اور پھیل گئی اور مرنے والوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوگیا اس وبائی مرض سے صرف امریکا میں پندرہ ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔ 1919ء تک تین سال میں اس وبائی بیماری سے تین کروڑ سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ کسی وبائی مرض میں مرنے والوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔ 2008ء میں تحقیق سے معلوم ہوا، اسپینش فلو اس قدر مہلک کیوں ثابت ہوا، اصل میں تین جین مل کر مریض کے حلق میں سانس کی نالیوں پر حملہ کرتے اورپھر پھیپھڑوں میں جرثومے دوسرے جرثوموں کے لئے جگہ بناتے اور اس انفیکشن سے مریض فوراً ہلاک ہوجاتا تھا۔ 1919ء کے آخر میں اس فلو کی ویکسین تیار کرلی گئی۔ 1919ء سے اب تک مختلف فلو اور وائرس پھیلتے رہے مگر یہ اتنے مہلک نہ تھے۔

1958ء میں فلو یا انفلوئنزا ایک نئی وبا بن کر پھیلا اور دنیا کے مختلف ممالک میں اس کے پھیلنے سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔ بہت سے افراد ہلاک ہوئے اس فلو کی بھی دوا تیار کرلی گئی ہے۔ 2009ء میں سوان فلو دنیا میں پھیلا اس وبائی مرض میں تیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ۔

2019ء میں کرونا وائرس چین کے شہر ووہان سے پھیلا اور اس نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ اس وائرس کی ویکسین تیار کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ لاکھوں افراد اس وائرس میں مبتلا ہیںاورلاکھوں ا فراد اس میں ہلاک ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ پوری دنیا دو ماہ سے لگ بھگ ساکت ہے ۔تعلیمی ادارے، تھیٹر، سنیما ہائوس، کھیل کے میدان، عبادت گاہیں، شاہراہیں سب سنسان ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ اپنے گھروںمیں بند ہیں، صنعتیں بند ، ہوائی سفر بند، سرحدوں پر پہرے ، سماجی، سیاسی اور مذہبی رابطے، اجتماع سب منقطع ہیں۔ دنیا کے سیاستدان، رہنما سب حیران اور پریشان ہیں۔ دنیا شاید پہلے کبھی اتنی ساکت اور چپ سادھ کر نہ رہی ہو۔جدید دنیا میں اس نوعیت کی صورت حال کا تصور تو نہیں تھا مگر ایک وائرس نے یہ سب کچھ کر دکھایا ۔

1981ء میں افریقا سے ایڈ وائرس یا ایچ آئی وی نمودار ہوا۔ کہا جاتا ہے یہ وائرس چمپنزی بندروں سے انسانوں میں پھیلا۔ اس کا پہلا کیس افریقہ میں سب سحارا کے خطے میں سامنے آیا بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس علاقے میں بہت لوگ اس وائرس میں مبتلا ہیں اب تک ایچ آئی وی کا علاج نہہو سکا، حالانکہ اس پر بڑے تحقیقی ادارے کام کررہے ہیں مگر دنیا میں اس وائرس کو عام بیماری کے طور پر تصور کیاگیا، مگر جون 1981ء میں ہالی ووڈ کے معروف اداکار راک ہڈسن کو یہ بیماری لگی تو انہیں پیرس لایا گیا جہاں وہ زیر علاج رہے تب بھی کوئی زیادہ ہلچل نہیں ہوئی جب راک ہڈسن کی اسپتال سےجاری ہونے والی آخری تصویر دنیا کےسامنے آئی تب ایڈ وائرس کے بارے میں دنیا ہل کر رہ گئی۔ راک ہڈسن کی موت کے بعد اس وائرس کے بارے میں مزید تحقیق شروع کردی گئی ہےمگر علاج معلوم نہیں ہوسکا ہے۔

2014ء میں افریقا سے ایبولا وائرس کے بارے میں دنیا کو آگہی ہوئی۔ یہ مغربی افریقہ کے ممالک سینیگال، لائبریا، سیرالیونمیں پھیلا۔ ایک سال میں گیارہ ہزار مریض سامنے آئے۔ کہا جاتا ہے یہ وائرس چمگادڑوں سے انسانوں میں پھیل گیا، اس پر بھی تحقیق جاری ہےمگر تاحال اس کی دوا تیار نہیں ہوسکی ہے۔

2015ء میں جنوبی امریکا اور وسطی امریکا میں ایک وائرس جس کو زیکا وائرس کا نام دیا گیا ہے تیزی سے پھیل رہا ہے یہ وائرس مچھروں کے ذ ریعے پھیلتا ہے اس وائرس کا زیادہ تر حاملہ خواتین نشانہ بنتی ہیں۔ یہ مخصوص مچھر ہیں جو اس وائرس کو پھیلانے کا سبب ہیں یہ وائرس پہلے برازیل میں سامنے آیا پھر میکسیکو، وینزویلا کےبعد امریکا کے جنوبی شہر میں بھی بعض مریض اس وائرس سے متاثر ہوئے، اس پر بھی تحقیق جاری ہے۔

1970ء میں مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں بحرہند کے وسط میںاٹھنے و الے ٹروپیکل طوفان نے آہستہ آہستہ زورپکڑنا شروع کیا ،ہوائیں 118؍ میل فی گھنٹہ کی رفتارسے چلنے لگیں اور سمندر میں زبردست ہلچل دکھائی دی جوبعد ازاں خلیج بنگال کے ساحلوں کے قریب آپہنچا ہوا 150 میل فی گھنٹہ چل رہی تھی سمندر کی موجیں پندرہ سے بیس فٹ اونچی تھیں پھر اچانک خوفناک اونچی لہر جو طویل علاقے کو گھیرے ہوئے تھی ۔نکوبار، جھولا، جھانگا جزائر کو تباہ کرتی ہوئی مشرقی بنگال کے ساحل سے ٹکرائی اور مین لینڈ پر میلوں اندر آگئی جس میں پورے علاقے چھوٹے بڑے گائوں ،شہر پانی کی شدت میں بہہ گئے، کھیت اجڑ گئے، مکانات زمیں بوس ہوگئے، جانور پانی میں بہہ گئے۔ غیر جانبدار موسمیاتی اداروں کے سروے کے مطابق اس سمندری طوفان میں چار سے پانچ لاکھ افراد مرگئے، ہزاروں کے بارے میں معلوم نہیں ہوا کہ وہ سمندر کی نذر ہوگئے۔ اس سمندری طوفان کو بیسوی صدی کا سب سے بڑا قدرتی سانحہ کہا جاتا ہے جبکہ 1991س میں بھی بنگلہ دیش میں ایسا ہی سمندری طوفان برپا ہوا مگر اس میں ایک لاکھ کے قریب امو ات ہو ئیں۔

2004ء میں انڈونیشیا کے جزیرہ سماترا میں سمندر میں زلزلہ آنے کی وجہ سے بہت خوفناک سمندری طوفان سونامی کی میلوں تک بربادی پھیلاتا چلا گیا بحر ہند میں آنے والے زلزلہ کی وجہ سے سونامی میںڈھائی سے تین لاکھ افراد ہلاک اور ہزاروں بہہ گئے۔ جزائر غرقاب ہوگئے، ساحلی پٹی کی آبادیاں بہہ گئیں۔ بعض سروے رپورٹس میں بتایا گیا اس سونامی میں دس لاکھ افراد بہہ گئے انسانی لاشوں کا طویل سلسلہ ساحلوں کے ساتھ زمین پر اٹھ گیا۔

1550ء میں چین کے صوبے شیانگ ہو میں خوفناک زلزلہ آیا ۔جس نے پورے خطے میں خوفناک تباہی مچادی۔ جدید تحقیق کے مطابق اس زلزلہ کی شدت 8ریکٹر؍ اسکیل بتائی جاتی ہے جس میں ہزاروں افرادہلاک ہوئے۔ صوبے کی تمام پکی اور کچی عمارتیں مٹی کا ڈھیر بن گئیں اس پر ایک ستم یہ ہوا کہ اس زلزلہ کے بعد شہر میںآگ بھڑک اٹھی، سات مربع میل کا علاقہ اس تباہی کی لپیٹ میں آیا۔کچھ ایسی ایک اور قدرتی آفت1887ءمیں چین کے صوبہ ہانگ میں آئی جس میںبہنےوالے بڑے دریا یلوریور میں طوفانی بارشوں کے سلسلے میں زوردار طغیانی نے سر اٹھایا اس طغیانی میں کئی سو میلوں تک کے علاقے پانی میں ڈوب گئے۔ کھیت ، کھلیان ،گائوں ،مویشی سب بہہ گئے ۔اس یلو ریور کے ہولناک سیلاب کا ریکارڈ دستیاب نہیں کہ اندازہ کیا جاسکے اس میں کتنا جانی نقصان ہوا۔ اسی طرح 1931ءمیں چین کے وسطی علاقے میں منہ زور دریا نگ سی میں طوفانی بارشوں کی وجہ سے اونچے درجے کا سیلاب آیا۔ اس خوفناک سیلاب کی وجہ سےستر ہزار ایکڑ مربع میل کا علاقہ تباہی اور پانی کے ریلوں کی زد میں آگیا۔ دریا کے دونوں جانب کے شہر اورگائوںزمین بو س ہوگئے ہزاروں انسانی جانیں تلف ہوئیں اس قدرتی آفت کے حوالے سے بھی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔

مذکورہ قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ انسانوں کو اس کرہ ارض پر اور بھی کئی خطرات کا سامنا ہے جیسے گلوبل وارمنگ ۔ تحقیق دانوں کے مطابق اگر زمین کا درجہ حرارت تین فارن ہائٹ تک بڑھتا رہےتو اس سے پریشانی اورمسائل تو ہوں گے مگر اس کو خوفناک یا تباہ کن نہیں کہہ سکتے۔ اگر زمین کادرجہ حرارت 8-10 فارن ہائٹ تکبڑھ جائے تو یہ خطرناک ہے۔ اس درجہ گلوبل وارمنگ بڑھ جائے تو تباہ کن اثرات نمایاں ہوں گے، اس لئے سائنس دانوں اور ماہرین ارضیات کا اصرار یہ ہےکہ گلوبل وارمنگ میں اضافہ کی روک تھا م کے لئے حکومتیں با مقصد اقدام کریں، اس کو سیاسی مسئلہ نہ بنائیں۔

دنیا کے تقریباً تمام سائنس دان اور دانشور وں کاایٹمی جنگ یا جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں ایک خیال ہیں کہ دنیا برباد ہوجائے گی اور بچے کچھے انسان نئی زندگی کا آغاز کریں گے۔ کچھ دانشور جوہری جنگ کو دنیا کی مکمل تباہی سے بھی تعبیر کرتے ہیں ،اس لئے ان کا کہنا ہے ہیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹمی حملے کے بعد کسی بڑی طاقت نے بڑی بڑی طویل جنگ لڑیں جن میں تابکاری ہتھیار کااستعمال نہیں کیا گیا۔ یو ںبھی اب اعلانیہ اورغیر اعلانیہ ممالک کی تعداد دو درجن کے قریب ہےجن کے پاس ایٹمی قوت ہے۔ اس حوالے سے ایسی جنگ انسان کے ہاتھوں انسانوں اور اس کرہ ارض کی تباہی پر ختم ہوگی جو دنیا کا سب سے بڑا آخری تباہ کن سانحہ ہوگا۔ اس طرح انسان نے اتنی ساری قدرتی آفات کے باوجود اپنی ترقی اور خوشحالی کے لئے کچھ اہم ترین ایجادات کی ہیں جو خود اپنے طور تباہ کن ایجادات ثابت ہوسکتی ہیں۔ مثلاً گلوبل سسٹم آف سائبر ٹیکنالوجی، دنیا کی معیشت، صنعتوں، تجارت، سرمایہ کاری، بینکاری اور سیاست کو فروغ دینے کے لئے انتہائی مفید سسٹم ہے۔

اس سے دیگرشعبہ ہائے زندگی میں مدد لی جارہی ہے۔ اس نظام کو جدید سہولیات کی فراہمی کے لئے ہر طرف استعمال کیا جارہا ہے اس کے ساتھ ساتھ کچھ مفاد پرست یا جرائم پیشہ ماہر اس کو منفی طور پر بھی استعمال کررہے ہیں۔ 2016ء میں امریکی صدارتی مہم کے دوران اس جدید ٹیکنالوجی سے دوسروں کے پروگرام چرانے، ہیک کرنے یا سسٹم جام کرنے کے بارے میں بھی شور اٹھا تھا۔ اس کے علاوہ اس جدید ٹیکنالوجی سے بینکوں سے گھر بیٹھے چوری کرکے رقومات اپنے اکائونٹ میں ٹرانسفر کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ جدید آئی ٹی کے نظام سے دوسروں کے سیاسی، صنعتی اور ٹیکنالوجی کے راز چرانے کا بھی سلسلہ سامنے آرہا ہے۔ اس جدید ٹیکنالوجی سے کبھی بھی کوئی بڑا حادثہ سانحہ رونما ہونے کے خدشات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

جدید ٹیکنالوجی کے حصول میں جس تیزی سے دنیا میں سیکڑوں سائنس دان اور ماہرین کام کررہے ہیں۔ یہ مصنوعی ذہانت کے حصول کی دوڑ ہے جس میں بیشتر ممالک نے ہزاروں روبوٹ تیار کرلئے ہیں۔ یہ روبوٹ دنیا کا ہر کام کرسکتے ہیں وہ بھی جوانسان کے بس میں نہیں ہے۔ روس کے صدر پیوٹن نے کچھ عرصہ قبل ماسکو میں نوجوانوں کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا جدید اجارہ دار سرمایہ داری نظام میں ادارے افرادی قوت کو کم سے کم کرکے سارا کام روبوٹس سے لیں گے تو مستقبل میں روزگار کے خصوصاً ماہرین کی ضرورت کم ہوجائے گی۔ اس طرح کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے پھر اس جدید ٹیکنالوجی اور روبوٹس پر انحصار میں اضافہ کی صورت میں یہ دشات بھی لاحق ہیں کہ مشین خراب بھی ہوسکتی ہے اگر ایسا ہو تو پھر اچانک الیکٹرونک کا پور انظام جام ہوسکتا ہے یا پھر یہ کام جان بوجھ کر بھی کیا جاسکتا ہے۔

اس حوالے سے لیزر ٹیکنالوجی اب مزید ترقی کی منزلیں طے کرچکی ہے ۔ کہا جاسکتا ہے یہ ٹیکنالوجی جس قدراہم اور مفیدہے اس قدر مہلک اور ضرررساں بھی ہے۔ اس حوالے سے ایک بڑا خطرہ یہ بھی ہےکہ کرہ ارض کے اوپر خلا میں تقریباً تمام ممالک کے موسمیاتی، نشریاتی، خلائی، ملکوں کی فوجی نقل و حرکت کرنے، ہوائی آمد و رفت، جہاز رانی، دیگر معلومات اورسروسز کے بے شمار سیارچہ خلا میں زمین پر چکر لگارہے ہیں۔ بڑے ممالک جیسے چین، امریکا اور روس کے پرانے سیارچہ ٹوٹ پھوٹ کا بھی شکار ہیں مگر مدار میں اس بڑے جنگ یارڈ سے دنیا کی آبادی کو بیشتر خدشات لاحق ہیں۔جوں جوں آئی ٹی، نینو ٹیکنالوجی، لیزر اور خلائی ٹیکنالوجی میں ترقی ہورہی ہے، اسی تنائب سے خدشات بھی سر اٹھارہےہیں۔ معروف دانشور تاریخ داں نوم چومسکی نے اپنے بیشتر مقالات میںانسان کو لاحق خطرات اور خدشات کا ذکر کردیا ہےتاہم وہ گلوبل وارمنگ اور ایٹمی جنگ کو انسانیت کے لئے بڑےخطرات قرار دیتے ہیں۔

کہا جاتا ہےکہ جنگ و جدل کے لئے انسان نے ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے لئے اب تک جتنے ہتھیار تیار کئے ہیں ان میں زیادہ مہلک اور خطرناک کیمیاوی ہتھیار ہیں۔ یہ زہریلے کیمیکل ہیں جو گیس کی صورت میں بھی ہیں اور بعض پائوڈر میں ہیں۔ ان کو ہوا کے ذریعہ بھی پھیلایا جاسکتا ہے، جس سے انسانی اعصاب ناکارہ ہوجاتے ہیں ۔انسان چند لمحوں میں کربناک موت کی نیند سو جاتا ہے۔ بعض کیمیاوی ہتھیار صرف حیاتیات کو ختم کردیتے ہیں جس میں انسان جانور سب ہی شامل ہیں ۔بعض حیاتیات کے ساتھ عمارتوں کو تباہ کرتے ہیں ۔زمانہ قدیم میں زہریلی اشیا موجود تھیں، جس سے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا تھا۔ اجتماعی طور پر انہیں استعمال نہیں کیا گیا البتہ 19 ویںصدی کے آخر میں کیمیاوی اشیا کی تیاری عمل میں آئی صنعتیں ترقی کررہی تھیں اس میںبھی ترقی ہوئی۔

پہلی جنگ عظیم میں جرمنی نے کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال کلورین کا استعمال کرکے بیلجیم میں 1915ء میں ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک کردیئے۔ کہا جاتا ہے کہ کلورین کے ساتھ سلفر مسٹرڈ اور پھوسوجین گیس کا استعمال کیا گیا تھا۔ جرمنوں نے پہلی جنگ عظیم میں ہائیڈروجن سائینائیڈ گیس استعمال کرکے تقریباً بارہ لاکھ افراد ہلاک کئے تھے ۔ کیمیکل ہتھیاروں کا استعمال جرمن نازیوں نے قیدیوں کے محصور کیمپوں پر حملے میں کیا ،ان میں زیادہ تر یہودی ہلاک ہوئے تھے۔

ویتنام کی جنگ میں امریکا نے بدنام زمانہ اورنج کیمیکل گیس استعمال کی تھی۔ امریکا نے ویتنام میں کیمیکل ہتھیار استعمال کئے، مگر اس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا پتہ نہیں چلا۔ ویتنام کی جنگ میں پہلی بار نئے بم نیپام کا بھی بے دریغ استعمال کیا تھا جس میں ویتنامی اور ویتنامی گوریلے ہزاروں کی تعداد میں ہلاک ہوئے تھے۔

جرمنی نے جنگ کے دوران مزید خطرناک کیمیاوی ہتھیار تیار کرلئے تھے، جس میں تابن گیس اور سایرن گیس شامل ہیں۔ ان کے بارے میں بتایا جاتاہے یہ حیاتیات پر حملہ کرتی ہیں اور چند لمحوںمیں سانس گھٹ جانے سے جاندار ہلاک ہوجاتا ہے مگر جرمنی کو ان کیمیاوی گیسوں کے استعمال کا موقع نہیں ملا اور جرمنی نے اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ ان تمام خطروں اور ہولناکیوں کے علاوہ قدرتی آفات میں کائنات اور خلائی وسعتوں سے زمین پر گرنے والے شہاب ثاقب، ستاروں کی ٹوٹی چٹانیں، سورج کی تابکار شعاعیں، یہ بھی خطرات ہر لمحہ موجود ہیں، مگر بیشتر سائنس دانوں اور ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاکھوں برسوں میں زمین نے کیا کچھ نہیں سہا ہے۔

اس پر آباد انسانوں نے بھی زمانہ قدیم میں بہت سے عذاب اورکرب سہے ہوں گے، مگر پھر بھی زمین اپنے محور پر قائم ہے اور انسان ہر روز صبح تا شام اپنے معمولات نبھاتا ہے۔ یہ کرہ ارض کھربوں کھربوں ٹن وزنی لوہے کا گولا ہے۔ ماہر ارضیات سام ہیوز کا کہنا ہے زمین سے بہت چٹانیں ٹکرائی ہیں، مگر یہ اپنی جگہ قائم ہے۔