رعایا سے اور کیا چاہتے ہیں سرکار

June 09, 2020

تاریخی حقیقت ہے کہ برصغیر کے ہم لوگ صدیوں سے نزلہ زکام سے آشنا ہیں بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ نزلہ زکام صدیوں سے برصغیر سے دامن گیر رہا ہے۔ سچ پوچھئے تو نزلہ زکام کی غیرموجودگی ہمیں اچھی نہیں لگتی۔ ہم لوگ اُداس ہو جاتے ہیں۔ بہتی ناک اور چھینکنا برصغیر کی مشترکہ ثقافت ہے۔ یاد رہے کہ مشترکہ ثقافتوں کا بٹوارا نہیں ہوتا۔ کراچی اور کولکتہ کے لوگ ایک ساتھ چھینکتے ہیں، ایک ساتھ کھانستے ہیں۔ کورونا کی طرف برصغیر کے لوگوں کا وہی رویہ ہے جو دنیا بھر کا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ نعرے نہیں لگاتے۔ ہم نعرے لگاتے ہیں۔ کورونا کے حوالے سے ہمارے ہاں ہر دلعزیز نعرہ ہے ’’کورونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے‘‘۔ یہ نعرہ اس قدر مقبول ہو چکا ہے کہ نوزائیدہ دنیا میں آنے کے بعد روتے نہیں۔ دنیا میں آنے کے بعد نوزائیدہ نعرہ لگاتے ہیں ’’کورونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے‘‘۔

ایک چھوٹے بچے نے اپنی ماں سے پوچھا۔ ’’امی، ہم اگر کورونا سے ڈرتے نہیں، تو پھر ہم گھروں میں چھپ کر کیوں بیٹھے ہیں؟ باہر نکل کر کورونا سے لڑتے کیوں نہیں؟‘‘۔ ماں نے کہا ’’بیٹا، کچھ لڑائیاں چھپ کر لڑی جاتی ہیں، جیسے تمہارے ابو اور میں چھپ کر لڑتے ہیں اور تم بچوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی‘‘۔ بچے کو فوراً بات سمجھ میں آگئی۔

کورونا کے حوالے سے اب ہم ایسی بات کرتے ہیں جو کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ بات نہ چھوٹے بچوں کی سمجھ میں آتی ہے، اور نہ بوڑھے بچوں کی سمجھ میں۔ بات کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے۔ سن لینے میں مضائقہ نہیں ہے۔ آپ بھی سن لیجیے۔ یو ایس ایس آر USSR، عام فہم نام، روس، 1922سے لے کر 1991تک، یعنی تقریباً ستر برس تک اپنی فوجی قوت اور کمیونسٹ نظریے کے دبدبے سے دنیا پر اثرانداز رہا تھا۔ ایشیائی نوجوانوں کو کمیونزم میں رومانس دکھائی دیتا تھا۔ اس دوران بین الاقوامی شہرت کے حامل روسی ادیبوں ٹالس ٹائے، گورکی، دوستو وسکی اور چیخوف کی تحریروں نے نوجوانوں کو روس اور کمیونزم کا گرویدہ بنادیا تھا۔ رومان کے زیر اثر کسی کو اس بات کی پروا نہیں تھی کہ گورکی، ٹالس ٹائے، دوستووسکی اور چیخوف کمیونسٹ نہیں تھے۔ ان کے لیے کافی تھا کہ ٹالس ٹائے، دوستووسکی، گورکی، چیخوف روسی تھے۔ نوجوانوں میں کمیونزم کی طرف جھکائو میں نے اپنے کالج اور یونیورسٹی میں طالب علمی کے دور میں قریب سے دیکھا تھا۔ خود کو کمیونسٹ، کامریڈ اور لیفٹسٹ Leftistکہلوانا اور ظاہر کرنا فیشن بن چکا تھا۔ والدین بچوں کے بدلتے ہوئے رویوں کی وجہ سے پریشان رہتے تھے۔ وثوق سے کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ نظریاتی طور پر آخر کمیونسٹ کیا ہوتے تھے۔ کیا وہ کافر ہوتے تھے؟ کیا وہ دہریے ہوتے تھے؟ کیا وہ ملحد ہوتے تھے؟ کیا وہ خدا کے وجود پر یقین رکھتے تھے؟ کیا ہوتے تھے وہ لوگ؟ غیریقینی نے والدین کو مخمصوں میں ڈال دیا تھا۔ والدین کو یقین تھا کہ کمیونسٹ خدا کے ہونے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ان کو باور تھا کہ کمیونسٹ مذاہب اور عقائد پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ مذاہب کو کمیونسٹ انسان کے لیے افیون کہتے تھے۔ والدین بچوں کے لیے پریشان رہتے تھے۔

ستر برس کے غیرمعمولی سیاسی، نظریاتی اور فوجی اثرورسوخ کے باوجود سوویت یونین یعنی روس عالمی عقائد پر حاوی ہونے میں ناکام رہا تھا۔ انیس سو اکانوے میں سوویت یونین اس طرح ٹوٹا کہ ٹکڑوں میں بکھر گیا۔ ستر برس کے بےدریغ دھونس کے باوجود روس ایک دن کے لیے بھی کسی حیلے بہانے سے دنیا میں ایک عبادت گاہ بند کرانے کی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ مجھے ڈاکٹر مبارک علی سے رجوع کرنا پڑے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ تاریخ میں کبھی کوئی ایسا وقت، ایسا دور آیا تھا جب عبادت گاہیں بند کردی گئی تھیں۔ صدیوں پر محیط تاریخ میں انسان کا بےشمار وبائوں سے پالا پڑا ہے مگر کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ وبائوں اور آفتوں سے گھبرا کر انسان نے عبادت گاہوں کو بند کردیا تھا۔ اس کے برعکس وبائوں اور آفتوں کے دوران وہ عبادت گاہوں کا رخ کرتے تھے اور خالقِ حقیقی سے پناہ مانگتے تھے۔ ان آفتوں اور وبائوں میں لاکھوں کروڑوں لوگ مر جاتے تھے۔ کورونا سے مرنے والوں کی تعداد تین لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ دنیا کی آبادی سات سو کروڑ ہے۔ سات سو کروڑ کا ایک فیصد بنتا ہے سات کروڑ اور سات کروڑ کا مطلب ہے سات سو لاکھ۔ پچھلے دو تین مہینوں کے دوران کورونا سے مرنے والوں کی کل تعداد صرف تین لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

دنیا بھر میں مکمل لاک ڈائون کے دو نتائج ہمارے سامنے آچکے ہیں۔ دنیا ستر فیصد زہریلی ماحولیاتی آلودگی سے پاک ہو چکی ہے۔ دنیا کے دیگر کارخانوں کی طرح اگر جنگی سازوسامان اور گولہ بارود بنانے کے کارخانے بھی لاک ڈائون میں بند رکھے جاتے تو ہماری دنیا گندی آلودگی سے سو فیصد پاک ہو سکتی تھی مگر دنیا بھر کے حکمراں متفق ہیں کہ لاک ڈائون کے دوران ہتھیار اور گولہ بارود بنانے والے کارخانے چلتے رہیں گے۔ سورج کی آتشی شعاعوں اور زمین کے درمیاں قدرتی ڈھال اوزون لیئر کو اصلی حالت میں لے آنا کورونا کا سب سے بڑا کمال ہے۔ کچھ پتا نہیں کہ ایجنڈا بنانے والے ہم رعایا سے اور کیا چاہتے ہیں؟