مستقبل طے شدہ ہے مگر ہمیں معلوم نہیں

June 14, 2020

ہماری کہکشاں کے پہلو میں جو قریب ترین کہکشاں ہے اُس کا نام ہم نے اینڈرو میڈا گلیکسی رکھا ہوا ہے، ستاروں کا یہ جھرمٹ زیادہ نہیں فقط پچیس لاکھ نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ میں نے خود تو کوئی تجربہ نہیں کیا البتہ سنا ہے کہ جس دن فضا صاف ہو، آسمان پر نگاہ پھسلتی جاتی ہو، آلودگی کم ہو تو اِس کہکشاں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اِس کہکشاں کو ’دیکھنے‘ کا مطلب یہ ہے کہ جو روشنی وہاں سے پھوٹ رہی ہے وہ پچیس لاکھ سال بعد ہم تک پہنچی ہے۔ عین ممکن ہے کہ جب ہم اِس کہکشاں کا نظارہ کر رہے ہوں تو اُس کا وجود ختم ہو چکا ہو کیونکہ لمحہ موجود میں ہونے کے باوجود ہم اس کہکشاں کو پچیس لاکھ سال ماضی میں دیکھ رہے ہیں یعنی ہمار ے ’وقت‘ کے حساب سے اینڈرو میڈا گلیکسی ابھی ’موجود‘ ہے مگر اِس بات کا امکان موجود ہے کہ ’حقیقت‘ میں وہ فنا ہو چکی ہو۔ اینڈرو میڈا گلیکسی کے حوالے سے ایک بہت دلچسپ ’پیرا ڈوکس‘ بھی سائنس دانوں نے تخلیق کیا ہے۔ پیرا ڈوکس کا سیدھا سا ترجمہ فدوی کے نزدیک تو معمہ ہے مگر کچھ بزرگ باراں اسے ’تضاد امری‘ بھی کہتے ہیں۔ بہرکیف، فرض کریں کہ اینڈرو میڈا گلیکسی پر ایک بے حد ترقی یافتہ مخلوق بستی ہے اور یہ مخلوق فیصلہ کرتی ہے کہ زمین پر چونکہ ہم انسانوں نے خواہ مخواہ ہڑبونگ مچا کر کائنات کا آہنگ برباد کر رکھا ہے تو بہتر ہے کہ اِن پر حملہ کرکے انہیں نیست و نابود کر دیا جائے۔ فیصلے پر عمل درآمد کی غرض سے وہ مخلوق اپنی فوجیں چوبیس گھنٹے کے بعد زمین کی جانب بھیجے گی۔ اب یاد رہے کہ آئن اسٹائن کے خصوصی نظریہ اضافت کی رُو سے زمان و مکان ’اضافی‘ یعنی relativeہیں۔ مطلب یہ کہ کسی شخص کے ساکن اور حرکت میں ہونے کا انحصار اِس بات پر ہے کہ اُس کا مشاہدہ کہاں سے کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح وقت بھی اضافی ہے، مثلاً روشنی کی رفتار کے قریب سفر کر نے والے کے لیے وقت سست پڑ جاتا ہے۔ سو، اِس نظریے کے مطابق اگر زمین پر کوئی ریل گاڑی تیزی سے حرکت کرتی ہوئی پلیٹ فارم پر ساکن کھڑے شخص کے پاس سے گزر رہی ہو تو بوگی میں بیٹھے مسافروں کے حساب سے اینڈرو میڈا گلیکسی والے ابھی زمین پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرنے کے مرحلے میں ہیں جبکہ پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر نان کباب کھانے والے شخص کے حساب سے فوجیں اُس کہکشاں سے زمین کی جانب چل پڑی ہیں۔ یعنی ایک وقوعہ بیک وقت پیش بھی آ چکا ہے اور نہیں بھی پیش آیا۔ گویا مستقبل دیکھ بھی لیا گیا ہے اور حال سے گزرے بھی نہیں۔ اسے اینڈرو میڈا کہکشاں کا معمہ کہتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات میں ہونے والے تمام واقعات کا وقت اور مقام چونکہ relativeہے اِس لیے کسی بھی طرح کا کوئی ماضی، حال اور مستقبل وجود نہیں رکھتا، ہم ایک ایسی کائنات میں زندہ ہیں جہاں تمام واقعات جو پیش آ چکے ہیں یا پیش آنے والے ہیں، سب ایک ساتھ متوازی چل رہے ہیں، ہم لوگ جو گھڑیاں اور کیلنڈر دیکھ کر وقت کا حساب لگاتے ہیں وہ خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ کائنات میں ہونے والے کسی واقعے کے وقت کا تعین کرنے کا انحصار اِس بات پر ہے کہ اِس واقعے کا مشاہدہ کرنے والا کس زمان و مکان میں ہے اور خود کس رفتار سے اور کس سمت میں حرکت کر رہا ہے۔ یہ بات اگر درست مان لی جائے اور یہ درست ماننا پڑے گی، کیونکہ ابھی تک آئن اسٹائن کی تھیوری کو سائنسی طور پر رد نہیں کیا جا سکا، تو پھر ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ مستقبل نام کی کوئی چیز اُس لحاظ سے وجود نہیں رکھتی جیسے ہم سمجھتے ہیں اور اگر مستقبل وجود رکھتا ہے تو پھر وہ کائنات میں کہیں نہ کہیں وجود میں بھی آ چکا ہے۔

آپ کی طرح میرے لیے بھی یہ بات بہت عجیب ہے کہ ہمارا مستقبل طے شدہ ہے۔ آخر ہم صبح شام اپنی زندگیوں کے فیصلے کرتے ہیں، یہ فیصلے مختلف نتائج کے حامل ہوتے ہیں، اِن نتائج کے اثرات ہماری زندگیوں پر مرتب ہوتے ہیں، اِن سے ہماری زندگیوں میں مثبت یا منفی تبدیلیاں آتی ہیں اور پھر اِن تبدیلیوں کی مسرت یا اذیت ہمیں حقیقت میں محسوس بھی ہوتی ہے۔ سائنس اور فلسفے کی یہ حیران کُن تھیوریاں مجھے بہت متاثر کرتی ہیں مگر ساتھ ہی یہ سوال بھی دماغ میں کلبلاتا ہے کہ ایسے لچھے دار اور پُرمغز تصورات سے مصیبت کے مارے انسانوں کا کیا بھلا ہو رہا ہے، کہیں ایسے فلسفے بھگار کر ہم افتادگانِ خاک کے زخموں پر نمک تو نہیں چھڑک رہے، آخر اِن تھیوریوں کا ہماری حقیقی زندگی سے کیا لینا دینا؟ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ سائنس، مذہب، فلسفہ، اخلاقیات، معاشیات، نفسیات، یہ تمام علوم بظاہر جدا جدا ہیں مگر اصل میں یہ سب آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور اِن میں ایک خاص ربط ہے۔ ایک شعبے کی تحقیق کسی نہ کسی انداز میں دوسرے علوم پر ضرور اثر انداز ہوتی ہے مثلاً میڈیکل سائنس کی ترقی سے انسانی کے موذی امراض کا علاج سہل ہو گیا ہے، نتیجتاً انسانوں کی عمریں طویل ہو گئی ہیں، اسی طرح معاشیات، نفسیات اور اخلاقیات کے نئے اصول بھی انسانوں نے وقت کے ساتھ وضع کئے جن کی مدد سے غربت، ظلم اور جبر میں کمی واقع ہوئی، گو کہ ہنوز دلی دور است۔ اب جہاں تک زمان و مکان اور فلسفے کی ان دقیق تھیوریوں کا تعلق ہے تو یہ مباحث دراصل ہماری توجہ اُن لامحدود امکانات کی طرف دلاتے ہیں جن کی طرف سے ہم نے آنکھیں موند رکھی ہیں یا اُن پر بحث کرنے سے کچھ ایسے سوالات جنم لیتے ہیں جن کے جواب تلاش کرنے کیلئے بہت سے بُت گرانا پڑتے ہیں۔ غیر عقلی ’دلائل‘ کو رد کرنےکے لیے ضروری ہے کہ سائنس اور فلسفے کی اِن گتھیوں پر بحث کی جائے، ذہنوں کو کھنگال کے دیکھا جائے کہ کہیں ہم کنویں کے مینڈک تو نہیں جو کنویں کو ہی کل کائنات سمجھ بیٹھے ہیں۔ جب ایک مرتبہ ہم یہ بات تسلیم کر لیں گے کہ اِس کنویں کے باہر ایک اینڈرو میڈا گلیکسی بھی ہے تو ہمارے سوچنے کا پیمانہ بدل جائے گا۔ یہی کافی ہے۔ بس اتنا ہی چراغ روشن کرنا ہے۔ روشنی جتنی زیادہ ہو گی، اندھیرا اتنا ہی کم ہوگا، اندھیرے میں ظلم جنم لیتا ہے، لاپتا افراد کی تعداد بڑھتی ہے۔ اینڈرو میڈا گلیکسی سے تو روشنی پچیس لاکھ برس میں پہنچ ہی جاتی ہے، ہم تک علم اور انصاف کی روشنی نجانے کب پہنچے گی!