سب کچھ پاکستان

June 19, 2020

عمر جتنی بھی طویل ہو اُسے ختم ہونا ہی ہے، زندگی کی مسافت چاہے سو برس بھی ہو اُسے ختم ہونا ہی ہے۔ زندگی سفر ہے اور سفر ختم ہو کے ہی رہتا ہے۔ ہم سب مسافر ہیں، سب کا سفر منزل پر پہنچ کر ختم ہو جائے گا۔

موت کا ایک دن معیّن ہے، کوئی لمحہ آگے پیچھے نہیں ہوتا اور انسان موت کی بانہوں میں چلا جاتا ہے۔ طارق عزیز بھی ایک مسافر تھا، دو روز قبل اُس کا سفر ختم ہو گیا۔

اب وہ منوں مٹی تلے جا چکا ہے، اُس کی قبر پر تازہ پھول بھی ہوں گے مگر وہ جو گلابوں میں گھلی ہوئی گفتگو کرتا تھا وہ نہیں ہو گی۔ ابھی کل ہی ناصرؔ کاظمی کا شعر پڑھ رہا تھا کہ

زندگی جن کے تصور سے جِلا پاتی تھی

ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے

مارچ 1936کو جالندھر میں پیدا ہونے والا 17جون 2020کو لاہور میں انتقال کر گیا۔ وہ زندگی کی بازی ہار گیا، موت کے بھنور نے اُس کی نائو ڈبو دی، اب وہ عالمِ برزخ کا مکین بن گیا ہے۔

قیامِ پاکستان کے وقت گیارہ سالہ طارق عزیز کو والدین ساہیوال لے آئے۔ میاں عبدالعزیز کا یہ فرزند شروع سے ہی ادب اور ثقافت کی طرف راغب تھا، وہ 1956-57میں گورنمنٹ کالج ساہیوال کے لٹریری سرکل کا سیکرٹری تھا۔

ہمارے دوست میاں محسن امین نے اُس کی پرانی تصویر پتا نہیں کہاں سے ڈھونڈ کے بھیجی ہے۔ طارق عزیز کے جسم میں جالندھر کی خوشبو ضرور تھی مگر اُس کا عشق پاکستان تھا۔

جالندھر کی مٹی نے بھی بڑے نامور لوگوں کو جنم دیا ۔ سب کے نام تو نہیں لکھے جا سکتے لیکن شعرو ادب سے شناسائی رکھنے والے حفیظ جالندھری اور ضیاء جالندھری کو نہیں بھول سکتے۔

اگرچہ پاکستان کے سابق صدر ضیاء الحق بھی وہیں پیدا ہوئے تھے مگر اُن کا نام ادب اور ثقافت کے اعتبار سے تو نہیں لیا جا سکتا البتہ ملکیت سنگھ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

پنجابی بھنگڑے کو رواج دینے والے ملکیت سنگھ جالندھر کے مشرقی علاقے حسین پور میں پیدا ہوئے۔ اُن کے گیتوں نے بھنگڑے میں جان ڈالی۔ اُنہوں نے ’’گڑ نالوں عشق مٹھا‘‘ گا کر بہت شہرت کمائی۔

طارق عزیز کی شخصیت کے کئی ایک پہلو ہیں، وہ براڈ کاسٹر تھے، صداکار، اداکار، صحافی اور کالم نگار تھے، شاعر اور مایہ ناز کمپیئر تھے، سیاست کا بھی حصہ رہے۔

جوانی آئی تو پھر وہ ساہیوال کے نہ رہے، کئی شہروں میں رہے، روزگار اُنہیں پھراتا رہا۔ ایک زمانے میں کراچی سے شائع ہونے والے ایک کامیاب رسالے کے مدیر تھے۔

1964میں پاکستان ٹیلی وژن پر پہلی آواز طارق عزیز ہی کی تھی پھر اُنہوں نے پی ٹی وی سے محبت کو زندگی بھر نبھایا۔ اِس سفر میں دو مرتبہ سیاست نے خلل ڈالا۔

پہلی مرتبہ یحییٰ خان کے دور میں اور دوسری مرتبہ بینظیر بھٹو کے عہد میں اُن کا پروگرام بند کیا گیا۔ طارق عزیز پیپلز پارٹی کے ابتدائی دنوں میں بڑے متحرک تھے۔ پارٹی کے بڑے بڑے جلسے ہونے لگے تو مصروفیت بڑھنے لگی۔

طارق عزیز کا پیپلز پارٹی میں یہ مقام تھا کہ بھٹو سے پہلے جو آخری دو مقرر ہوتے تھے اُن میں ایک معراج محمد خان اور دوسرے طارق عزیز تھے۔ جنرل یحییٰ کے دور میں اُنہیں بھٹو کا قریبی ساتھی ہونے کی وجہ سے ایک سال جیل میں بند کیا گیا۔

یوں ایک سال پی ٹی وی اُن کی آواز سے محروم رہا۔ اُنہوں نے طویل عرصہ نیلام گھر کیا، نام بدلا تو طارق عزیز شو بن گیا پھر یہ بزمِ طارق عزیز ہو گیا۔ بینظیر بھٹو شہید کے دور میں نیلام گھر بند ہوا، وزیراعظم کی قریبی دوست پی ٹی وی کی ایم ڈی بن گئیں۔

مغربی ثقافت کی دلدادہ یہ خاتون طارق عزیز کے شو کے پیچھے پڑ گئیں حالانکہ پی ٹی وی کا کمائو پتر یہی پروگرام تھا۔ ڈرامے بھی کماتے تھے لیکن پروگرام یہی زیادہ پیسے کماتا تھا۔

رعنا شیخ کے سامنے طارق عزیز نے دلیلیں دیں کہ ’’یہ پروگرام پاکستان کی ثقافت کو اجاگر کرتا ہے، حالیہ سروے کے مطابق یہ سب سے زیادہ دیکھا جاتا ہے، ابھی اِس نے تین کروڑ بیس لاکھ کا بزنس دیا ہے، اِسے چلنے دیں، کچھ ماہ ہی چلنے دیں تاکہ طویل ترین پروگرام کا عالمی ریکارڈ بن جائے۔

اِس سے پی ٹی وی اور پاکستان کا نام روشن ہو گا‘‘۔ تمام دلیلوں کے جواب میں ان کی ایک نہ چلنے دی گئی۔ آج طارق عزیز کو لوگ محبت سے یاد کر رہے ہیں لیکن رعنا شیخ کا کچھ پتا نہیں۔ یہی ہوتی ہے محبت، یہی انصاف اور یہی تاریخ۔

جوگی کا ہوٹل ساہیوال ہو یا پھر پنڈی کا ووگیز کیفے، طارق عزیز چہروں کا مشاہدہ کرتا رہتا تھا۔ اِسی لئے اُس کا پروگرام منفرد تھا۔ اُس کا پروگرام ادب، ثقافت، اخلاقیات، موسیقی اور پاکستانیت کا گلدستہ تھا۔

پروگرام سے باہر ہوا تو ’’داستان‘‘ کے نام سے کالم لکھنا شروع کر دیا پھر پرویز رشید اُسے مسلم لیگ نون میں لے گئے تھے۔ طارق عزیز قومی اسمبلی کے رکن بنے، اُنہوں نے عمران خان کو شکست دی۔

ہمارے سیاستدان عام آدمی کو ایوان میں کہاں برداشت کرتے ہیں۔ اسپیکر اُنہیں ’’یہ نیلام گھر نہیں ہے‘‘ کہہ کر چپ کروا دیتے تھے۔ پھر سپریم کورٹ پر حملے کا داغ اُن پر لگ گیا۔

لاہور کے تین آرائیں، میاں منیر، طارق عزیز اور اختر رسول اِس کا شکار ہوئے۔ ق لیگ کا دور آیا تو طارق عزیز کی اہلیہ ہاجرہ طارق ایم این اے بن گئیں۔

قصۂ مختصر طارق عزیز زندہ دل انسان تھے، رب کریم کے نام سے پروگرام شروع کرتے تھے اور پاکستان زندہ باد پر ختم کرتے تھے۔ اُن کا سب کچھ پاکستان تھا اور ہمارا سب کچھ پاکستان ہے مگر بقول طارقؔ عزیز

میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا مسافرو

اِس دکھ بھرے دیار میں جینا محال ہے