جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا ٹیکس دفتر کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنیکا فیصلہ

June 21, 2020

اسلام آباد(مہتاب حیدر) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا ٹیکس دفتر کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنیکا فیصلہ کیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق، سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے ایف بی آر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا ٹیکس ادائیگی دفتر آر ٹی او۔3 کراچی سے تبدیل کرکے اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ان کی غیر ملکی جائدادوں کے فنڈز کے ذرائع سے متعلق تحقیقات ہوسکیں۔

کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی وجہ سے یہ کیس ذوالفقار احمد سی آئی آر (اے ای او آئی زون)، ڈائریکٹر برائے ڈائریکٹوریٹ انٹرنیشنل ٹیکس آپریشنز، اسلام آباد کو منتقل ہوجائے گا۔ ذوالفقار احمد گریڈ 20 کے افسر ہیں جنہوں نے زیادہ تر کراچی میں فرائض انجام دیئے ہی اور اسلام آباد میں ان کا ٹرانسفر کچھ سال قبل ہی ہوا ہے۔

اعلیٰ حکام نے دی نیوز کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اپنے ریٹرن کراچی میں فائل کرتی تھیں کیوں کہ ان کی آمدنی بذریعہ تنخواہ ہوتی تھی۔ کچھ سال قبل ایف بی آر نے اس کی جگہ تبدیل کرکے کراچی سے اسلام آباد منتقل کردی تھی۔

اس پر انہوں نے احتجاج کیا تھا اور ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز میں پوچھا تھا کہ ان کی مرضی کے بغیر ایسا کیوں کیا گیا۔ جس پر ایف بی آر نے اسے واپس کراچی منتقل کردیا تھا۔ ایف بی آر کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ مسز فائز عیسیٰ کا ٹیکس دفترر کراچی میں ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے اسے اسلام آباد منتقل کرنا ہوگا۔

ایک ٹیکس افسر کا کہنا تھا کہ ایف بی آر سیکشن 111 کے تحت ٹیکس نوٹس بھیج سکتا ہے جو اثاثے چھپانے سے متعلق ہے۔ جب کہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ایف بی آر سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے نوٹس بھیجے کہ وہ بیرون ملک اثاثوں کے ذرائع آمدن کی وضاحت کریں۔

یہاں وقت کی حدود کا بھی مسئلہ ہوسکتا ہے کیوں کہ ایف بی آر پانچ سال سے زائد مدت کا کیس نہیں کھول سکتا۔ تاہم، ایک ٹیکس افسر کا کہنا تھا کہ جہاں کچھ چھپانے کا معاملہ ہو اور اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ بھی موجود ہو تو وقت کی قید نہیں ہوگی۔

ایف بی آر کی اس انکوائری کے دوران زرعی آمدنی کا مسئلہ بھی سامنے آسکتا ہے۔ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے اپنے اثاثوں کے ذرائع میں زرعی آمدنی بیان کی ہے تو وہ باآسانی منی ٹریل ثابت کرسکتی ہیں۔

یہ کیس متعلقہ افسر کے لیے ایک ٹیسٹ ہوگا کیوں کہ اسے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ وہ قانون کے تحت اسے حل کرے گا۔