ملازمت شوق ہے یا مجبوری...

July 05, 2020

کبھی کہا جاتا تھا کہ ’’عورت کا سہاگ مَرد اور مَرد کا سہاگ ملازمت ہے‘‘،مگر زمانہ بدلا، تو حقیقتیں بھی بدل گئیں۔ اب مَرد کے ساتھ عورت کا سہاگ بھی کسی حد تک ملازمت بن گیا ہے کہ عمومی طور پر گھریلو پریشانیوں، منہگائی اوربڑھتے اخراجات جیسے عوامل نےخواتین کوبھی خاصےذہنی اور جذباتی دباؤ سے دو چار کردیا ہے۔ ایسے حالات میںاگر کوئی مناسب ملازمت مل جائے، تو غنیمت ہی معلوم ہوتی ہے۔ بہرکیف، خواہ ملازمت مجبوری کے تحت ہو، صلاحیتوں کے اظہار ،شوق کی خاطر، فراغت دُور کرنےیاپھر کچھ کر دکھانے کےعزم کے لیے، خاتون کو بھی نو تاپانچ یا سات تا دوکے دفتری اوقات کی پابند کردیتی ہے۔

موجودہ دَور میں خواتین کی ایک بڑی تعدادملازمت کررہی ہے۔متعدّد کومختلف اداروں میں مختلف ماحول اور صُورتِ حال کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ملازمت کی وجہ کچھ بھی ہو، بہرصُورت خواتین کوخود اعتمادی اور مضبوط اعصاب کے ساتھ بہت پُروقار اور محتاط رویّہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔ عموماً تدریسی اداروں میں خواتین کی تعددا زیادہ ہوتی ہے اور وہاں نسبتاً اچھا اور بہتر ماحول بھی میسّر ہوتا ہے، لیکن اُن دفاتر، اداروں اور فیکٹریز وغیرہ میں جہاں مَرد و خواتین کی تعداد تقریباً برابر ہو، خواتین کے کام کی نوعیت کیسی بھی ہو، تعیناتی چاہے کسی اہم، اعلیٰ عہدے پر ہویا پھرکسی کے ماتحت کام کررہی ہوں، اپنے دائرہ کار، اختیار اور ذمّے داری کو سمجھنا اور ڈیوٹی کو ڈیوٹی سمجھ کر ادا کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔اور اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین زیادہ توجہ اور ذمّے داری سے اپنے فرائض انجام دیتی ہیں۔

بہرکیف، آپ خواہ کسی بھی شعبے سے وابستہ ہوں، اُس میں اظہار کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ظاہری رُخ اور استعدادِ کار۔ظاہری رُخ وہ ہے کہ جس میں آپ کی وضع قطع ہر ایک کے سامنے ہوتی ہے۔ اور اس ضمن میں سب سے اہم لباس کا انتخاب ہے ۔ ملازمت پیشہ خواتین کے لیےلباس کے انتخاب میں بھی کئی باتوں کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے،جیسے لباس کی تراش خراش ایسی نہ ہو،جس میں جسمانی خدوخال نمایاں ہوں۔شرٹ بہت چھوٹی ،اونچا ٹراؤزر اور شانوں پر ٹکا دوپٹّا بلاوجہ ہر ایک کو اپنی جانب متوجہ نہ کررہا ہو۔ پھر عُمر اور منصب کو بھی ضرور پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ اسی طرح رنگوں کا انتخاب بھی شخصیت کا رُخ متعیّن کرنے میں اہم گرداناجاتا ہے۔بھڑکیلے، شوخ وشنگ رنگوں کے کپڑے دفتر کے ماحول میں غیر سنجیدہ طرزِ عمل میں شمار کیے جاتے ہیں۔

ایسا ہی کچھ معاملہ جیولری کا بھی ہے کہ لباس کی مناسبت سے ہلکی پھلکی جیولری کااستعمال شخصیت میں نکھار اور وقار پیدا کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح میک اَپ کا بھی معاملہ ہے۔تیز میک اَپ کی بجائے سادہ میک اَپ کرنا چاہیے، تاکہ خود کو بھی فریش نظر لگیں اور لوگ بھی بلاوجہ پلٹ پلٹ کر نہ دیکھتے رہیں۔ویسےآج کل ایک عمومی رجحان یہ بھی بن چُکا ہے کہ جائے ملازمت پر خواتین کی بڑی تعداد عبایا یا حجاب میں ملبوس نظر آتی ہے،تویہ پہناوا پُروقار بھی ہے اور خواتین کو مضبوطی،استحکام اور سُکون بھی مہیّا کرتا ہے۔

گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کے لیے سب سے لازمی امر یہ ہے کہ ضروری امور کی انجام دہی میںجن لوگوں سے بھی واسطہ پڑے،محض کام کی باتوں تک محدود رہیں،خصوصاً مَردوں سے گفتگو میں بلاوجہ اور غیر ضروری باتوں سے اجتناب بہت سی اُلجھنوں اور پریشانیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔صرف کام کی باتوں تک محدود رہنے کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ مزاج میں کرختگی اور بدمزاجی کا عُنصر شامل ہوجائے۔

دورانِ گفتگو خوش اخلاقی، نرمی اور دھیما پن اس بات کی علامت ہوگا کہ آپ سماجی معاملات برتنے کے ڈھنگ سے بخوبی واقف ہیں۔دفتر میں چاہے آپ اعلیٰ افسر ہیں یا ایک کارکن، اپنا طریقۂ کار ایسا رکھیں کہ کوئی آپ سے نہ اس حد تک بےتکلّف ہو کہ آپ کے نجی معاملات میں مداخلت کرے اور نہ ہی اس قدراَن جان رہیں کہ دفتری امور میں کسی ضرورت کے وقت اجنبی ہونے کا گمان ہو۔

یاد رکھیے،کام یاب زندگی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کی جائے کہ اس طرح کئی مسائل توآپ ہی آپ حل ہوجاتے ہیں اور یہ بھی سو فی صدیہ حقیقت ہے کہ جب تک ایک خاتون خود لچک کا ظاہر نہ کرے، کوئی بے تکلّفی کی جرأت بھی نہیں کرسکتا۔اِدھر اُدھر کی باتوں میں مشغول رہنے کی بجائے اپنے کام میں مہارت پیدا کریں ، تاکہ آگے بڑھنے کےبہتر سے بہتر مواقع مل سکیں۔

نیز،اگرادارے کی پالیسیوں سے اختلاف ہوتو ہر جگہ ،ہر کسی سے بات نہ کریں کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں اور دفتری سیاست، گھریلو سیاست سے کسی بھی طرح کم خطرناک نہیں ۔تمام احتیاطیں اپنی جگہ، لیکن ناموافق حالات میں ملازمت کو کبھی بھی مجبوری نہ بننے دیں۔اور یہ یقین رکھیں کہ اگر ایک دَر بند ہوتا ہے، تو دوسرا کُھل بھی جاتا ہے۔