خوابوں سے سیاروں تک

July 05, 2020

تحریر:روبینہ خان۔۔۔ مانچسٹر
کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ صبح نیند سے بیداری کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رات بھر خواب ہی دیکھتے رہے ہیں۔ یہی خیال صبح صبح وارد نہ ہو تو دن کے کسی حصے میں ضرور ذہن میں آ کر جھانکتا ہے۔ بشرطیکہ آپ کی رات خوابوں میں بسر ہوئی ہو۔اگر اس بات کا ذکر کسی سے کر دیا جائے تو ایک مشورہ آپ کو فوری طور پر دستیاب ہوسکتا ہے ،کہ رات کو کم کھا کر سویا کرو پھر خواب نہیں آئیں گے۔خوابوں کا کیا ٹھیک ہے وہ ڈراؤنے بھی ہو سکتے ہیں لیکن خواب سہانے بھی ہو سکتے ہیں۔اسی امید پر بعض لوگ سونے سے پہلے سوچ کے سوتے ہیں کہ کوئی اچھا سا خواب آئےیاجن کو یاد کرتے ہیں وہ خواب میں آئیںخوابوں پر کس کا زور ہے۔خوابوں کی سائنٹیفک تعریف یہ بتائی جاتی ہے کہ آنکھوں کی تیز موومنٹ سے خواب جنم لیتے ہیں جسے آرآئی ایم کہتے ہیںیعنی Rapid eye movement سوتے ہوئے بھی انسانی ذہن ایکٹیو ہوتا ہےاور 8 گھنٹے کی نیند میں آپ دو گھنٹے میں خواب دیکھتے ہیں لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ ساری رات خوابوں میں گزر گئی جب کہ خوابوں میں سے جو یاد رہ جاتا ہے وہ چند لمحات کی جھلکیاں ہی ہوتی ہیں۔کچھ لوگ ،خواب کو تفصیل سے بھی یاد رکھتے ہیںزیادہ تر خواب وہ خیال ہوتے ہیں جن کے بارے میں ذہن سوچتا ہے۔ دن بھر کیے جانے والے کام رات کو خواب میں آ سکتے ہیںیکن سائنسی تعبیر یہی ہے کہ دماغ کی جو الیکٹرک تاریں ہوتی ہیں وہ آپ کے خیالات اور ماضی کے واقعات کو کھینچ کھانچ کے تصویریں بناتی ہیں اور یہی خواب ہیں۔ مشہور فلاسفر فرائیڈ نے اسی وجہ سے خوابوں کو لاشعور کا حصہ قرار دیا اور اس سے انسانی شخصیت کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔اس کے خیال کے مطابق بہت سی دبی ہوئی خواہشات سوتے ہوئے آن موجود ہوتی ہیںخوابوں کی بہت سی قسمیں بتائی جاتی ہیں۔ ایک قسم دوسری طرح کے خوابوں کی ہے جس میں دنیا کو بدلنے کا خواب دیکھا جاتا ہے۔ذہین لوگ بھانپ لیتے ہیں کہ دنیا میں جاری و ساری حالات واقعات میں سے ناانصافی کو ختم ہونا چا ہئے اور بالآخر تحریکیں جنم لیتی ہیں اور کسی حد تک دنیا کے درد کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔اکیسویں صدی میں ہم جو موومنٹس دیکھتے ہیں ان کے تانے بانے کہیں صدیوں پہلے سے شروع ہوچکے تھے۔ابراہیم لنکن امریکہ کا سولہواں صدر تھاجس نے امریکہ کو اخلاقی ،قانونی اور سیاسی بحران سے نکالا۔1856میں ابراہم لنکن نے ایک تقریر کی جو کہ بے شمار رپورٹرز کے علاوہ ایک بڑے ہجوم نے سنی۔اس تقریر کے الفاظ اور لہجہ اتنا پر اثر اور سحر انگیز تھا کہ کسی بھی رپورٹر نے اس تقریر کے نوٹس نہیں بنائے۔اس تقریر کے مندرجات جو تاریخ کا حصہ ہونے چاہیے تھے وہ دستیاب نہیں ہیں۔ یہ ضرور معلوم ہے کہ تقریر غلامی کے خلاف تھی .کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تقریر کو محفوظ نہ کرنا جان بوجھ کر کیا گیا۔آج کے دور میں بھی بلیک لائیوز میٹر، کی تحریک چل رہی ہے امریکا میں ہر سال 70 سے زائد افراد پولیس کسٹڈی میں مارے جاتے ہیں اور ان میں سے نصف سے زائد افریقن امریکن ہوتے ہیں۔دنیا کی مجموعی آبادی کا تقریبا نصف فیصد خواتین کا ہے۔ان کے خواب ٹوٹے اور بکھرے ہوئے ہیں خواہ وہ امریکا میں ہوں یا دنیا کےکسی بھی گوشے میں رہتی ہوں۔معاشرے میں خواتین کا کردار ہمیشہ سے رہا ہے لیکن بہت ہی محدود پیمانےپر۔1920 میں امریکہ میں خواتینکو ووٹ کاسٹ کرنے کا حق بھی میسر نہ تھا۔اس وقت بھی ایک خاتون پارلیمنٹ کا حصہ تھی اور جس کا نام جانیٹ رینکن تھا۔جانیٹ رینکن انیس سو سولہ میں ،یو ایس ممبرز آف ریپریزنٹیٹو منتخب ہوئیں اور عورتوں کے حقوق کی وکالت کرنے کے ساتھ ساتھ یونائٹڈ اسٹیٹس کے آفس میں پوزیشن ہولڈر رہی۔انہوں نے انیسویں ترمیم کے ذریعے عورت کو ووٹ کاسٹ کرنے کا حق دلوایا۔حال ہی میں پاکستان میں نگار جوہر پاکستانی آرمی میں پہلی خاتون سرجن ،لیفٹیننٹ جنرل آف پاکستان آرمی مقرر ہوئی ہیں۔خواب تو ہر کوئی دیکھتا ہے لیکن خواب پورا کرنے کے لیے محنت کی شرط اولین ہے۔قائد اعظم نے کہا تھا میں درست فیصلے لینے پر یقین نہیں رکھتا میں فیصلہ کرتا ہوں اور اس کو صحیح ثابت کرتا ہوں۔علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔حقیقی دنیا میں خواب آپ کے فیصلے ہوتے ہیں اور پھر اس کے بعد جہد مسلسل ۔گزرے کل کی جدوجہد آنے والے دن کو بدل دیتی ہے۔تبدیلی کا سفر آہستہ ہوتا ہے یہ سست روی کا سفر بد دل ہونے کی وجہ نہیں بننا چاہیے۔ہم سیارہ زمین پر رہنے والے اپنے مسائل کے حل میں سرگرداں ہیں جبکہ دوسرے بے شمار سیاروں کی خبر رکھنے والے اسٹرولوجر نے بلیک ہولز کا ٹکراؤ ہوتے دیکھا ہے۔سیاروں کی چھان پھٹک کر رہے ہیں کہ وہاں پر کیسے حالات ہیں۔کیا کوئی ایسا سیارہ ہے جہاں پر زمین کی طرح حالات ہوں اور زندگی کے امکانات ہوں۔اسٹیفن ہاکنگ نے بلیک ہولز کی تھیوری دنیا کو بتائی تھی۔ کسی مقام سے کام شروع ہوتا ہے۔وقت خود ہی لوگ پیدا کرتا ہے جو اس کام کو آگے بڑھاتے ہیں۔اگر آپ کو سیاروں سے دلچسپی ہے تو یاد رکھئے گا کہ ماہ جولائی بہت ہی دلچسپ ہوگاکیوں کہ تین اسپیس کرافٹ مارز پر بھیجے جائیں گے.2024 میں ناسا چاند پر بھیجنے کے لیے اپنا نیا راکٹ ڈیزائن کر رہا ہے جس کے لیے 24جون کو ایک لیکوڈ آکسیجن ٹینک پر تجربہ کیا گیا جو کامیاب رہا۔ہمارے سیارے میں مسائل بکھرے ہیں لیکن اب آسمانوں(دوسرے سیارے) پر بھی ہوسٹ کمیونٹی کی تلاش کی جا رہی ہے۔ آنے والے وقتوں کے لیے خوابوں کا مٹیریل فی الحال نا معلوم ہے دوسرے سیاروں پر بسنے کے لیے خواب دیکھیں بھی تو کیا دیکھیں!! یہ خواب البتہ ہو سکتا ہے کہ خدانخواستہ اگر آئندہ آنے والی صدیوں میں پھر کبھی وبا پھیلی تو لوگ راکٹس میں بیٹھ کر دوسرے سیاروں پر چلے جائیں گےلیکن حدیث مبارکہ تو آنے والی صدیوں میں بھی درست ہی ہوگی ، کہ جب وبا پھوٹ پڑے تو اس علاقے سے کوئی باہر نہ جائے اور نہ کسی دوسری جگہ سے،وبا کے علاقےمیں داخل ہوں ۔دعا ہے کہ کوڈ نائنٹین کی وبا سے نجات ملے اورہمارے سیارے کی زندگی تو ہمیں واپس ملے۔