قصہ وزیر اطلاعات کے صحافتی میلے کا

April 13, 2013

حلف لینے کے بعد وفاقی نگران وزیر اطلاعات و نشریات عارف نظامی لا ہور آئے تو ان کی جانب سے صحافیوں کے اعزاز میں پُر تکلف ظہرانے کا اہتمام کیا گیا۔ وقت ایک بجے مقرر تھا۔ معزز میزبان ایک بج کر 15 منٹ پر وہاں تھے۔ محکمہ اطلاعات کے سیکرٹری پرنسپل آفیسر اور دوسرے حکام پہلے سے ہی نہ صرف موجود تھے بلکہ بزرگ اور سینئر صحافیوں کا حسب دستور استقبال بھی کر رہے تھے۔ اس تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ بلا امتیاز چھوٹے بڑے اخبارات کے صحافیوں، ایڈیٹر، مالکان، کالم نگاروں، اینکر پرنسوں کو بڑی تعداد میں مدعو کیا گیا یہ تقریب بعد میں ”صحافتی میلہ“ میں تبدیل ہو گئی ایسا کیوں نہ ہوتا میزبان ایک معتبر نامور سینئر صحافی بھی رہے جنہیں ”اقتدار کے برآمدوں“ میں چہل قدمی کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ میرا ان سے ایک عمر کا ساتھ رہا ہے۔ ایسا ساتھ کہ 26,25 سال اکٹھے رہے ہیں۔ وہ میرے دوست، بھائی تو تھے ہی ”چھوٹے مالک“ بھی تھے۔ انگریزی اخبار کے ایڈیٹر بننے سے قبل میں اور عارف صاحب اکٹھے رپورٹنگ کیا کرتے تھے۔ بھٹو دور میں ہر بڑی تقریب، پریس کانفرنس کی ہم نے اکٹھے کوریج کی۔ کئی بار کٹھن مراحل سے بھی گزرے۔ 1977ء میں جب مری میں ”حفاظتی قید“سے بھٹو شہید کو رہا کیا گیا تو لاہور ایئر پورٹ پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ ان دنوں ہمارا اخبار پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کا حامی تھا۔ میں اور عارف صاحب ایئر پورٹ جا رہے تھے۔ کور کمانڈر ہاؤس سے ایئر پورٹ تک عوام تھے کہ اچانک پیپلز پارٹی کے جیالوں نے ہماری کار کو گھیر لیا اور کار پر ڈنڈے مارنے اور نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ میں خوف زدہ تھا کہ کہیں یہ شیشے توڑ کر حملہ نہ کر دیں میں نے عارف صاحب سے کہا کہ کار چلاتے رہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کارکن نعرے لگا رہے تھے اور کار پر ڈنڈے بھی برسائے لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ گاڑی کو کوئی نقصان نہ ہو۔ وی آئی پی لاؤنج کے قریب میاں احسان الحق اور جہانگیر بدر کھڑے تھے ان کی نظر ہم پر پڑی تو دوڑ کر باہر آئے۔ کارکنوں کو روکا اور ہمیں اندر لے گئے۔ ہمیں تجسس ہوا کہ انہوں نے ہمیں کیسے پہچان لیا۔ ظاہر ہے وہ لاہور کے کارکن نہیں لگتے تھے تو انکشاف ہوا کہ ونڈ سکرین پر دو دعوت نامے پڑے تھے جن پر اخبار کا نام لکھا ہوا تھا۔ ان کی رفاقت میں بہت سی خوشگوار یادیں ہیں جنہیں سرمایہ حیات قرار دیا جا سکتا ہے۔ بات عارف نظامی صاحب کے ظہرانہ کی تھی جو پرانی یادوں تک جا پہنچی کہ ایسا ہونا فطری امر تھا ان سے میرا تعلق دو چار سال نہیں نصف صدی کا قصہ ہے۔ یہ تقریب بڑی بھرپور تھی اور کیوں نہ ہوتی کہ صحافی برادری کی ایک اہم اور ممتاز شخصیت نگران کابینہ میں شامل ہوئی۔ اگرچہ یہ پہلی بار نہیں ہوا۔
سردار فا روق لغاری نے محترمہ بی بی شہید کی حکومت برطرف کر کے جب نگران حکومت بنائی تھی ممتاز بزرگ صحافی ارشاد حقانی مرحوم اس میں وزیر اطلاعات تھے اگرچہ وہ معروف کالم اور اداریہ نویس تھے لیکن عارف صاحب کی طر ح صحافتی برادری میں ہردلعزیز نہیں تھے۔ عارف صاحب نے مختصر طور پر تقریر کی جو شکریہ ادا کرنے تک ہی محدود تھی تاہم انہوں نے اپنی برادری کو یقین دلایا کہ صحافیوں کے مفاد کے خلاف کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ ان خبروں کی تردید کی کہ الیکشن کی مدت میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ درست بھی ہے کہ ملک کے آئین کے مطابق الیکشن کی تاریخ میں ایک دن کا اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔ بعد میں چند سوالات بھی ہوئے لیکن تقریب مجموعی طور پر ”بہر ملاقات“ تھی عارف نظامی صاحب ایک ڈیڑھ گھنٹہ تک سینئر صحافیوں سے ”گپ شپ“ کرتے رہے یہ تقریب بڑی خوشگوار اس وقت ہو گئی جب ان کی ایک کزن کی آمد نے سب کو حیران کر دیا سب نے اسے نیک شگون قرار دیا۔
وہاں موجود سینئر صحافیوں نے اس پر پسندیدگی کا اظہار کیا۔ اس سے قبل کہ یہ خبر تقریب میں پہنچ گئی تھی کہ عارف صاحب اور ان کے بزرگ کے درمیان ملاقات ہوئی ہے عارف صاحب سے جب اس حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی ہے۔ عارف صاحب نے اپنے بزرگ کے پاس جا کر انتہائی سعادت مندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ سب کو یقین ہے کہ اس کے خوشگوار نتائج برآمد ہوں گے۔ صحافتی حلقوں نے اس کو ایک ”تاریخی خبر“ کہا ہے۔ خدا کرے کہ یہ ملاقات ثمر آور ثابت ہو اس سے ان کا ہی نہیں صحافتی برادری کا بھی بھلا ہو گا!!