سینیٹر ایس ایم ظفر کی کہانی …”میری“ زبانی!

April 15, 2013

میرے نزدیک اخبار بینی اور سگریٹ نوشی کے نقصانات برابر برابر ہیں۔ اخبار بینی کی طرف میں بعد میں آؤں گا پہلے سگریٹ نوشی کی بات کر لیں۔ میں ایک تجربہ کار اور بہت سینئر سگریٹ نوش ہوں، اس قتالہ سے دل لگائے نصف صدی سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے مگر آپ یقین جانیں میری صحت کو اتنا نقصان سگریٹ نوشی سے نہیں پہنچا جتنا اخبار بینی سے پہنچا ہے اور سگریٹ نوشی سے بھی جتنا نقصان پہنچا ہے وہ بھی اخبار بینی ہی کی وجہ سے پہنچا ہے۔ میں جب اخبار میں سگریٹ نوشی کے نقصانات پڑھنا شروع کرتا ہوں تو مجھے لگتا ہے وہ ساری علامات مجھ میں ساتھ ساتھ پیدا ہونا شروع ہو گئی ہیں جو اخبار میں بیان کی جا رہی ہیں۔ چنانچہ پہلے مجھے اپنا بلڈ پریشر ہائی ہوتا محسوس ہوتا ہے، اسکے ساتھ ہی اختلاجِ قلب شروع ہو جاتا ہے، سانس میں رکاوٹ بھی محسوس ہونے لگتی ہے چنانچہ کینسر ہونے سے پہلے پہلے میں اخبار لپیٹ کر پرے رکھ دیتا ہوں۔ اس دوران خوفزدگی کی وجہ سے میرا سارا جسم پسینے میں نہا جاتا ہے، تب ان لمحوں میں، میں اپنے بزرگ سگریٹ نوشوں محترم و مکرم چرچل صاحب اور نوابزادہ نصراللہ خاں صاحب کی درازیٴ عمر کو یاد کرتا ہوں جسکے نتیجے میں اطمینان کا گہرا سانس لیکر سگریٹ سلگانے کیلئے لائٹر تلاش کرنے لگتا ہوں۔ ویسے ایک دفعہ مجھ سے کسی نے پوچھا تھا کہ تم اتنے زیادہ سگریٹ کیوں پیتے ہو؟ میں نے کہا ٹینشن کی وجہ سے! اس سے نے پوچھا تمہیں کیا ٹینشن ہے؟ میں نے کہا ”یہی کہ اتنے زیادہ سگریٹ پیتا ہوں! “ بہرحال پیشتر اسکے کہ میری یہ تحریر پڑھ کر کوئی اینڈونچرسٹ سگریٹ نوشی کی جان لیوا عادت کی طرف راغب ہو، میں واضح کردوں کہ مرشدی مشتاق احمد یوسفی، نظر بد دور، اس وقت 91برس کے ہیں اور اس کی وجہ ان کی سگریٹ نوشی نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے سگریٹ کیا، سگریٹ کی کسی سوکن سے بھی عمر بھر جی نہیں لگایا۔
اب رہ جاتے ہیں اخبار بینی کے نقصانات، تو صورت حال یہ ہے کہ میرے اندر جو زندگی بیزار رجحانات پیدا ہوئے ہیں، وہ ہمارے میڈیا ہی کی دین ہیں۔ نہار منہ اخبار پڑھتے ہوئے اور رات کو سونے سے پہلے ٹی وی چینلز کی خبریں سنتے اور ٹاک شوز دیکھتے ہوئے تقریباً یقین آ جاتا ہے کہ آج میری زندگی کا آخری دن ہے۔ اور یوں پرسوں میرے قل ہوں گے، پلاؤ کھائیں گے احباب، فاتحہ ہو گا۔ پاکستان کے بارے میں یہ منحوس خبریں سنانے والے وہ اخبار نویس اور اینکر ہوتے ہیں جنہوں نے میرے اور آپ کے سامنے سائیکل سے پراڈو تک کا سفر اسی پاکستان میں طے کیا ہے جس میں انہیں کوئی اچھی چیز نظر نہیں آتی۔ میں نے کئی دفعہ سوچا کہ کم از کم رات کو اخبار نہ پڑھوں اور کوئی ٹی وی چینل نہ دیکھوں کہ حکماء کہتے ہیں کہ رات کو ٹینشن کے ساتھ نہیں سونا چاہئے مگر اس اصول پر عمل کون کرتا ہے۔ پوری دنیا میں سب لوگ اپنی بیوی کے ساتھ ایک ہی کمرے میں سوتے ہیں۔
اب آپ مجھ سے بجا طور پر پوچھ سکتے ہیں کہ ان ساری باتوں کا ”سینیٹر ایس ایم ظفر کی کہانی، ان کی اپنی زبانی“ کتاب سے کیا تعلق ہے۔ دراصل ہم پاکستانی ایک دم کھانے پر ٹوٹ پڑنا چاہتے ہیں حالانکہ ”اسٹارٹر“ بھی کوئی چیز ہے۔ ہم جنوبی ایشیا کے لوگ دو گھنٹے میں کھانا پکاتے ہیں اور پانچ منٹ میں کھا پی کر ڈکار مار کر فارغ ہو جاتے ہیں۔ مغرب والے کھانے کی تیاری پر پانچ منٹ صرف کرتے ہیں اور دو گھنٹے ”اسٹارٹر“ سے کھیلنے اور گپ شپ لگانے میں صرف کرتے ہیں۔ دراصل وہ ”رجّے“ ہوئے لوگ ہیں جبکہ ہماری صدیوں کی بھوک دو چار نسلوں میں تو ختم ہوتی نظر نہیں آتی، سو جو کچھ میں نے ابھی کہا ہے، وہ اسٹارٹر تھا اور اس کے بعد بھی جو کچھ کہوں گا، وہ بھی ”اسٹارٹر“ ہی ہو گا کیونکہ میں ہمیشہ کتاب کو صاحب ِ کتاب کے حوالے سے دیکھتا ہوں اور یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں صاحب ِ کتاب ایس ایم ظفر کو آج سے نہیں، برسہا برس سے جانتا ہوں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ میں ان کے قدیمی نیازمندوں میں سے ہوں۔ میری طرح آپ نے بھی پینٹ کوٹ میں ملبوس انگریزی بولتے ہوئے بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے اور ہمارے ہاں شخصیت کا یہ پیٹرن کسی کے مہذب ہونے کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ ان میں سے بہت سوں کے بارے میں اکبر الٰہ آبادی کی رائے کچھ ایسی اچھی نہیں
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں، مرے ہسپتال جا کر
میں نے اپنی زندگی میں اس وضع قطع کے حامل جو واقعی مہذب لوگ دیکھے ہیں، ان میں ایس ایم ظفر سرفہرست آنے والوں میں شامل ہیں، سوٹ بھی پہنتے ہیں، خوبصورت انگریزی بھی بولتے ہیں، اردو اور پنجابی پر بھی دسترس حاصل ہے لیکن تہذیب کا تعلق صرف ”زبان دانی“ اور ”لباس پہنی“ پر نہیں ہوتا۔ اس کا تعلق آپ کے رویوں سے ہے، آپ زندگی کیسے گزارتے ہیں، صرف اپنے لئے یا دوسروں کے لئے بھی۔ آپ مختلف درجات کے حامل لوگوں سے کس طرح ملتے ہیں، اس میں توازن برقرار رکھتے ہیں یا کسی کو انسان اور کسی کو کیڑے مکوڑے کا درجہ دیتے ہیں۔ آپ اپنی پسند اور ناپسند کا اظہار کس طرح کرتے ہیں، آپ کو دلجوئی کا فن آتا ہے یا صرف دلآزاری ہی کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ اللہ نے اگر آپ کو معاشرے میں کوئی مقام دے ہی دیا ہے تو کیا آپ اسے ہضم کر پائے ہیں یا بدہضمی کے کٹے ڈکار ہی مارتے رہتے ہیں؟ خواتین و حضرات! میں نے ایس ایم ظفر کو ان تمام پیمانوں پر پرکھ کر دیکھا ہے اور وہ مجھے ایک جینوئن مہذب انسان لگے ہیں۔ عزت ، دولت ، شہرت، صحت ، اولاد اور ایک خوبصورت بیوی بھی، اور بندے کو کیا چاہئے لیکن ظفر صاحب مختلف درجات کے لوگوں سے ہاتھ بیک وقت اپنی پانچوں انگلیوں سے ملاتے ہیں ورنہ ایسے لوگ تو کم درجے کے لوگوں سے ”ہاتھ“ ایک انگلی یا دو انگلیوں سے ملاتے ہیں اور کئی دفعہ تو اپنی طرف مصافحے کے لئے بڑھے ہوئے کسی ہاتھ کو دیکھ کر اپنا ہاتھ ہوا میں بلند کر دیتے ہیں کہ بس ٹھیک ہے، سلام وصول پایا۔ ایس ایم ظفر اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود معاشرے کو مہذب بنانے کے لئے کوشاں بہت سی تنظیموں سے بھی وابستہ ہیں۔ دلآزاری انہیں آتی ہی نہیں کہ انہوں نے کمال ، دلآویزی میں پیدا کیا ہے۔ خوش لباس کے علاوہ خوش گفتار بھی بہت ہیں، ان کی وکالت کے بارے میں ، میں کچھ کہتا اچھا نہیں لگتا کہ اس میں ان کا مقام
یہ مقام اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے
کے زمرے میں آتا ہے۔ البتہ اس میں ایک آنچ کی کسر باقی ہے۔ میری خواہش ہے کہ وہ کسی دن توڑ پھوڑ اور مارکٹائی کے کسی منظر میں دکھائی دیں تاکہ ان کے وکیل ہونے میں اگر کسی کو کوئی تھوڑا بہت تامل ہے تو وہ بھی دور ہوجائے۔
اور اب میں آپ کو یہ بھی بتاتا جاؤں کہ مجھے ان کی کتاب کیوں اچھی لگی ہے تو اس کی وجہ وہی ہے جو خود ان کے اچھا لگنے کی ہے، آپ اندازہ لگائیں ساڑھے آٹھ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں جو ان کی 9سالہ سینیٹری کے دور کی روداد ہے اور جس دوران ملک و قوم بہت سے نازک مراحل سے گزری ہے
اور وہ خود برسرِ اقتدار پارٹی کے رہنما بھی تھے مجھے کسی ایک صفحے پر بھی کسی مخالف جماعت کے کسی رہنما کے بارے میں ایک بھی نازیبا جملہ نظر نہیں آیا۔ وہ جہاں کسی صورتحال کے دفاع یا مخالفت میں بات کرتے ہیں، ایک اعلیٰ درجے کے مہذب انسان کے لہجے میں بات کرتے ہیں۔ وہ کہیں بھی خود کو نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ صرف اتنے ہی نمایاں نظر آتے ہیں جتنے نمایاں نظر آئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ مجھے کتاب کا سب سے دلچسپ حصہ وہ لگا جہاں ظفر صاحب اپنے صدر جنرل پرویز مشرف کی وردی اتارنے کے درپے نظر آتے ہیں۔ وہ جنرل سے براہ راست ملاقات میں بھی اور مذاکراتی ٹیم کے رکن کی حیثیت سے دوسرے مواقع پر بھی جنرل کی وردی اتارنے کو خود ان کے لئے بہتر قرار دیتے ہیں۔ یہ تاثر دیئے بغیر وہ وردی کیسے اتر سکتی تھی جسے جنرل مشرف اپنی کھال قرار دیتے تھے، بہرحال جنرل صاحب کی کھال اتارنے میں ایس ایم ظفر صاحب نے بھی اپنا حصہ ڈالا جس کے لئے قوم ان کی ممنون ہے۔ ظفر صاحب کی یہ کتاب پڑھتے ہوئے ان کے ادب آداب ہی کا نہیں بلکہ ان کے صاحب ِ مطالعہ ہونے کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ ان کی تحریر ادبی ہے جو سادہ مگر خوبصورت نثر پر مشتمل ہے۔ میری خواہش ہے کہ ظفر صاحب تاریخ کے پرویزی دور (جو جمہوریت کی بحالی تک جاری رہا) کی روداد تو لکھ چکے، اب انہیں ایک خودنوشت اپنی ابتدائی زندگی سے اب تک کے مراحل پر بھی لکھنا چاہئے جو مجھے یقین ہے انہی کی طرح خوبصورت ہو گی۔ آخر میں ایک لطیفہ۔ ایک پوتے نے اپنے دادا سے پوچھا ”دادا ابو! یہ آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟“ دادا نے جواب دیا ”بیٹے تاریخ کی کتاب پڑھ رہا ہوں“ پوتے نے کہا ”دادا ابو یہ کتاب تو SEX پر ہے!“ دادا بولے ”بیٹا ، SEX بھی تو اب میرے لئے تاریخ ہی ہے!“ مجھے امید ہے کہ آپ اس لطیفے کا ناتہ پرویزی دور سے جوڑنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
(لاہور میں منعقدہ تقریب میں پڑھا گیا)