این اے،71۔72

April 16, 2013

مجھے میانوالی سے امجد خان کا ٹیلی فون آیا تو کہنے لگا کہ یہ نون لیگ کے ترجمان پنجاب میں بیورو کریسی کے تبادلوں پر اتنے سیخ پا کیوں ہیں۔کیا نون لیگ عوام کے سہارے پر نہیں بیورو کریسی کے سہارے پر الیکشن لڑنا چاہ رہی تھی۔ میں نے امجد خان سے کہا کہ مجھے خود اس بات پر حیرت ہے کیونکہ موجودہ وزیر داخلہ تو ان کا اپنا ہے اس نے تو ایک اخبار میں یہاں تک کہہ دیا ہے کہ میں جب نواز شریف کے پاس بیٹھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ حقیقی لیڈر یہی ہیں۔ مجھے ووٹ ڈالنے کا موقع ملا تو میں نون لیگ کے امیدوارشاہد خاقان عباسی کو ووٹ ڈالوں گا اور حیران ہوں کہ پیپلزپارٹی نے بھی نگران وزیر داخلہ کے اس بیان پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ ایسی صورتحال دیکھ کر مجھے دوستوں کا یہ کہا درست ہی لگتا ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں اصل میں ایک ہیں، صرف سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔
پھر میری نظر سے نون لیگ کے ایک ترجمان کا کالم گزرا جس میں اس نے کہا کہ کیا الیکشن صرف پنجاب میں ہو رہے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں ”پورا پنجاب سرخ آندھی کی زد میں ہے۔ چیف سیکرٹری بدل گئے،آئی جی پولیس بدل گئے، سیکرٹری تبدیل ہو گئے، ایڈووکیٹ جنرل ہٹا دیئے گئے، بیسیوں عدالتی افسران کو فارغ کردیا گیا، ڈی ایم جی کے ایک سو کے لگ بھگ افسران بدل ڈالے گئے۔ کمشنر ، ڈی سی او، آر پی او سب تبدیل ہوگئے۔ ڈی جی پی آر تبدیل ہوگئے۔ خبر آئی ہے کہ تمام تھانوں کے ایس ایچ او اور محرر فارغ ہورہے ہیں۔ اگلا کلہاڑا پٹواریوں پر چلنے والا ہے“۔ بیوروکریسی کے تبادلوں پر نون لیگ کی اتنی پریشانی دیکھ کر مجھے عمران خان کی یہ بات یاد آگئی کہ نون لیگ پٹواریوں اور تھانیداروں کی مدد سے الیکشن لڑتی ہے۔ پورے پنجاب کی طرح میانوالی میں خاص طور این اے72کی بھی یہی صورت احوال ہے۔ نون لیگ کے امیدوار نے ہر تھانے میں اپنا ایس ایچ او لگوا رکھا ہے۔ یقینا یہ تبدیلی نون لیگ کے امیدواروں کیلئے بڑی تکلیف دہ ثابت ہوئی ہوگی کیونکہ اب میانوالی میں ایم این اے کی دونوں نشستوں پر اور ایم پی اے چاروں نشستوں پر نون لیگ کے امیدواروں کی شکست یقینی ہے۔ انہیں اگر کوئی امید تھی تو انہی تھانیداروں اور پٹواریوں سے تھی۔ میانوالی میں عمران خان سے شکست کا اندازہ تو نون لیگ کو بہت عرصہ پہلے سے تھا۔ این اے72پرنون لیگ مرحوم ڈاکٹر شیر افگن کو عمران خان کے مقابلہ میں الیکشن لڑانا چاہتی تھی اس سلسلے میں مسلم لیگ کے مرکزی رہنما سینیٹر ظفر علی شاہ نے کشمیر ہاؤس اسلام آبادکے کمرہ نمبر سات میں رات کے پچھلے پہر ڈاکٹر صاحب کے انتقال سے صرف چار ماہ پہلے درخواست کی تھی کہ وہ نون لیگ میں شامل ہو جائیں انہوں نے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ میں یہ بات نون لیگ کے قائد کی خواہش پر کر رہا ہوں مگر ڈاکٹر شیر افگن نے انکار کر دیا تھا۔ ڈاکٹر شیر افگن کے نون لیگ کے متعلق اتنے تحفظات تھے کہ انہوں نے مرنے سے ایک دن پہلے اپنے بیٹے سے وصیت کی تھی کہ تم کسی بھی پارٹی میں شامل ہو سکتے ہو مگر تم نے زندگی بھر نون لیگ میں شامل نہیں ہونا۔
اب آتے ہیں این اے71 کی طرف۔ اس نشست پر عمران خان کے مقابلہ میں نون لیگ کا امیدوار عبیداللہ شادی خیل ہے۔ عبید اللہ شادی خیل کو نون لیگ نے جب ٹکٹ دیا تو میانوالی کے نون لیگ سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے کہا کہ نوازشریف نے خود ہی میانوالی میں نون لیگ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ اس نشست پر پچھلی مرتبہ نوابزادہ عماد ملک صرف اس لئے ایم این اے بنے تھے کہ عمران خان نے الیکشن سے بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ عماد ملک نواب آف کالاباغ نواب امیر محمد خان کے پوتے ہیں۔کالاباغ دنیا کی چند خوبصورت ترین جگہوں میں سے ایک ہے ۔اظہر سہیل مرحوم نے کہیں لکھا تھا کہ جب محترمہ بینظیر بھٹو نوابزادہ اعظم کی وفات پر افسوس کیلئے کالاباغ تشریف لے گئیں تو ہیلی کاپٹر سے شام کے وقت کالاباغ کا منظر دیکھ کر سحرزدہ ہو گئی تھی اور انہوں نے پائلٹ سے کہا تھا ایک بار پھر چکر کاٹو میں اس خوبصورت منظر کو دوبارہ دیکھنا چاہتی ہوں۔ کالاباغ کے نواب تقریباً ہر دور میں پیپلزپارٹی کے ساتھ رہے ہیں۔ اس مرتبہ بھی جب پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تھی تو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جو اپنا پہلا سرکاری دورہ کیا تھا وہ کالاباغ کا ہی تھا وہ میانوالی میں نوابزادہ عماد ملک کے پاس گئے وہاں بوہڑ بنگلے پر کھانا کھایا۔کالاباغ کے انیس سو پینتس کے بنائے ہوئے پل کی مرمت کے لئے ایک خطیر رقم دی ( یہ الگ بات ہے کہ پل آج بھی ویسا ہی ہے) پھر میانوالی میں جاکرعمران خان کی نمل یونیورسٹی کا افتتاح کیا اور جب پانچ سال مکمل ہونے سے صرف ایک مہینہ رہ گیا تو نوابزدہ عماد ملک ُنواز شریف کے پاس تشریف لے گئے اور الیکشن میں نون لیگ کے طرف سے امیدوار ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ٹکٹ کیلئے حسین نواز سے سفارش بھی کرائی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ میں جتنا عرصہ خارجہ کا وزیر مملکت رہا ہوں ، میں نے نون لیگ کی ہر ممکن مدد کی ہے۔ ثبوت میں یہ بھی نواز شریف کو بتایا گیا کہ جب پیپلزپارٹی کی حکومت نے این اے72کی تحصیل پیلاں کو گیس فراہم کی اس وقت نوابزادہ عماد ملک نے اس کا افتتاح نون لیگ کے ایم این اے حمیر حیات روکھڑی سے کرایا تھا مگر انہوں نے پھر بھی نوابزادہ عماد ملک کو چھوڑ کر عبیداللہ شادی خیل کو ٹکٹ دے دیا۔ نوابزادہ عماد ملک کی طرح عبید اللہ شادی خیل بھی پیپلزپارٹی کا آدمی تھا محترمہ بینظیر بھٹو آصف علی زرداری کے ساتھ اس وقت اس کے بھائی کی شادی میں شریک ہونے کیلئے کمرمشانی آئی تھیں جب وزیر اعظم تھیں۔ نون لیگ کے رویّے سے نوابزادہ عماد ملک اتنا دل برداشتہ ہوا کہ اس نے الیکشن لڑنے سے بھی انکار کر دیا ہے اور سنا ہے آج کل اپنی کزن عائلہ ملک کی منتیں کرتا پھرتا ہے کہ مجھے کوئی ٹکٹ نہیں چاہئے مگر عزت کے ساتھ تحریکِ انصاف میں تو شامل کرادو ۔عائلہ ملک کی عزت میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ان کی ڈگری بھی جعلی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر عدالت نے عائلہ ملک کی ڈگری کو درست تسلیم کر لیا۔ ابھی بہت سے اور مقدمات کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ مجھے خطرہ ہے کہ کل کلاں نون لیگ کے ترجمان عدالت کو بھی متنازع قرار نہ دے دیں۔چونکہ پاکستان میں یہ چلن عام ہے کہ صرف حق میں فیصلہ آنے کی صورت میں لوگ کہتے ہیں کہ آزاد عدلیہ زندہ باد۔