ایک بھارتی شادی صرف ایک ارب روپے کی

April 21, 2013

ملک میں الیکشن کی تیاریاں تو زور نہیں پکڑ رہی تھیں البتہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن امیدواروں کی اسکروٹنی میں مصروف تھے۔ کئی امیدواروں کے کاغذات نامزدگیاں مسترد ہو رہی تھیں تو کچھ کے کاغذات جعلی ڈگریوں کے باوجود منظور ہو رہے تھے۔ ایک طرف سے جیل بھیجا جا رہا تھا تو دوسری طرف ضمانتیں ہو رہی تھیں ۔ عجب تماشہ عوام کو دیکھنے میں آ رہا تھا ۔ خصوصاً سابق مرد آہن جن کا ہوا میں مکاّ لہراتا تھا کے چاروں جگہ سے کاغذات نامزدگی مسترد ہو چکے تھے ۔ وہ بھی حیرا ن و پریشان تھے کہ یا اللہ یہ کیا ماجرا رونما ہوا ہے۔ ابھی تو صرف الزامات کی بھرمار ہے ۔ عدلیہ نے تو ابھی کارروائی بھی شروع نہیں کی پھرکیوں ان کو ہر طرف سے نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ حکمران مکافات عمل سے اپنے آپ کو مستثنیٰ سمجھتے ہیں اور دوران اقتدار ہر جائز ناجائز کام کر گزرتے ہیں اور جب وقت کا شکنجہ ان کو جکڑتا ہے تو وہ واویلا مچاتے ہیں ۔ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے ۔
آج کے کالم میں میں اپنے قارئین کو ایک اپنے ہمسائے ملک بھارت میں شادی کی کہانی سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں ۔ ہمارے 2 دوست جو کاروبار میں پارٹنر بھی ہیں ان کے بیٹے اور بیٹی کی الگ الگ جگہ پر شادی میں شرکت کا دعوت نامہ ملا جو دِلّی شہر میں ہونی تھی ۔
ایک دوست جس کا بیٹا تھا اس کی شادی کے ایک بہت بڑے صنعت کار جن کا شمار 20بڑے صنعت کاروں میں ہوتا ہے ۔ سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والی پڑھی لکھی لڑکی سے ہو رہی تھی ۔ لڑکے کے خاندان کا تعلق ہندو مذہب سے تھا ۔ پہلی شادی کا دورانیہ 3دعوتوں پر مشتمل تھا ۔ ہم دلی کے ائیر پورٹ پر اُترے تو ہمارے میزبان کی طرف سے گاڑی اور ڈرائیور ائیر پورٹ کے باہر منتظر تھا ۔ یہاں ہمیں ایک فائیو سٹار ہو ٹل میں ٹھہرایا گیا تھا ۔ لڑکی والوں کے اصرار پر تمام مہمان ان کے مہمانوں کے طور پر ٹھہرائے گئے ۔ جو پوری دنیا سے شرکت کر رہے تھے ۔ ان کی تعداد 250سے زیادہ تھی ۔ پہلا دن آرام کا تھا۔ ہوٹل کی گیلری میں میزبان کی طرف سے ہیلپ ڈیسک بنا دی گئی تھی ۔ ایک ہال 24گھنٹے کیلئے ان مہمانوں کی خاطر و مدارت کیلئے بک تھا جن میں ناشتے سے لیکر رات کے کھانے کا الگ انتظام رکھا گیا تھا ۔
دوسرے دن پہلی دعوت لڑکی کے گھر پر تھی ۔ یہ دِلّی کے دل میں واقع تھی جو 10ہزار گز پر محل نما کوٹھی تھی ۔ جس کے دونوں طرف ائیر کنڈیشن باغ تھے ۔ 9بجے تک پورا لان بھر چکا تھا جو 3سے 4ہزار افراد پر مشتمل تھا ۔ لڑکی والوں نے خوب دل لگا کر سجاوٹ کی تھی ۔ امریکہ سے بھی ایک بہت بڑا گلوکار بلوایا جس نے آنے جانے کا کرایہ ، ٹھہرنے کیلئے فائیو اسٹار ہوٹل کے علاوہ 2لاکھ ڈالر لیے تھے۔ شروع سے ہی مہمانوں کی اسٹارٹر اور مشروبات سے تواضح ہو رہی تھی ۔ 5ہلکے پھلکے کھانے ، سبزیوں اور 5گوشت کی ڈشوں پر مشتمل بیرے بار بار آ کر پیش کر رہے تھے ۔ مشروبات کیلئے بہت لمبا بار بنا ہوا تھا ۔ اس تقریب میں وزراء ، سفراء ، بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ کے علاوہ تبت اور بھوٹان کے شاہی شہزادے بھی شرکت کر رہے تھے ۔ وزیراعظم ٹھیک اپنے وقت پر آئے ۔
مہمانوں کو ہاتھ لہرا کر اسٹیج پر دولہا ، دلہن کو مبارک باد دی ، فوٹو کھنچوائے اور میزبان کے ساتھ ان کے ڈرائنگ روم کی طرف روانہ ہو گئے۔ نہ ہمارے ملک کی طرح میلوں سڑکیں بند ہوئیں اور نہ سیکورٹی کا گھیرا بنا ۔ نہ شور شرابا ہوا ، البتہ صرف 10گز کے فاصلے پر تمام گاڑیوں سے مہمانوں کو اترنے کی گزارش کی گئی ۔ بس یہ تھا ان کا پروٹوکول ۔ ساڑھے 9بجے کھانا کھلا ، میں حیران ہو گیا یہ پچھلے لان میں 100سے زیادہ توے لائیو کھانا بنانے اور پیش کرنے میں مصروف تھے ۔ ہر طرح کے کھانے ، چینی ، کورین، سبزیاں ، گوشت ، مچھلیاں ، جھینگے الغرض شاید ہی کوئی کھانا ہو جو میزبان نے وہاں نہ رکھا ہو ۔ اس طرح 25تیس ڈشیں صرف میٹھے کی رکھی گئی تھیں ۔ طرح طرح کی آئس کریم الگ تھیں ۔ یہ رات کا نظارہ تھا کہ کھانوں کی بھرمار اور اسی دِلّی شہر میں راقم نے صبح ہمارے ساتھ آنے والے میرے دوست جن کے رشتہ دار دِلّی میں رہتے تھے جو پرانا دِلّی کہلاتا ہے ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تھا ۔ اور جو سنا تھا دِلّی کی تنگ گلیاں تو واقعی دیکھی جو بالکل نئی دِلّی کا الٹ منظر پیش کر رہی تھیں ۔ ان تنگ گلیوں سے پیدل گزر کر کیونکہ یہاں گاڑیاں اندر نہیں آ سکتی تھیں ۔ چند گلیاں تو 2 ڈھائی فٹ کی تھیں ۔ پرانی بوسیدہ عمارتیں بد بو سے اٹی ہوئی تھیں۔ یہاں گلی میں گھوڑے بھی بندھے ہوئے تھے ۔ گدھا گاڑیوں کے بھی ریڑھے تھے ۔ ہاتھ گاڑیوں اور ہاتھ کے رکشے سے پبلک آ جا رہی تھی ۔ اپنے اس پاکستانی دوست کی خاطر جو غالباً وہ خود بھی محسوس کررہے تھے اپنے غریب رشتہ دار سے ملنے ان کی رہائش گاہ تک پتہ پوچھتے پوچھتے آخر کا ر پہنچ گئے ۔
موصوف ایک کوٹھڑی نما ڈیڑھ کمرے پر مشتمل 60سال سے رہائش پذیر تھے ۔ چونکہ ان کو فون پر آنے کی اطلاع دے دی تھی تو وہ صبح سے ہی ہمارے منتظر تھے مگر ہم شام تک پہنچے ۔ ہمارے میزبان جو بوڑھے میاں بیوی تھے ۔ جن کی کوئی اولا د بھی نہیں تھی مل کر بہت خوش ہوئے ۔ انہوں نے بہت خاطر مدارت کی مگر ہم سے تو بیٹھا بھی نہیں جا رہا تھا ۔ ڈر لگ رہا تھا کہیں یہ بوسیدہ چھت گر نہ جائے ۔ غربت سے بھری پرانی دِلّی کے رہنے والوں پر ترس ا ٓ رہا تھا ۔ گلیوں میں ننگے بھوکے بچے ، ہڈیاں نکلی عورتیں ، مرد دِلّی کے امیروں کا مذاق اُڑا رہے تھے ۔ اس سے باہر نکل کر چوڑی چوڑی سڑکیں اور کہاں یہ تنگ گلیاں کیسا تضاد صرف چند میل کے فاصلے پر دیکھنے میں آ رہا تھا ۔ ان جھگی نشینوں کیلئے سرکار نے مفت راشن کارڈوں کا اجراء کر رکھا ہے ۔ سستے داموں دال ، چاول ، دودھ اور پتی بھی ان کو مہیا کی جاتی ہے ۔ بعض علاقوں میں تو مفت بجلی بھی فراہم کی جاتی ہے ۔ یہاں سے ہم محلہ نظام الدین پہنچے اور مفت کھانا بٹوانے کیلئے مزار کے پچھواڑے جہاں غریب فقیروں کا جھمگٹا رہتا ہے ۔ ہوٹل والے کو پیسے دیئے جس نے ایک گوشت کی پلیٹ اور 3روٹیوں کے 25روپے فی کس لیے اور ان فقیروں کو کھانا دینا شروع کیا ۔ ان بھوکے فقیروں کی خوشی قابل ِ دید تھی ۔ کچھ فقیروں نے پیسوں کی فرمائش کی غلطی سے ہم نے ان کی غربت دیکھتے ہوئے 50پچاس کے نوٹ نکالے تو تمام فقیر کھانا چھوڑ کر ہماری گاڑی پر ٹوٹ پڑے ۔ بڑی مشکل سے کپڑے بچاتے ہوئے ہمارے ڈرائیور نے پھرتی دکھائی اور گاڑی دوڑا دی ۔ کچھ فقیر مرد عورتیں اور بچے تو گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑتے رہے ۔ رات کو سردار جی کے کھانوں کی قطاروں کو دیکھ کر دن کا منظر آنکھوں میں گھوم گیا کہ یااللہ ایک طرف کھانا بچ کر پھینکا جا رہا ہے تو دوسری طرف تیری ہی مخلوق کھانے کیلئے ترس رہی ہے ۔ دوسرے دن لڑکے والوں کا کھانا تھا وہ بھی 10بارہ کھانوں اور 10بارہ میٹھوں پر مشتمل تھا ۔
تیسرے دن آخری لڑکے والوں کا ولیمہ تھا ۔ سردار جی کے گھر پر بھی 50 کھانوں سے کم نہیں تھا ۔ وہی مہمانوں کی تعداد ہزاروں میں کہتے سنے گئے کہ سردار جی نے اس تقریب پر 50کروڑ بھارتی روپے خرچ کئے جبکہ وہ 75000کروڑ کی آسامی سمجھے جاتے ہیں ۔تیسرے دن ہم دوبارہ ان تنگ گلیوں میں مشہور شاعر مرزا اسد اللہ غالب کی حویلی دیکھنے گئے جو بھارت سرکار نے خصوصی طور پر عجائب گھر کی طرح محفوظ کر رکھی ہے جو عوام اور شاعر کے چاہنے والوں کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے پھر شام کو ہی ان کے مزار جو حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار سے ملحق تھا ۔ وہاں 6بجے پہنچے تو تالا لگا ہوا تھا ۔ آوازیں دے کر اندر سے گارڈ کو بلوایا تو اس نے کہا کہ 5بجے احاطہ بند کر دیا جاتا ہے کل آئیں ۔
ہم نے کہا ہم پاکستان سے آئے ہیں خصوصی طور پر غالب# صاحب کے مزار پر فاتحہ پڑھنے کیلئے۔ اس نے تالا کھولا ہم نے فاتحہ پڑھی ۔ کچھ اس مسلمان گارڈ کی بھی سیوا کی اور ہوٹل واپس آئے ۔ ان تمام 6دنوں میں ہم نے دن میں دِلّی شہر کی سیر کی ۔ لال قلعہ ، ہمایوں کا مقبرہ ، جمعہ کی نماز بادشاہی مسجد میں ادا کی ۔ قطب مینار، ابراہیم لودھی کا مقبرہ دیکھا جو خستہ حال ہو چکے ہیں ۔ بھارتی سرکار کی غفلت یا عدم توجہ کی شکار ہیں ۔دیکھ کر واپس پاکستان لوٹے آئے ۔ یہاں ایک بات بتاتا چلوں کہ پاکستان اور بھارت میں 2چیزیں بہت مشترک ہیں کہ دونوں کے سیاستدان کرپشن میں مبتلا ہیں اور دونوں کی پولیس بھی کرپٹ ہے ، البتہ ہندوستان کی پولیس آنکھیں چرا کر رشوت لیتی ہے اور پاکستان کی پولیس آنکھیں دکھا کر۔