بہادر شاہ ظفر: احساسِ ظفر مندی سے دُور

August 23, 2020

زنجیر، زنداں، قفس، آشیانہ، قیدو سلاسل، صیّاد،بُلبل، رہائی وہ الفاظ ہیں جو اُردو نثر و نظم میں عام طور پر مستعمل ہونے کے باوجود کسی خاص پس منظر کی طرف اشارہ کرتے ہیں،یعنی ایک ایسا منظر نامہ، جس میں آزادی کی تڑپ کا واضح اظہار موجود ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسی لفظیات کا انتخاب کرنے والا شخص وہی ہو سکتا ہے، جو قید و بند کی صعوبتوں سے یا تو گزرا ہو یا اُس میں مبتلا ہو ۔ اگر بات صرف اُردو شاعری کے حوالے سے کی جائے تو دورِ قدیم میں بھی اور دورِ جدید میں بھی شعرا نے اُن شعری تلازمات کا خوب استعمال کیا، جن میں زندانی فضا کی بُو باس تھی۔

اس عنوان سےآخری مغل شہنشاہ اور شاعر،بہادر شاہ ظفرؔ نے اُس احساسِ کرب کی بھرپور عکّاسی کی کہ جس میں زنداں کی دیواروں نے اُن کے روزوشب کواسیری کی بے مہر ساعتوں کا ساتھی بنا دیا تھا۔؎مَیں وہ مجنوں ہوں کہ زنداں میں نگہبانوں کو… میری زنجیر کی جھنکار نے سونے نہ دیا۔؎برپا نہ کیوں ہو خانۂ زنداں میں روز غُل… میرے جُنوں سے اب تو سلاسل پہ بن گئی۔؎قفس کے ٹکڑے اُڑا دوں پھڑک پھڑک کر آج…ارادہ میرا اسیرانِ ہم نَفَس یوں ہے۔؎نہ تنگ کیوں ہمیں صیّاد یوں قفس میں کرے …خدا کسی کو کسی کے یہاں نہ بس میں کرے۔’’نوائے ظفرؔ:انتخابِ کلامِ بہادر شاہ ظفرؔ ‘‘میں خلیل الرّحمان اعظمی نے پورے یقین سے جس بات کا اظہار کیا ، وہ کچھ یوں ہے’’زنجیر اور زنداں سے بھی زیادہ اہم علامت ظفرؔ کی شاعری میں قفس و آشیاںاور صیّاد و عندلیب کی ہے۔

پوتے، جیجن کے ساتھ

اردو غزل کا یہ استعارہ عام طور پر بہت پامال ہے اور بیش تر شعرانے اسے رسمی اور روایتی طور پر استعمال کیا ہے ،لیکن ظفرؔ کے یہاں یہ علامت ایک تخلیقی قوّت بن جاتی ہے ۔اس کا جتنا موثّر اور جان دار استعمال ظفرؔ کے کلام میں ملتا ہے، اس کے متعلق بلا خوف ِتردید کہا جا سکتا ہے کہ ا س باب میں اُردو کا کوئی شاعر ان کا حریف نہیں۔‘‘

بہادر شاہ ظفرؔ14 اکتوبر 1775 ءکو اکبر شاہ ثانی کے گھر پیدا ہوئے، وہ اُن کی پہلی اولادتھے۔تاریخی نام ابو ظفر تھا۔جدّ ِ امجد ،شاہ عالم بھی بہادر شاہ کا لقب رکھتے تھے۔سو، بہادر شاہ ظفرؔ ،بہادر شاہ ثانی کہلائے۔ ظفرؔ کے دادا، شاہ عالم ثانی نے طویل عُمر پائی تھی، یوں ظفرؔ کو اُن کی صحبت میں رہنے اور سیکھنے کابھر پور موقع ملا۔اُردو،فارسی،عربی اورہندی پر دست گاہ حاصل کی۔ خطّاطی اور خوش نویسی میں بھی اساتذہ کی توجّہ سے مہارت ہوئی۔گُھڑ سواری،تیراندازی،شمشیر زَنی میں لوہا منوایا۔ مُرغوں، بٹیروں، تیتروںاور کبوتروں کا خُوب شوق تھا۔

مغل سلطنت کی واحد نمایندہ، شہزادی
سلطانہ بیگم کپڑے دھوتے ہوئے

سو ،اس عنوان سے بھی خود کو باخبر رکھا۔ظفرؔ کے مزاج میں شاہی خُو بُو کا عُنصر نام کو نہ تھا۔ اس کے برعکس اُن کے سوتیلے چھوٹے بھائی مرزا جہانگیر میں شاہی طنطنہ بدرجۂ اتم موجود تھا۔ان تمام عوامل کے باوجود ظفرؔ کے لیے عمومی حالات نامساعد ہی رہے۔ شاید حالات کی یہ نامساعدت ہی تھی کہ ظفرؔ درد و اثر میں ڈوبے اشعار کہنے لگے۔ اقتدار دُورسے کمال اور قریب سے وبال ہوتا ہے۔وہاں رشتے ناتے کی اہمیت غرض اور مطلب پرستی سے مشروط ہوا کرتی ہے۔

شاید اسی لیےاکبر شاہ ثانی کی خواہش تھی کہ ولی عہدی مرزا جہانگیر کو منتقل ہو۔اس مقصد کے لیے باپ نے بیٹے کو گویا بیٹا ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔شومیٔ قسمت کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اکبر شاہ ثانی سے جو اختیارات سلب کیے تھے،اُن میں ولی عہدی کا اختیار بھی شامل تھا۔یوںاکبر شاہ ثانی کی تمام تر خواہش اور مرزا جہانگیر کی بڑے بھائی کے خلاف کی جانے والی معاندانہ اور قاتلانہ کوششوںکے باوجود بہادر شاہ ظفر ؔ باسٹھ برس کی عُمر میں1837ء میں مسند نشین ہو ئے۔

عُمر وہ تھی کہ پیروں کا استحکام لرزہ براندام ہونے کی طرف زیادہ مائل تھا۔اس کیفیت کے ساتھ جب بہادر شاہ ظفرؔ نے سلطنت کا انتظام و انصرام سنبھالا تو فوری اندازہ ہوگیا کہ اُن کے ہاتھ کچھ نہیں۔ ؎کیسی ہوا چلی چمنِ دل میں اے ظفرؔ… سب برگ و بار نخلِ تمنّا کے جھڑ پڑے۔بہر حال، ظفر کے لیےمسند نشینی سے 1857ءکی جنگِ آزادی تک کا دَور ایک نہ ختم ہونے والی شورش کی داستان سے پُر تھا۔ گرچہ اُن کے دَور کو اُردو ادب کا دَورِ خوش گوار کہنا یوں غلط نہ ہو گا کہ غالبؔ، مومنؔ،ذوقؔ جیسے باکمال اپنی سُخن وری سے مُعجز بیانی کی داستانیں رقم کرتے نظر آتے تھے۔

بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے، مرزامحمّد بیدار بخت اور اُن کی اہلیہ سلطانہ بیگم

تاہم، سیاسی،اقتصادی اور سماجی سطح پر ریشہ دوانیاں دیکھنے میں آ رہی تھیں۔ ستمبر 1857ءمیں بہادر شاہ ظفرؔ نے خود کو انگریز حکّام کے حوالے کر دیا۔پھراُنہیں اگلے ایک برس تک دلّی میں قید میں رکھا گیا۔ اسّی برس سے زائد کی ضعیف العُمری ، نقاہت اور ہر سانس میں مر مر کے جینے والے بہادر شاہ ظفر ؔ نے یہ قید اس طور گزاری کہ تماش بین ہر وقت بلا تکلّف انہیں ایسے دیکھتے ،جیسے پنجرے میں قید کسی جانور کو دیکھا جاتا ہے۔

مقدمہ چلا اور بالآخر عدل و انصاف کے اُصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، اُنہیں چند دیگر افراد کے ساتھ جِلا وطن کرکے رنگون بھیج دیا گیا۔ مختلف مقامات سے ہوتا ہوا یہ قافلہ دسمبر 1858ء کو رنگون پہنچا۔یہاں کی قید بہادر شاہ ظفرؔ کے بڑھاپے کا ایک اورامتحان ثابت ہوئی اوروہیں7نومبر 1862 ءکو مغلیہ سلطنت کا آخری تاج دار ِبے تخت و تاج دنیا سے کُوچ کر گیا۔ پس اَز مرگ بھی تکالیف کا سلسلہ ختم نہ ہوا اور اُن کی قبر کا نشان ہی مٹا دیا گیا۔؎پسِ مرگ قبرپہ اے ظفرؔکوئی فاتحہ بھی کہاں پڑھے… وہ جو ٹُوٹی قبر کا تھا نشاں اُسے ٹھوکروں سے اڑا دیا۔؎کتنا ہے بدنصیب ظفرؔ دفن کے لیے… دو گز زمیں بھی مل نہ سکی کُوئے یار میں۔

سلطانہ بیگم اُس پیڑ کے پاس کھڑی ہیں،جہاں
وہ چائے کا اسٹال لگاتی تھیں

سرِ دست ذکر ہے، بہادر شاہ ظفرؔ کی اُن اگلی نسلوں کا کہ جو آج انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہی ہیں ، جنہیں دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ اُن کے اسلاف نے کسی زمانے میں ہندوستان پر حکمرانی کی ہوگی۔افسوس ہی کی بات ہے کہ ظفرؔ کی بدنصیبی کی داستان صرف اُن ہی تک محدود نہ رہی ، وقت کے ساتھ ساتھ اُس کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ یہ داستان انتہائی غُربت میں پَلی ایک شہزادی کی ہے۔

قطعاً یقین نہیں آتا کہ ہندوستان کے وہ مغل حکمراں، جنہوںنے تاج محل تعمیر کیا،اُن کی اگلی نسلیں صُعوبت و ناداری کی کس درجہ نچلی زندگی جی رہی ہیں۔67برس کی سلطانہ بیگم نے بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے سے شادی کی تھی،وہی بہادر شاہ ظفرؔ کہ جن کے اجداد نے ہندوستان پر تین سو سال حکمرانی کی۔آخری مغل بادشاہِ ہند کی چوتھی نسل کو پینشن یا ماہانہ وظیفے کے طور پر محض ساٹھ اسٹرلنگ پاؤنڈ ملتے ہیں۔ اُن کا گھر کلکتہ (موجودہ کولکتہ) کی ایک تاریک جھونپڑپٹی میں دو کمروں کی تنگ سی جھونپڑی پر مشتمل ہے۔ وہ وقت کب کا بیت چُکا،جب پچھلی نسلوں نے ایک وسیع و عریض سلطنت پر حکمرانی کی تھی اور آبا و اجداد محلّات میں رہتے تھے۔

آج کے جدید تعلیم یافتہ دَور میں جینے والی سلطانہ بیگم کا طرزِ زندگی مغل سلطنت کے حکمرانوں سے یک سرمختلف ہے کہ اُن کی زندگی کولکتہ کے مضافات میں واقع ایک کچّی آبادی تک محدود ہے۔ سلطانہ، جو ہندوستان کے آخری شہنشاہ ، بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے کی بیوی ہیں،اپنے شاہی وَرثے کے باوجود زندگی گزارنے کے لیے ماہانہ وظیفے کی بنیاد پر رات دن جدّوجہد میں مصروف ہیں۔ سلطانہ بیگم کی زندگی کی مشکلات سمجھنے کے لیےاُن کے طرزِ زندگی پر ایک نگاہ ڈالنی ضروری ہے۔

پوتوں کے ساتھ

مثلاً : یہ دُرست ہے کہ اُن کے گزشت گان نے ایک طاقت وَر سلطنت پر حکم رانی کی ، لیکن وہ ماضی تھا اور آئندگان کا معاملہ یہ ہے کہ آج اُن ہی کی ایک نمائندہ ،سلطانہ کے پاس محض اتنی ہی رقم ہے کہ وہ اپنے چھےبچّوں(پانچ بیٹیاں ، ایک بیٹا )اور ان کے اہل و عیال کی دیکھ بھال بمشکل کر پاتی ہیں۔ویسے اُن کا زیادہ وقت اپنے پوتے، محمّد جیجن کے ساتھ گزرتا ہے۔ اُن کی تاریک جھونپڑی کے چھوٹے دو کمروں سے ملحق ایک راہ داری ہے، جو بائیں جانب ہے، مگر دائیں جانب کولکتہ کی مضافات میں واقع کچّی آبادی میں گندگی سے اَٹی گلیاں بھی سواگت کے لیے موجود ہیں۔

1980ءمیں اپنے شوہر ،شہزادہ مرزا بیدار بخت کی وفات کے بعد ہی سے سلطانہ بیگم غربت کی زندگی گزار رہی ہیںمگر اب تویوں محسوس ہوتا ہے،جیسےکو لکتہ کے اس کچّی آبادی کے علاقے، ہوراڑا کی یہ جھونپڑی ہی مغل حکمرانوں کے ورثا کا مقدّربن چُکی ہے ۔زندگی کا کُھردرا پن اس بات سے بھی عیاں ہے کہ سلطانہ بیگم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مشترکہ باورچی خانے میں کھانا پکاتی ہیں اور سڑک پر لگے نلکوں کا پانی استعمال کر کے گلی میںکپڑے دھوتی ہیں۔ان کے ساتھ اُن کی ایک غیر شادی شدہ بیٹی ،مدھو بیگم بھی رہتی ہے ۔ اپنے حالِ زار کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سلطانہ بیگم کا کہنا ہے ’’اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم کس طرح زندگی گزار رہے ہیں ۔میری دوسری بیٹیاں اوراُن کے شوہر بھی انتہائی غریب اور نادار ہیں ۔

مرزا محمّد بیدار بخت کو بھارت کے مغربی بنگال میں سپردِ خاک کیا جا رہا ہے

وہ اپنا گزر بسر ہی بمشکل کر پاتے ہیں، تو ہماری مددکس طرح کر یں گے ۔‘‘ حالیہ برسوں میں انتخابی مہم چلانے والے متعدّد افرادنےاس شاہی کنبے کی زبوں حالی کا ذکر کیا، شاہی خانوادے کی دیکھ بھال کے لیے حکّام سےگفت و شنید بھی کی ، لیکن سب بے سود ثابت ہوا۔مغل خاندان نے،اب سلطانہ جس کی ایک نمائندہ بھی ہیں اور وارث بھی، سولہویں، سترہویں اور اٹھارویں صدی میں برّّصغیر کو ایک وسیع تعمیراتی وَرثہ فراہم کیا۔ اُن ہی میں سے ایک تاج محل بھی ہے،جو مسلم شہنشاہوں کی یادگا رہے۔ بلکہ صرف تاج محل ہی کیوں، لال قلعہ،آگرہ قلعہ اور شالیمار گارڈن، لاہور بھی انہی کی یاد گاریں ہیں۔یاد رہے،ان قابلِ فخر تعمیرات میں سے بیش تر اب یونیسکو کے زیرِ انتظام،’’ عالمی وَرثہ‘‘ قرار دی جا چُکی ہیں۔

مرکزی اور ریاستی حکومتوںکو زندگی کے بنیادی انتظامات اور وظیفے کے سلسلےمیں آمادہ کرنے میں بھی سلطانہ بیگم کو برس ہا برس لگےاور یہ سلطانہ بیگم کی انہی کوششوں، اَن تھک محنت ہی کا نتیجہ ہےکہ حکومت نے اُن کی پوتی ،روشن آرا کو ڈیڑھ سو اسٹرلنگ پاؤنڈزماہانہ تن خواہ پر ملازمت دے دی ۔گرچہ حکومت نے ازراہِ ہم دَردی اوربطور مالی اعانت خاندان کے دیگر افراد کو بھی ملازمت فراہم کرنے کی پیش کش کی تھی کہ وہ ایک جاب ٹیسٹ دے کرملازمت حاصل کر سکتے ہیں،لیکن کنبے کے افراد کی ناخواندگی آڑے آگئی۔

عزم و ہمّت پر کاربند، سلطانہ بیگم نے برسوں چائے کی ایک چھوٹی سی دُکان چلاکر روزمرّہ اخراجات پورے کیے۔ پھراپنی توجّہ خواتین کے لباس تیار کرنے کی جانب مرکوز کی۔وہ ایسے تمام افراد کی دل سے قدر کرتی ہیں، جنہوں نے شاہی گھرانے کی معاشی بدحالی دُور کرنے کی کوشش یا ان کی مدد کی۔ اس حوالے سے اُن کا کہنا ہے’’مَیں ان تمام لوگوں کی شکر گزار ہوں ،جو میری مدد کے لیے آگے آئے ۔

میرے شوہر ،مرحوم محمّدبیدار بخت ،جو جمشید بخت کے بیٹے اور جواں بخت کے پوتے تھے، مجھ سے کہا کرتے کہ ہم اُس قابلِ احترام شاہی خاندان سے ہیں، جس نے کبھی معاش کی درخواست نہیں کی۔‘‘ جب بہادر شاہ ظفرکو جلا وطن کیا گیا، تو اس وقت اُن کے ہم راہ ان کی اہلیہ، زینت محل اور کنبے کے باقی افراد نے بھی جلاوطنی اختیار کی۔وہ 7نومبر 1862ء کو رنگون میں(میانمار کا دار الحکوت، ینگون) جِلاوطنی کے دوران انتقال کر گئے۔

جس جگہ اُن کی تدفین کی گئی، وہ بعد میں ’’بہادر شاہ ظفر درگاہ ‘‘کے نام سے مشہورہوئی۔در اصل1991 ءمیں بحالی کی مشق کے دوران اینٹوں سے چُنی ہوئی ایک قبر کا پتا چلا، تو مقامی برمی مسلمانوں نے اسے درگاہ کی حیثیت دے دی۔ بہادر شاہ ظفرؔکی اہلیہ زینت محل 1886ءمیں انتقال کر گئیںاور پوتی، رونق زمانی بھی انہی کے ساتھ دفن ہیں۔گرچہ بہادر شاہ ظفر ؔکے بچّے اور پوتے پوتیاں 1857 ءکی ناکام بغاوت کے نتیجے میں مارے گئے ۔تاہم، بچ جانے والے بچّوں کی اولاد ریاست ہائے متّحدہ امریکا کے ڈیٹراریٹ، مشی گن کے ساتھ ساتھ ہندوستان اور پاکستان کے مختلف مقامات میںمقیم ہے، جب کہ سلطانہ بیگم کے شوہر اور شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے پوتے محمّد بیدار بخت کو ہندوستان کے مغربی بنگال میں سپردِ خاک کیا گیا۔

یاد رہے،مغل سلطنت کا آغاز فارس سے ہوا تھا اور سولہویں صدی کے وسط اور اٹھارویں صدی کے اوائل تک برّصغیر پاک و ہند میں اُن کا اقتدار غالب تھا۔مغل شہنشاہوں نے دنیا کی ایک چوتھائی آبادی پر حکومت کی۔ اتحاد یوں کے ساتھ مل کر ایک روڈ سسٹم اور یک ساں کرنسی کی تشکیل کی وجہ سےان کے دَور میں ہندوستانی معیشت نے بہت ترقّی کی۔اس کے شہر اور قصبوں کے لیے یہ دَور، دورِ عروج ثابت ہوا۔