سعودی عرب سے دوستی ہمارا ایمان

August 22, 2020

درویش کو پہلی حیرت اس روز ہوئی جب نوازشریف کے دور میں ہماری پارلیمنٹ نے یمن کے حوالے سے ایک قرارداد منظور کی کہ ہم سعودیوں کے ساتھ غیر جانبدار رہیں گے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ سب کیوں اور کیسے ہو گیا؟ کسی باخبر سے کہا کہ وزیراعظم سے پوچھیں ،چند روز بعد جواب ملا کہ میاں صاحب کہہ رہے ہیں کہ مجھے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی ۔

آج دوسری حیرت وزیر خارجہ کی سعودی عرب کے حوالے سے بیان بازی سن کر ہوئی۔ سچی بات ہے کہ یقین اب بھی نہیں آ رہا تھا کہ موصوف جتنے بھی ”ذمہ دار“ ہیں لیکن یہ کہہ کیا رہے ہیں؟ معلوم ہوا کہ جس طرح پہلی حیرت کے حقیقی باعث کوئی اور تھے، اس دوسری حیرت کے ڈانڈے بھی کہیں اور ہیں۔ یہ ایک سٹریٹجی کا حصہ ہیں، سنبھالنے والے سنبھال لیں گے۔ اگر وقتی طور پر سنبھل بھی جائیں تو کیا جومیل آ گیا ہے وہ صاف ہو پائے گا؟ کیا شاہ جی اپنی سیٹ پر قائم رہ سکیں گے؟کیا دوبارہ تعلقات اسی لیول پر آ سکیں گے۔ ہاں ضرورتیں انسانوں سے بہت کچھ کروا لیتی ہیں، لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کون کس کی کتنی ضرورت ہے؟ کہیں ہم دوسروں کے یا اپنے بارے میں غلط اندازے تو نہیں لگا رہے ہیں۔ ماشاءاللہ موجودہ سیٹ اپ میں سب کچھ ممکن ہے۔ جب بڑے شاہ جی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ ”ترک ڈرامہ“ دیکھنا ہے یا فلم ”لارنس آف عریبہ“ دیکھنی ہے تو پھر بیچارے چھوٹے سے شکایت کیسی؟ ہم ملائیشیاآ رہے ہیں، نہیں آ رہے اور پھر اعلان کیا جا رہا ہے، غلطی ہو گئی آئندہ آئیں گے۔ او بھائی جان !ہمارا کوئی پیندا بھی ہے کہ نہیں؟ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ سارے انڈے جس ایک مرغی کے نیچے رکھتے ہوئے فراغت کی لڈیاں ڈال رہے ہیں اگر وہ گندے ہو گئے یا ان میں سے متوقع بچے نہ نکلے تو کیا سوچ رکھا ہے؟ پھر کیا کرنا ہے؟اور کرنے کیلئے ہمارے پاس بچے گا کیا؟اور متوقع بھاری نقصان کی Remedy ہو سکے گی کیا؟ جب بڑی خرابیاں پڑتی ہیں تو آغاز چھوٹی خرابیوں سے ہی ہوتا ہے۔ درویش دیکھ رہا ہے کہ احمد میاں فاختہ اڑاتے ہوئے ادھر کے رہیں گے نہ ادھر کے۔ حضور! ہم کون سا نیا بلاک بنانے جا رہے ہیں چار دوستوں کا؟ ایک تو عرب ہے اس کی جو بھی رنجشییں ہیں بڑے صاحب کی بیٹھک میں تو وہ دب جاتی ہیں جو بڑے کے کہنے پر اپنے آنگن میں معاہدے کراتے ہیں وہ بھلا آپ کے کیمپ کا حصہ کیوں بنیں گے؟ خوردنی تیل بیچنے والے تو خود اپنے گھر میں ہی فارغ ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ ان کی اپنی پارٹی نے ان کے ساتھ کھڑے ہونا پسند نہیں کیا تو پھر پیچھے بچا کون ہے سوائے ارطغرل بنانے والوں کے؟ مشہد مقدس والوں کے تو ایشوز ہی اور ہیں۔انہی کے گرد تو گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے تو کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم بھی اس گھیراؤ میں آ جائیں ان کے پاس تو ہمالہ کے اس پار بیچنے کیلئے کچھ ہے ہمارے پاس کیا ہے؟ کیا ہم نے سوچا ہے کہ یہ بگاڑ مزید آگے بڑھے گا تو اور کون کون سے مسائل سر اٹھائیں گے، اتنی بڑی لیبر ہی گھر واپس آنے کا مسئلہ نہیں ہے، جو تھوڑی بہت کاٹن انڈسٹری چل رہی ہے کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اگر کسی دن ہمسائے جیسی بندشیں آئیں تو اس کا کیا حال ہو گا؟ کیا ہم مغرب کا ایسا کوئی ایک جھٹکا سہ پائیں گے؟ کیا کبھی غور کیا کہ ہمارا سارا اسلحہ اور اس کی ٹیکنالوجی سات دہائیوں میں کہاں سے آئے ہیں؟ صرف پرزوں پر ہی پابندی لگ گئی تو کس قدر نہتے ہو سکتے ہیں؟ انسان کو اتنا بول بولنا چاہیے جسے سہنے کی طاقت اور ہمت ہو۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اسے پاکستانی عوام، جی ہاں! بائیس کروڑ عوام کی سلامتی اور ترقی و استحکام سے جوڑ کر دیکھیں۔ اگر ہم ہمالہ کو نہیں توڑ سکتے تو توڑنے کی حسرت و خواہش بھی چھوڑ دیں۔کیا غربت، جہالت، جنونیت اور ظلم و جبر سے بڑی بلائیں بھی ہوں گی دنیا میں، جو آج ہمیں درپیش ہیں۔ ہم کیوں نہ سب سے پہلے اپنی اس مشکل سے نکلیں اپنے عوام کی ترقی و خوشحالی کو محور بنا کر اپنی خارجہ پالیسی اس کی مطابقت میں تشکیل دیں۔ وطن عزیز کی خارجہ پالیسی میں اس وقت جتنی بھی مشکلات ہیں ان کی بنیاد وجہ ملک میں آزادی اظہار رائے کا فقدان ہے اگر یہاں کھل کر بات کرنے کی اجازت دے دی جائے تو بہت سی غلط سوچیں، شیخ چلی کے خواب بن کرفارغ ہو جائیں گی۔