علی گیلانی کا ایک انٹرویو

August 25, 2020

حال ہی میں حکومت پاکستان نے کشمیری رہنما سید علی شاہ گیلانی کو نشان پاکستان سے نوازا- اسی مناسبت سے میں بیس سال پہلے ان سے لئے گئے انٹرویو کے کچھ اقتباسات پیش کر رہا ہوں - یہ انٹرویو میں نے ان کی اس وقت کی رہائش گاہ بلبل باغ سرینگر میں لیا تھا جو سرینگر کے مشہور ہفت روزہ چٹان میں اپریل 2000 میں شائع ہوا تھا-

سوال: پاکستان میں فوجی بغاوت کے بعد بھارت کا استدلال ہے کہ بات چیت صرف کشمیریوں کے ساتھ ہوگی پاکستان کے ساتھ نہیں؟

جواب: باون سال کے طویل عرصے میں ہم نے دیکھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی بار بات چیت ہوئی- اسی طرح بھارت اور کشمیریوں کے بیچ میں بھی بات چیت کے کئی دور ہوئے لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا- اس لئے ہم کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے اولاً اقوام متحدہ کی قراردادیں بنیاد ہیں یا سہ فریقی مذاکرات ہونے چاہئیں جن میں پاکستان بھی شریک ہو-

سوال: حالات کافی بدل گئے ہیں اور اب تو امریکی صدر کلنٹن بھی کہہ رہے ہیں کہ بھارت اور کشمیریوں کو مذاکرات کرنے چاہئیں؟

جواب: ہماری جدوجہد نہ تو کلنٹن صاحب کے ارشادات کےمطابق ہے اور نہ کسی اور عالمی قوت کے اشاروں پر- یہ جدوجہد 1947 سے جاری ہے اور آج آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ عالمی قوتیں مثلا امریکہ، برطانیہ، اقوام متحدہ اور جی ایٹ یا پی فائیو ممالک ہمارے کاز کی اس سطح پر حمایت نہیں کرتے جس سطح پر انکو کرنا چاہئے تو اس لئے ہمیں اپنی جدوجہد سے ہاتھ اٹھانا چاہئے اور مایوس ہونا چاہئے اور بھارت کی قوت اور طاقت کے سامنے سرینڈر کرنا چاہئے- یہ حقیقت پسندانہ رویہ قرار نہیں دیا جاسکتا- یہ حق و صداقت پر مبنی جدوجہد ہے اور اسکو برقرار رکھنا چاہئے، چاہے امریکہ ساتھ دے یا نہ دے- اسکا ساتھ دیا جانا چاہئے اور ہر قیمت پر دیا جانا چاہئے-

سوال: مگر موجودہ دور میں آپ کوئی بھی مسئلہ بین الاقوامی برادری کی مداخلت یا تعاون کے بغیر حل نہیں کرسکتے؟

جواب: آپکو یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ بین الاقوامی برادری کے سامنے اپنے مفادات ہیں، برطانیہ کے اپنے، پی فائیو یا جی ایٹ کے سامنے انکے اپنے معاشی یا قومی مفادات ہیں اور وہ ہماری توقعات کےمطابق ہماری جدوجہد کی حمایت نہیں کرسکتے- لیکن پھر بھی میں آپکو بتادوں کہ کوئی بھارت کے اس مؤقف کو تسلیم نہیں کرتا کہ جموں و کشمیر اسکا جزو لاینفک ہے- سب کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر متنازعہ ہے اور اسکو پر امن طریقے سے حل کیا جانا چاہئے-

سوال: پچھلے کچھ عرصے سے مسئلہ کشمیر کے حل کے بارے میں کئی قسم کے فارمولے منظر عام پر آچکے ہیں- ان پرآپکی کیا رائے ہے؟

جواب: بنیادی بات تو لوگوں کی رائے ہے- اگر استصواب رائے میں لوگ بھارت کے حق میں فیصلہ دیں تو ہمیں کوئی عذر نہیں ہوگا- اگر بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنےکیلئے تیار نہیں ہے تو تینوں فریقوں کے نمائندے ملکر کسی بھی فارمولے پر غور و خوض کرسکتے ہیں اور جو بھی فارمولا سامنے آئے گا اور جس پر اتفاق ہوجائے اسکو ہم تسلیم کریں گے-

سوال: نیشنل کانفرنس ہمیشہ حریت کانفرنس اور بھارت کی مرکزی سرکار کے درمیان مذاکرات کی مخالفت کرتی آئی ہے؟

جواب: نیشنل کانفرنس کا ہدف اور مقصد صرف اقتدار ہے- اس لئے وہ ہر وقت اندیشوں میں گھرے رہتے ہیں کہ کہیں انکا اقتدار چھن نہ جائے- وہ سمجھتے ہیں کہ اگر حریت کانفرنس اور بھارت میں مصالحت ہوجائے تو شاید انکی حکومت نہ رہے- آپ انکا یہ اندیشہ دور کردیں کہ حریت کانفرنس اقتدار کیلئے نہیں لڑ رہی اس لئے انکو اپنے اقتدار کے حوالے سے پریشان نہیں رہنا چاہئے- انکا اقتدار فوج کے سہارے سے ہے اور جب تک یہاں پر بھارت کا فوجی تسلط ہے انکا اقتدار قائم رہے گا-

نیشنل کانفرنس جموں و کشمیر میں ہندوستان کے آدرشوں کی ترجمان ہے- آج سے بہت پہلے فاروق عبداللہ نے کہا تھا کہ لائن آف کنٹرول کو مستقل بنایا جائے وہ ہندوستان کی آواز تھی- اسلئے ہم بار بار یہ واضح کرتے آئے ہیں کہ ایل او سی کو مستقل لائن قرار دینا مسئلے کا حل نہیں اور نہ اندرونی خود مختاری یا 53 کی پوزیشن- انکو ہم کسی لگی لپٹی یا ابہام کے بغیر مسترد کرتے ہیں-

سوال: آپکی آئندہ کی حکمت عملی کیا ہے؟

جواب: ہماری حکمت عملی کا بنیادی نکتہ یہ رہنا چاہئے کہ لوگوں کے حوصلے بلند رہیں اور اگر خدا نخواستہ انکی کچھ غلط توقعات ہیں کہ ہم جہدوجہد کے اس مرحلے پر پہنچ چکے ہیں کہ سمجھوتہ کرکے کچھ مشکلات کو کم کریں، لیکن شہدا کی قربانیوں اور ہمارے مقصد کا احترام برقرار نہ رکھا جائے تو انکی ان غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہئے-