قائد ِقلت

August 27, 2020

ہم پاکستانیوں کے لئے مالی و اقتصادی مشکلات یا بیڈ گورننس تو ہرگز نئی بات نہیں اور ماضی میں بھی وقفے وقفے سے ایسی آزمائشوں کا سلسلہ جاری رہا ہے مگر نئے پاکستان میں ان مسائل اور بحرانوں کا انداز یکسر مختلف اور منفرد ہے ۔مثال کے طور پر قیام پاکستان کے بعد ہمارا ملک کئی بار گندم کی قلت کا سامنا کر چکا ہے۔

پیٹرول اور چینی کا بحران پیدا ہوجا نا بھی معمول کی بات ہے۔میں نے کئی بزرگوں سے یہ جاننے کی کوشش کہ کیا انہوں نے آج تک کوئی ایسا دور دیکھا ہے کہ گندم کی نئی پیداوار مارکیٹ میں آنے کے دوسرے یا تیسرے مہینے میں ہی اناج مہنگا ہونے لگے اور پھرصورتحال بتدریج گندم اور آٹے کے بحران کی طرف جاتی دکھائی دے؟

ہر طرح کے حالات کا مشاہدہ کرنے والے ان بزرگوں کا کہنا ہے کہ نئی گندم کے مارکیٹ میں آتے ہی نرخ کم ہو جایا کرتے ہیں اور لگ بھگ آٹھ نو ماہ تک قیمتوں میں استحکام رہتا مگر جونہی گندم کاشت کرنے کا سیزن قریب آتا ،گندم کے نرخ بڑھنے لگتے ۔

چند ماہ بعد جیسے ہی فصل پک کر اترتی اور نئی گندم مارکیٹ میں آنا شروع ہوتی ،قیمتیں ایک بار پھر معمول پر آجاتیں۔مگر ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ نئی نویلی گندم کے ہاتھوں کی مہندی بھی نہیں اُتری کہ اس کے لچھن بدل گئے ہیں۔

گندم کی پیداوار میں کمی ضرور آئی لیکن اس کے لئے تو موجودہ حکومت نے 2018ء میں باقاعدہ مہم چلائی ۔کسانوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ گندم کاشت کرنے کے بجائے متبادل فصلیں اُگائیں کیونکہ ہمارے پاس مزید گندم ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں رہی ۔

صرف یہی نہیں بلکہ 2018ء کے آخر میںاقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے گندم برآمد کرنے کی اجازت دیدی ۔اناج کے ذخائر میں جگہ بنانے کی غرض سے حکومت پاکستان نے کمال فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ بھی کیاکہ 4000ٹن اضافی گندم جذبہ خیر سگالی کے طور پر افغانستان کو بطور تحفہ دیدی جائے ۔حکومت کی اسی جانفشانی کے باعث موجودہ سال کے آغاز میں آٹے کی قلت پیدا ہوئی اور گندم کے نرخ بے تحاشا بڑھ گئے ۔ہنگامی طور پر گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اسی اثنا میں اناج کی فصل پک کر تیار ہو چکی تھی۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس برس گندم کی خریداری کے ہدف میں اضافہ کیا جاتا تاکہ کسی قسم کا بحران پیدا نہ ہوتا تو لیکن غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ تو وافر مقدار میں گندم خریدی گئی اور نہ ہی اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے کوئی حکمت عملی تیار کی گئی ۔حکومت نے گندم کا سرکاری ریٹ 1400روپے مقرر کیا تھا لیکن کسانوں سے 1300روپے من گندم خریدی جاتی رہی اور اب چند ماہ بعد ہی وہی گندم 2400روپے من ہوچکی ہے۔

گندم کے نرخ دو ماہ بعد ہی دوگنا کیوں بڑھے ،یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔اس بار حکومت نے 8.25ملین میٹرک ٹن گندم خریدنے کا ہدف مقرر کیا تھا۔وفاقی ادارہ پاسکو اور ہر صوبے کا محکمہ خوراک الگ الگ گندم خرید کر ذخیرہ کرتا ہے ۔

حکومت پنجاب کے لئے4.6ملین میٹرک ٹن گندم خریدار ی کا ہدف مقرر تھا مگر اخبارات کے مطابق صوبائی حکومت نے 3.58 ملین ٹن گندم خریدی۔سندھ حکومت کیلئے 1.4 ملین میٹرک ٹن گندم خریداری کا ہدف طے کیا گیا تھاجبکہ خیبرپختونخوا حکومت جس کا ہدف 4لاکھ ٹن تھا اس نے پہلے ہدف کم کروا کے 3لاکھ ٹن کروایا مگر دونوں صوبائی حکومتوں نے اپنے ہدف سے 50فیصد کم گندم خریدی۔

پاسکو کا ہدف پہلے کی نسبت بہت کم مقرر کیا گیا ۔پاکستان اسٹوریج اینڈ سروس کارپوریشن نے رواں سال 1.8ملین ٹن گندم خرید کر ذخیرہ کرنی تھی مگر صرف ایک ملین ٹن گندم خریدی جا سکی۔اس بار بھی وہی لوگ گندم خریداری کے نگران تھے جنہیں ایف آئی اے واجد ضیا انکوائری رپورٹ میں آٹے اور چینی بحران کا ذمہ دار قرار دے چکی ہے ۔گندم اسمگل ہو کر افغانستان جاتی رہی ۔

اب صورتحال یہ ہے کہ چکی کا آٹا جو تین ماہ پہلے 600روپے کا دس کلو تھا اب 700روپے میں بھی نہیں مل رہا۔ حکومت نے اس بحران سے نمٹنے کیلئے گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ گندم درآمد کرکے دس ماہ کیسے گزریں گے؟واقفان حال بتاتے ہیںکہ گندم کے بعد چینی کا بحران بھی انگڑائی لے رہا ہے ۔

چینی کے نرخوں میں اضافے کے نوٹس کے بعد چینی فی کلو قیمت 75روپے سے بڑھ کر 100روپے کلو تک جا پہنچی۔پاکستان میں پہلی بار گندم کا بحران دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کے دور میں پیدا ہوا۔ آٹے کی قِلت کے باعث احتجاجی مظاہرے ہونے لگے تولیاقت علی خان کو دیئے گئے خطاب ’’قائد ملت‘‘ کے طرز پر خواجہ ناظم الدین کو ’’ قائد قِلت ‘‘کہا گیا۔ اس بحران کو بنیاد بنا کر گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کردیا ۔

بعد ازاں سامنے آنے والے حقائق سے معلوم ہوا کہ یہ بحران مصنوعی تھا اور اس کا مقصد خواجہ ناظم الدین سے وزارت عظمیٰ کا کمبل چھیننا تھا ۔خواجہ ناظم الدین ملک کو امریکی کالونی بنانے کے خلاف تھے جبکہ گورنر جنرل غلام محمد،سیکرٹری جنرل اور وزیر خزانہ چوہدری محمد علی، آرمی چیف فیلڈ مارشل ایوب خان اوروزیر دفاع اسکندر مرزا سمیت بیوروکریسی کے تمام سرکردہ افراد پاکستان کو امریکہ کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بنانا چاہتے تھے ۔

خواجہ ناظم الدین کو ہٹا دیا گیا اور محمد علی بوگرہ وزیراعظم بنے تو چند ماہ بعد ہی کراچی سے امریکی گندم پورے ملک میں تقسیم ہونا شروع ہوگئی۔جن اونٹوں پر امریکی اناج کے تھیلے لدے ہوتے ان کے گلے میں ’’تھینک یو امریکہ‘‘کے بینر آویزاں تھے۔موجودہ حکومت کے دور میں یکے بعد دیگرے، پیٹرول، گندم اور چینی کی قِلت کے بحران جس طرح سے سراُٹھا رہے ہیں،مجھے تو یہ خدشہ محسوس ہو رہا ہے کہ کہیں کسی اور کو بھی خواجہ ناظم الدین کی طرح کوئی لقب نہ مل جائے ۔