انسان کا تاریخ ساز جمہوری سفر نئے خدشات کی زد میں

September 15, 2020

ہر سال ستمبر کی پندرہ تاریخ کو دنیا بھر میں عالمی یوم جمہوریت منایا جاتا ہے ۔یہ ایک اچھا موقع ہوتا ہے ،یہ دیکھنے اور سمجھنے کے لیے کہ جمہوریت نے بحیثیت مجموعی اب تک کس نوع کا سفر طے کیا ہے ۔نوعِ انسانی نے اس سے کیا فائدے حاصل کیے ہیں،کن مسائل سے جمہوریت کو دوچار ہونا پڑا ہے، اس نظام نے اپنی داخلی کمزوریوں کو کب کب اور کہاں کہاں دور کیا ہے،کہاں یہ محض برائے نام پائی جاتی ہے اور کہاں اس کے حاصلات سے معاشروں نے فائدے اٹھائے ہیں۔ ذیل میں تاریخ کی رہ گزر پر جمہوریت کے سفر کے مختصراً پہلوئوں کو سمونے کی کوشش کی ہے ۔

جمہوریت کی تاریخ پر نظر ڈالتے وقت تین بنیادی حقائق ضرور پیش نظر رہنے چاہئیں۔پہلی حقیقت تو یہ کہ جمہوریت اور اس کے ادارے ،قائدے اور قوانین ،اس سے وابستہ روایات ،اس کی نظری بحثیں اور عملی تشکیلات، یہ سب تمام و کمال انسانی کاوشوں کی مرہونِ منت ہیں۔چنانچہ ہر انسانی ایجاد اور اختراع بلکہ جملہ انسانی کاوشوں کی طرح جمہوریت کی تشکیل و تعمیر میں بھی کمزوریوںکا احتمال موجود رہتا ہے ۔کوئی انسانی کاوش ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مثال ثابت نہیں ہوتی ۔کبھی مکانی تبدیلیوں کے نتیجے میں اور کبھی زمانی فاصلوں کے زیر اثر ایک دور کی موزوں ترین جمہوریت دوسرے دور میں اور ایک علاقے کی جمہوریت دوسرے علاقے میں اپنے اندر اصلاح کی بہت سی گنجائش نمایاں کردیتی ہے ۔

جمہوریت کے حوالے سے دوسری اہم حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی خامیوں کو دور کرنے کی اہلیت اور اس کا طریقہ کار بھی رکھتی ہے ۔یہ خوبی انسان کے وضع کردہ اور اس کے تجربے کا حصہ بننے والے دوسرے نظاموں میں موجود نہیں رہی۔بادشاہتوں کی خامیاں انتہا پر پہنچ کر بادشاہت کے خاتمے پر منتج ہوتی رہی ہیں۔تاریخ کے پچھلے ادوار پر نظر ڈالیں تو کتنی ملوکیتیں اپنے انجام سے دوچار ہوئیں ،سلطنتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکارہوئیں،شخصی آمریتیوں اور اشرافیہ کی حکومتوں نے زوال کے دن دیکھے ، فوجی حکمران کتنی ہی دہشت کے ساتھ اقتدار میں آئے ہوں،مرجھائے ہوئے چہروں کے ساتھ اقتدار سے رخصت ہوتے رہے ہیں ۔بعض تو دورانِ اقتدار وردی اتارتے اور سویلین لباس زیب تن کرتے ہی آسمان سے زمین پر آتے ہوئے دیکھے ہیں۔خود ہمارے زمانے تک پہنچتے پہنچتے صورت حال کچھ یوں بنی کہ ایک دو ملکوں کے سوا جہاں بادشاہتیں ابھی بھی اپنے پورے کروفر کے ساتھ برقرار ہیں،باقی بادشاہتیں ’آئینی بادشاہتوں‘ کے متبرک نام سے موجود تو ہیں مگر سیاسی و قانونی اعتبار سے بالکل بے دست و پا ہوچکی ہیں۔جاپان ،برطانیہ،اسپین ،تھائی لینڈ ،ملائیشیا کتنے ہی ایسے ملک ہیں جہاں کے شاہی خانوادے آرٹ پیپر پر چھپنے والے رسالوں ،ڈاک کے ٹکٹوں اور قومی دنوں کے موقع پر تو جلوہ افروز ہوتے ہیں ،ان کے ملک کے سیاسی نظام میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں۔

امریکی دستور کی تیاری کے لیے ہونے والا فلاڈیلفیا کنوینشن

انیسویں اور بیسویں صدی میں فوجی آمریتوں کا چلن اتنا زیادہ ہوچکا تھا کہ لاطینی امریکہ میں یہ لطیفہ مشہورتھا کہ ہر فوجی جرنیل ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ کر اقتدار پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھنے لگتا ہے ۔افریقہ میں تو کیپٹن اور کرنل کی سطح کے فوجی افسروں نے بھی اپنے ملک کے اقتدار پر قبضہ کیا لیکن فوجی آمریتیں بھی بحیثیت مجموعی دنیا میں سیاسی اقتدار کی کوئی ایسی پسندیدہ اور پائیدار مثال نہیں بن سکیں جس کو کہ ان کے زیر تسلط ملکوں میں عوام کی دیر پا قبولیت حاصل رہی ہو ۔سو ماضی ٔ قدیم سے دورِ جدید تک بادشاہوں،پروہتوں،اشرافیہ ،شخصی حکمرانوں ،اور عسکری سالاروں کے اقتدار کے تجربات سے گزر کر، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ، انسان نے جمہوریت ہی کو ایک بہتر اور قابلِ عمل نظام کے طور پر تسلیم کرلیا ہے۔

تیسری بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہر سیاسی نظام کی طرح جمہوری نظام بھی معاشرے کی سماجی ساخت کی بنیاد پر اپنا وجود قائم کرتا ہے۔ ماضی کی تاریخ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ جس زمانے میں انسانی سماج جاگیردارانہ نوعیت کا تھا،زرعی معیشتوں کا دور دورہ تھا اور سماجی رشتے فیوڈل نظام ہی کے تحت مرتب ہوتے تھے،اس زمانے میں سیاسی اقتدار بادشاہتوں کے روپ میں ڈھلتا تھا ۔یہی بادشاہتیں جب دوسرے خطوں تک وسعت حاصل کرلیتی تھیں تو وسیع تر سلطنتیں وجود میں آجاتی تھیں ۔دنیا نے اپنی تاریخ میں بیسیوں سلطنتوں کا تجربہ کیا ہے۔یہ سلطنتیں اور بادشاہتیں موروثی نوعیت کی تھیں اور ان میں کم و بیش سب ہی کی بنیاد عسکریت پر قائم تھی۔ان مملکتوں اور سلطنتوں میں بسنے والے انسان رعایا کی حیثیت رکھتے تھے۔اُن کی حیثیت شہریوں کی نہیں تھی کیونکہ شہری رعایتوں کا نہیںبلکہ حقوق کا حامل ہوتا ہے اور یہ حقوق اُس کو کوئی حکمران نہیں بلکہ ملک کا آئین دیتا ہے ۔ حکمران رحم دل ہوتے تو رعایا کو کچھ رعایتیں حاصل ہوجاتی تھیں۔سخت گیر حکمران رعایا کی طرف کسی نظر ِ عنایت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔

ماضی ٔ قدیم اور عہدِ وسطیٰ کی صدیاں انسان نے انہی سخت کوشی کے حالات میں بسر کیں۔البتہ جب پندرہویں اور سولہویں صدی میں یورپ میں سائنسی ایجادات اور اختراعات کا دور دورہ ہوا، اور قدیم یورپی علوم مشرق وسطیٰ کا سفر کرتے ہوئے دوبارہ یورپ پہنچے تو وہاں سماجی تبدیلیوں کا آغاز ہوا ۔سائنسی ایجادات نے تجارت کے راستے ہموار کیے اور تاجر پیشہ طبقے کی پہل کاریوں کے نتیجے میں سمندری اور زمینی سفر ترقی اور اقتصادی پھیلائو کا ذریعہ بننا شروع ہوئے، تب پرانے فیوڈل سماجی رشتے اور ساتھ ہی بادشاہتو ں کے نظام،ابھرتے ہوئے اقتصادی مفادات کے سامنے رکاوٹ ثابت ہوئے اور یورپ میں ایک طویل آویزش کے بعد بالآخر تجارتی سرمایہ داروں کی کامیابیوں کا آغاز ہوا، جن کی براہ راست یا بالواسطہ مداخلت سے جدید قومی ریاستیں وجود میں آنا شروع ہوئیں۔1776ء میں امریکہ آزاد ہوا، اور 1788ء میں اس نے اپنا وفاقی آئین تشکیل دیا۔1789ء کے فرانس کے انقلاب کے نتیجے میں یورپ کے دوسرے ملکوں میں بھی تبدیلیاں واقع ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سلطنتیں ٹوٹنی اور قومی ریاستیں وجود میں آنا شروع ہوئیں ۔ان سب قومی ریاستوں کا خصوصی وصف یہ تھا کہ ان میں جوسرمایہ دارطبقات قیادت کے منصب پر فائز تھے، ان کا مفاد اس میں تھا کہ وہ معاشرے کے زیادہ سے زیادہ بڑے حلقے کو اپنا حلیف بنائیں تاکہ مخالف فیوڈل قوتوں کو شکست سے دوچار کرسکیں ۔چنانچہ انہوں نے اپنے پروگرام میں شہریوں کی برابری ،ان کی آزادیوں اور حقوق کے لیے بھی جگہ نکالی۔یہ الگ بات ہے کہ یہ تمام وعدے اور پروگرام محض اپنے حلقۂ اثر کو بڑھانے کے لیے تھے اور کسی بھی ملک میں یہ محروم طبقات کے لیے کسی روشن مستقبل کے پیامبر ثابت نہیں ہوسکے۔اگر ان طبقات نے بعد کی صدیوں میں کچھ بہتر حالاتِ کار حاصل کیے تو یہ انہوںنے کسی عنایت کے نتیجے میں نہیں بلکہ اپنی طویل اور صبر آزما جدوجہد کے وسیلے سے حاصل کیے۔

آج دنیا کے ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں جو شہری آزادیاں اور حقوق کارفرما نظر آتے ہیں یہ حکمراں طبقات کی عنایت نہیں بلکہ لوگوں کی اپنی جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔امریکہ جب آزاد ہوا تو اپنے تمام تر جمہوری اور وفاقی دعووں کے باوجود وہ غلامی کے ادارے کو ختم نہیں کرسکا تھا۔یہاں تک کہ امریکی آزادی کے رہنما اور ریاست ہائے متحدہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن کئی ہزار غلاموں کے مالک تھے۔تھامس جیفرسن جیسا آزادی اور جمہوریت کا علمبردار بھی غلاموں کا مالک تھا۔غلامی کے ادارے سے نجات حاصل کرنے کے لیے امریکی شہریوں نے طویل اور خون آشام جدوجہد کی ۔پھر امریکہ ،برطانیہ اور دوسرے یورپی ملکوں میں جمہوری ریاستیں بننے کے بعد برسہا برس تک بالغ رائے دہی کا نام و نشان نہیں تھا۔

ووٹ دینے کا حق صرف ملکیت یافتہ افراد تک محدود تھا ۔ملک گیر رائے دہندگی تک پہنچنے میںان ملکوں کو صدیوں کی مسافت طے کرنی پڑی ۔عورتوں کے ووٹ کا حق امریکہ او ربرطانیہ جیسی جمہوریتوں میںبھی بیسویں صدی میں پہنچ کر ممکن ہوا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت کسی ایک مقام پر بھی مکمل نہیں ہوتی بلکہ اس کے اندر نشوونما اور ترقی کی ہر وقت گنجائش موجود رہتی ہے اور اس کی یہی خوبی ہے کہ باوجود ہر دور میں سامنے آنے والے چیلنجوں کے ،جمہوریت کو مکمل طور سے تج دینے کا خیال کسی بھی عملیت پسند شخص کے ذہن میں نہیں آتا۔جمہوریت ایک منزل سے زیادہ ایک راستے اور سفر کا نام ہے ۔انسان کی کوشش اس سفر کو خوب سے خوب تر بنانے کی ہی کوشش رہی ہے ۔

نوآبادیات کا سیاسی سفر

سولہویں اور سترہویں صدی میں یورپی ممالک نے اپنی تجارتی سرگرمیوں کو دوسرے براعظموں تک پھیلانے کے عمل میں دنیا کے دور دراز خطوں میں نوآبادیات قائم کیں۔فرانس،ہالینڈ ،پرتگال اور برطانیہ نو آبادیات کے قیام کی اس دوڑ میں پیش پیش تھے اور ایک دوسرے سے مقابلہ آراء بھی تھے۔مختلف استعماری طاقتوں نے اپنے زیر اثر نوآبادیات میں مختلف نظام اختیار کیے ۔ ایسا کرتے وقت ان کے پیش نظر اپنے مفادات کا زیادہ سے زیادہ حصول تھا۔برطانیہ کا نوآبادیاتی نظام اس لحاظ سے قابل ِذکر ہے کہ برطانیہ نے اپنے زیر تسلط علاقوں میں ایسا نظام وضع کیا جس میں اس کے مفادات کا تحفظ کہیں زیادہ بہتر طور پر ہوسکتا تھا ۔

ہندوستان پر برطانیہ کے قبضے اور اس کو برقرار رکھنے کی حکمت عملی بہت سوچ بچار کے نتیجے میں بنائی گئی تھی۔یہ ایک طرف فوج کشی اور جبر کی اور دوسری طرف ایک سیاسی دائرۂ عمل فراہم کرنے کی حکمت عملی تھی۔ برطانیہ نے ہندوستان پر ایک تدریج کے ساتھ قبضہ کیاتھا ۔اس کی قبضہ گیری کا آغاز 1757ء میں بنگال پر قبضے سے شروع ہوکر 1857ء میں دہلی کے لال قلعے پر قبضے پر مکمل ہوا ۔ان سو برسوں کی عسکری مہم میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے خود ہندوستانیوں کو بڑی تعداد میں اپنی فوج میں شامل کیا یہاں تک کہ 1857ء میں دہلی پر قبضے کے وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کی اکثریت ہندوستانیوں پر مشتمل تھی۔

تاج برطانیہ کے زیر تسلط آنے کے بعد ہندوستان میں استعمار کی حکمت عملی اور بھی زیادہ ہوشیاری اور حکمت کی بنیاد پر بنائی گئی۔ ہندوستان پر جس وقت انگریز کا قبضہ ہوا اس وقت یہاں کی آبادی پینتیس کروڑ تھی جبکہ انگریز سرکاری عملہ چھہ ہزار کے قریب افراد پر مشتمل تھا۔ہندوستان کا رقبہ بھی برطانیہ سے کئی گنا زیادہ تھا۔اتنا وسیع و عریض علاقہ جو برعظیم کی حیثیت رکھتا تھا اور اتنی بڑی آبادی پر تسلط قائم کرنے کے لیے ایک بہت دور رس حکمت عملی اختیار کی گئی۔اس حکمت عملی کے دو بنیادی پہلو تھے ۔پہلا پہلو سیاسی تھا، جس کی بنیاد سندھ کے چیف کمشنر سر بارٹل فریئر کی طرف سے اپنی حکومت کو پیش کردہ تجویز پر رکھی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ اگر ہمیں اتنی بڑی آبادی کو کنٹرول میں رکھنا ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے،وہ یہ کہ ہندوستانیوں کو ہم اپنے نظمِ حکمرانی کا حصہ بنائیں، پالیسیاں ہماری ہوں اور ان پر عملدرآمد مقامی لوگ کروائیں۔اس غرض سے لوکل کائونسلوں کی سطح سے ہندوستانیوں کی شمولیت کا آغاز کیا گیا۔رفتہ رفتہ یہ نظام ضلعوں اور پھر مزید اوپر جاکر صوبوں تک پہنچا۔ان اداروں میں ہندوستانیوں کو نمائندگی د وطرح سے حاصل ہوتی تھی۔

ابتدا میں نامزدگی کے ساتھ ساتھ انتخاب کا نظام بھی متعارف ہوا۔برطانوی پارلیمنٹ سے ہندوستان کے لیے مختلف ایکٹ پاس ہوتے رہے اور ہندوستان کی آبادی میں نمائندہ ادارے استعماری کنٹرول کا کارآمد ذریعہ بنتے چلے گئے۔ ہندوستانیوں کو ان اداروں میں جو نمائندگی حاصل ہوئی اس کے ذریعے انہوں نے بھی اپنے طبقاتی اور گروہی مفاد حاصل کیے ۔یہ نمائندہ ادارے ہندوستان کو جمہوریت سے ہمکنار کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ ایک بہت بڑی آبادی پر مشتمل اور ایک بہت بڑے علاقے پر پھیلی ہوئی نوآبادی پر کنٹرول کو یقینی بنانے کے لیے قائم کیے گئے تھے۔

انگریز کی حکمت عملی کا دوسرا پہلو اقتصادی اور سماجی دائرے سے متعلق تھا۔استعمار بنیادی طور پر اقتصادی لوٹ کھسوٹ اور مفتوحہ علاقے کے استحصال ہی کا نظام ہوتا ہے ۔لیکن یہاں بھی انگریز نے جہاں اپنی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا وہیںہندوستان کی زرعی معیشت میں اہم تبدیلیاں متعارف کیں، سڑکوں کا جال بچھا کر اور نہری پانی کو دوردراز علاقوں تک لے جاکر زرعی معیشت میں نوعی تبدیلیاں پیدا کیں۔اس کے ساتھ ساتھ زمینداروں کا ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جو انگریزی اقتدار کا مرہونِ منت تھا ۔انگریزی حکمت عملی کا یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ ہندوستان میں جو زرعی اشرافیہ انگریز کی پالیسیوں کے نتیجے میں وجود میں آئی وہی اشرافیہ نمائندہ اداروں میں نمائندگی کے منصب پر بھی فائز ہوتی رہی۔جن علاقوں میں صنعتکار اور بینکار یا دوسرے مالیاتی اداروں سے متعلق اشرافیہ کا ظہور ہوا وہاں کے نمائندہ اداروں میں ،انہی کو زیادہ جگہ ملی۔

امریکہ ،برطانیہ اور دوسرے یورپی ملکوں میں جمہوری ریاستیں بننے کے بعد برسہا برس تک بالغ رائے دہی کا نام و نشان نہیں تھا۔ووٹ دینے کا حق صرف ملکیت یافتہ افراد تک محدود تھا۔ ملک گیر رائے دہندگی تک پہنچنے میںان ملکوں کو صدیوں کی مسافت طے کرنی پڑی ۔عورتوں کے ووٹ کا حق امریکہ او ربرطانیہ جیسی جمہوریتوں میںبھی بیسویں صدی میں پہنچ کر ممکن ہوا

نمائندگی اور سماجی بالادست طبقات کی پرداخت کا یہ نظام استعماری ریاست کے بنیادی اداروں ،فوج اور بیوروکریسی کے سہارے کام کرتا تھا ۔نظم حکمرانی کا یہی نظام آزادی کے بعد ہمیں ورثے میں ملا اور اسی کے حوالے سے ہمارے سیاسی سفر کا آغاز ہوا ۔ہندوستان میں کانگریس جو ایک منظم جماعت تھی،وہ بیوروکریسی آزادی کے بعدایک دوسرے کی حلیف بن کر ریاست سازی کے کام میں مشغول ہوئیں چنانچہ ایک مرکزیت پسندانہ نظام مرتب ہوا جس کو افسر شاہی کی اعانت حاصل تھی جبکہ اس کو روبہ کار لانے اور ایک سیاسی نظام کی شکل میں آگے بڑھانے کا کام آئین اور منتخب حکومتوں کے ذریعے کیا گیا۔

پاکستان میں جمہوریت کا مشکل سفر

پاکستان میں مسلم لیگ اپنی شدید تنظیمی کمزوریوں کے نتیجے میں آزادی کے بعد جبکہ قائداعظم بھی آزادی کے صرف ایک سال بعد انتقال پاچکے تھے، تتر بتر ہوگئی۔پاکستان میں اقتدار اابتدا ہی میں مکمل طور پر سول اور عسکری افسر شاہی کے ہاتھوں میں آگیا اور ریاست سازی کا کام بھی انہی ہاتھوں سے ہوا۔جلد ہی اس افسر شاہی کو امریکہ کی پشت پناہی بھی حاصل ہوگئی۔ چنانچہ ایک طرف افسروں کی جمہوریت سے مخاصمت تھی اور دوسری طرف امریکہ کو یہ خدشہ تھا کہ جمہوری آزادیوں کی موجودگی میں اورنچلے طبقات کے سیاسی عمل پر اثر انداز ہونے کی صورت میں پاکستان کا تشخص اور کردار ایسا بن جائے گا جو اُس کے سامراجی مقاصد کے حصول میں مزاحم ہوگا۔چنانچہ ملکی اقتدار پر قابض اداروں کے تصورات اور امریکی مفادات کی ہم آہنگی نے پاکستان میں جمہوریت کی راہیں مسدود کرنے میں دیر نہیں لگائی ۔

پاکستان کی 73سال کی سیاسی تاریخ جمہوری جدوجہد کے اتار چڑھائو کی تاریخ ہے ۔ایک طرف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریاستی اقتدار ایسے اداروں کے ہاتھوں میں مستحکم ہوچکا جو سیاست اور جمہوریت کو یا تو یکسر کچھ جگہ دینے پر تیار نہیں ہیں یا اگر انہوں نے ان کو جگہ دی بھی ہے تو صرف ایک محدود دائرے کے اندر۔ آزادی کے بعد سے اب تک چار مرتبہ فوجی حکومتیں قائم ہوچکی ہیں جن کی کل مدت تقریباً تینتیس سال بنتی ہے ۔ان برسوں میں پاکستان کئی دساتیر کا تجربہ کرچکا ہے ۔آخری دستور جو 1973ء میں بنا وہ بھی اپنے نفاذ کے بعد دو مرتبہ تعطل کا شکار ہوچکا ہے۔آزادی کے پچیس سال کے اندر اندر ملک کا آدھا حصہ جو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بھی تھا ملک سے الگ ہوگیا ۔1973ء کے آئین کے حوالے سے امید تھی کہ اب یہ جمہوری استحکام کی راہیں کھولے گا مگر خود یہ آئین طالع آزمائی کی زد میں رہا ۔فوجی حکومتوں میں آئین میں ترامیم کی جاتی رہیں۔آٹھارویں ترمیم (جنرل ضیاء کے دور میں )اور سترہویں ترمیم (جنرل مشرف کے زمانے میں) نے آئین کے پارلیمانی تشخص کو ختم کیا۔آئینی ادارے فوجی حکمرانی میں کس طرح ساقط ہوتے رہے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے مجموعی طور پر 19سال میں کائونسل آف کامن انٹرسٹس کا ایک آدھ اجلاس ہوا جبکہ یہ آئین کا ایک کلیدی ادارہ ہے۔

پاکستان میں جمہوری سفر میں کئی بڑی رکاوٹیں آئی ہیں ۔1954ء میں گورنر جنرل کی طرف سے آئین ساز اسمبلی کا توڑا جانا ،1958ء میں آئین کی منسوخی اور مارشل لاء کا نفاذ،1969ء میں عوامی ابھار کو دبانے کے لیے ایک اور مارشل لاء کا نفاذ اور 1970ء کے انتخابی نتائج کو رد کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا راستہ ہموار کرنا اور پھر 1973ء کے دستور کے تعطل کے اقدامات ،یہ ایسے فیصلہ کن اقدامات تھے جن کے نتیجے میں ملک میںجمہوریت کی راہیں مسدود ہوئیں اور اگر اس نے سنبھلنے کی کوشش کی ،تو ایک مرتبہ پھر اس کے آگے نئے بند باندھنے کی مشق شروع کردی گئی

پاکستان میں جمہوری سفر میں کئی بڑی رکاوٹیں آئی ہیں۔ 1954ء میں گورنر جنرل کی طرف سے آئین ساز اسمبلی کا توڑا جانا، 1958ء میں آئین کی منسوخی اور مارشل لاء کا نفاذ،1969ء میں عوامی ابھار کو دبانے کے لیے ایک اور مارشل لاء کا نفاذ اور 1970ء کے انتخابی نتائج کو رد کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا راستہ ہموار کرنا اور پھر 1973ء کے دستور کے تعطل کے اقدامات ،یہ ایسے فیصلہ کن اقدامات تھے جن کے نتیجے میں ملک میںجمہوریت کی راہیں مسدود ہوئیں اور اگر اس نے سنبھلنے کی کوشش کی ،تو ایک مرتبہ پھر اس کے آگے نئے بند باندھنے کی مشق شروع کردی گئی۔

اس دوران پاکستان کے سیاسی کلچر میں کئی بڑی تبدیلیاں واقع ہوچکی ہیں۔رفتہ رفتہ ہماری سیاست سے نظریاتی پہلو معدوم ہوتے چلے گئے ہیں اور اب بڑی سیاسی جماعتیں کسی نظریے اور ہمہ گیر پروگرام کی پہچان نہیں رکھتیں بلکہ یہ چند شخصیتوں کا تھیٹر بن کر رہ گئی ہیںجس میں عام لوگوں کے لیے کوئی دلچسپی کا پہلو نہیں پایا جاتا ۔پھر 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات نے سیاسی جماعتوں کی اہمیت کو کم اور نو دولتیوں کے سیاسی عمل میں داخل ہوجانے کی راہیں کھول دیں۔یہیں سے ہماری سیاست میں’ منتخب ہوجانے کے لائق‘ (Electables) کی اصطلاح داخل ہوئی۔یہ اپنے حلقے میں اپنے پیسے،اپنے اثرو رسوخ اور کسی ایک یا دوسری یا ایک سے زیادہ برادریوں سے اپنی نسبت کے حوالے سے لائق ِانتخاب قرار پاتے ہیں۔جن کے پاس انتخابات میں خرچ کرنے کے لیے رقم کم پڑتی ہے اُن کے لیے ایسے قرض فراہم کرنے والے مافیا نما لوگ دستیاب ہوتے ہیںجو انتخاب کے بعد بڑے سود کے ساتھ اپنی رقم واپس لے لیتے ہیں۔

بعض الیکٹیبلز دوسروں سے زیادہ ہوشیار ثابت ہوتے ہیں۔وہ انتخاب سے پہلے کسی جماعت میںشمولیت اختیار نہیں کرتے بلکہ انتخاب کے بعد سیاسی جماعتوں سے اور خاص طور سے اُن سے جو اکثریت بنانے کے قریب ہوں ،اپنی قیمت چکاتے ہیں۔یہ الیکٹیبلز اب سیاسی جماعتوں کی ضرورت بن چکے ہیں ۔پہلے سیاسی جماعتوں میں کارکنوں،لیڈروں اور کیڈر پر انحصار ہوتا تھا ،اب الیکٹیبلز کا دور دورہ ہے۔سیاست میں عام لوگوں کی شمولیت (recruitment)تقریباً ختم ہوچکی ہے ۔ جماعتوں میں انتخابات کا نہ ہونا ،عہدوں پر نامزدگیاں، مالیاتی امور میں شفافیت کا فقدان ،یہ اور ایسی ہی کمزوریاں سیاسی جماعتوں کو کسی ارفع مقصد کے لیے عازم ِ سفر ہونے سے روکتی ہیں۔اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایسی جماعتوں سے عہدہ برآ ہونا چنداں مشکل نہیں۔

اکیسویں صدی میں جمہوریت کو لاحق اندیشے

بیسویں صدی کے آخری ربع میں عالمی حالات میں کئی قدری تبدیلیاں واقع ہوئیں ۔1980ء کے عشرے میں برطانیہ میں قدامت پسند کنزرویٹو پارٹی کی مارگریٹ تھیچر اور امریکہ میں وہاں کی قدامت پسند ریپبلکن پارٹی کے رونالڈ ریگن برسر اقتدار تھے۔ان دونوں نے وہ پالیسیاں اختیار کیں جو تھیچرازم اور ریگنامکس کہلاتی ہیں۔ان کے نتیجے میں اس وقت تک کے ان ملکوں کے سماجی ،فلاحی اقدامات پر خط تنسیخ کھینچ دیا گیا اور بڑے سرمایہ دار اور کارپوریٹ سیکٹر کے مفادات کو توسیع دینے کا پروجیکٹ شروع ہوا ۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ اقدامات دوسرے یورپی ملکوں تک پھیلنے شروع ہوگئے ۔پھر ان کے زیر اثر برطانیہ کی لیبر پارٹی اور امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی بھی اپنے روایتی فلاحی پروگرام سے پیچھے ہٹنا شروع ہوگئیں ۔ 1980ء کے عشرے کے اواخر اور 1990ء کے عشرے کے اوائل میں سوویت یونین اور اس کے زیر اثر ملکوں میں اشتراکی ماڈل کی تحلیل کے نتیجے میں یورپ اور امریکہ میں سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی فتح مندی کا اعلان کیا۔آئندہ برسوں میں سرمایہ دارانہ گلوبلائزیشن کے زیر اثر دنیا بھر میں کھلی مارکیٹ کی معیشت کو فروغ حاصل ہوا۔جدید مواصلاتی ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک بڑے گائوں کی شکل دے دی ،قومی ریاستوں کی سرحدیں کمزور ہوئیں اور صارفانہ معیشت دنیا کے سب ملکوں میں عام ہوتی چلی گئی۔

حال ہی میں امریکہ میں ایک سیاہ فام کو پولیس کے سپاہی نے اُس کی گردن پر اپنے گھٹنوں سے دبائو ڈال کر کر جس بے دردی سے مارا، اور اس کے رد عمل میں امریکہ میں جو کثیر النسلی احتجاجی مظاہرے ہوئے، وہ اسی امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ انسانی ضمیر کو سلا دینا کسی کے بس میں نہیں۔سو جمہوریت کے بند ہوتے راستے پھر کھلیں گے اور اس کے اندر نئی توانائی اور نیا خون بھی داخل ہوگا

اس ماحول میں سرمایہ دار طبقے اور کارپوریٹ سیکٹر کا سیاست میں عمل دخل ماضی سے کہیں زیادہ بڑھ گیا۔تب عوام کی سطح پر اس رجحان کو فروغ دیا گیا کہ معاشی خوشحالی ہر چیز پر مقدم ہے ۔سیاسی عمل ،بنیادی حقوق ،شہری آزادیاں،آزاد صحافت اور وہ سب چیزیں جو جمہوریت کے ذریعے حاصل ہوتی تھیں اُن کی جگہ معاشی خوشحالی کے واحد مقصد نے لے لی۔چنانچہ چند ہی برسوں میں دنیا کے مختلف ملکوں میں اُس سیاست کو فروغ حاصل ہوا جو کارپوریٹ سیکٹر کے مقاصد سے زیادہ ہم آہنگ تھی اور اس سلسلے میں کیونکہ دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں زیادہ کارآمد تھیں، لہٰذا بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اب تک کے دو عشروں میں کم و بیش دنیا کی سب جمہوریتوں میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اپنے ملکوں کی کرتا دھرتا بن چکی ہیں۔

دائیں بازو کی سیاست وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جارحیت کی طرف بھی مائل ہورہی ہے ۔امریکہ میں نسل پرست اور خواتین کے حقوق کے مخالف ڈونلڈٹرمپ برسر اقتدار ہیں اور ہندوستان میں انتہا پسند ہندو نریندر مودی دہلی کی راج دھانی پر قابض ہے۔ٹرمپ اور مودی دونوں نے اپنا ایک وسیع حلقۂ اثر بھی بنالیا ہے جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان ملکوں کی رائے عامہ کو کس حد تک متعصب بنایا جاچکا ہے اور انتہا پسندی کا زہر کس حد تک معاشرے میں سرایت کروادیا گیا ہے ۔

کم وبیش دنیا کی سب ہی کمزور یا طاقتور جمہوریتیں اس وقت دائیں بازو کے مقبول یا غیر مقبول رہنمائوں کے زیراثر ہیں ،اس سب کا نتیجہ حقیقی جمہوری آزادیوں کی نفی میں نکل رہا ہے ۔اس کا ایک اور بدقسمت پہلو یہ ہے کہ جمہوری آزادیوں سے بے بہرہ اور معیشت زدہ افراد کی بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے جو آزادیوں سے زیادہ نوکریوں ،علم سے زیادہ ڈگریوں اور سماجی اصلاح سے زیادہ سماج میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کے جویا ہیں۔

لیکن کیا جمہوریت کا سفر تاریخی طور پر اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے ؟ یقیناً نہیں۔اس لیے کہ تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ہر دور میں قوتوں کا تصادم ،نظریات کا تقابل او ر مفادات کا ٹکرائو ہوتا ہے ۔یونہی تاریخ آگے بھی بڑھتی ہے ۔اس وقت دنیا کی آبادی کی اکثریت غربت کا شکار ہے ۔محنت کش، مزدور، دہقان، خواتین کی اکثریت ،بیمار اور لاچار افراد،غرض دنیا کے اکثریتی لوگ بے آواز ہیں، ان کو دیوار سے لگایا جاچکا ہے لیکن انسان کبھی بھی اپنی بے بسی اور مجبوری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قبول نہیں کرتا ۔سو لوگ اٹھیں گے اور آواز بھی اٹھائیں گے۔

ان کی یکجائی بھی ہوگی اور تنظیمیں بھی بنیں گی ۔ہوسکتا ہے کہ اس کا اسلوب ماضی سے مختلف ہو لیکن انسان سیاسی عمل سے الگ نہیں رہ سکتا ۔ابھی کل ہی کی بات ہے امریکہ میں ایک سیاہ فام کو پولیس کے سپاہی نے اُس کی گردن پر اپنے گھُٹنے گھونپ کر جس بے دردی سے مارا، اور اس کے رد عمل میں امریکہ میں جو کثیر النسلی احتجاجی مظاہرے ہوئے ،وہ اسی امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ انسانی ضمیر کو سلا دینا کسی کے بس میں نہیں۔سو جمہوریت کے بند ہوتے راستے پھر کھلیں گے اور اس کے اندر نئی توانائی اور نیا خون بھی داخل ہوگا۔

آئینی بادشاہتوں کے حامل ممالک

دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جو صدیوں پر پھیلے ہوئے سیاسی عمل کے نتیجے میں بادشاہت سے جمہوریت کی طرف آچکے ہیں ۔انہوں نے مختلف النوع جمہوری نظام اختیار کرلیے ہیں مگر انہوں نے ماضی سے اپنا تعلق قائم رکھنے کی خاطر بادشاہت کو علامتی طور پر برقرار رکھا ہے۔ ان ملکوں میں بادشاہ کو مملکت کی وحدت کی علامت بھی قرار دیا جاتا ہے ۔بادشاہ یا شاہی خاندان کے افراد کو کوئی آئینی اور سرکاری اختیارات حاصل نہیں ہوتے مگر وہ سرکاری تقریبات میں مہمانِ خصوصی بنتے ہیں ،غیر ملکی عمائدین کو خوش آمدید کہتے ہیں ،دوسرے ملکوں کے سفیروں کی اسنادِ سفارت وصول کرتے ہیں،اور قومی دنوں کے موقع پر عوام سے خطاب کرتے ہیں۔

برطانیہ کی ملکہ ہر سال نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا (ہائوس آف لارڈز) میں تشریف لاتی ہیں اور پارلیمنٹ کے سب ارکان سے خطاب کرتی ہیں ۔وہ ایوانِ زیریں (ہائوس آف کامنز) میں نہیں جاتیں کیونکہ وہ منتخب ایوان ہے جس میں غیر منتخب سربراہِ مملکت کے داخل ہونے کو بھی پارلیمنٹ کے مقام اور وقار کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ملکہ کے خطاب کے وقت ایوانِ زیریں کے ارکان،وزیر اعظم سمیت اپنے ایوان سے نکل کر ایوانِ بالا میں جاتے اور ملکہ کا خطاب وہاںجاکر سنتے ہیں۔دنیا کے وہ ممالک جن میں آئینی بادشاہت قائم ہے اُن میں آسٹریلیا،بیلجیئم، کینیڈا، ڈنمارک، جاپان، لکسمبرگ، ملائیشیا، مناکو، ہالینڈ، نیوزی لینڈ،ناروے،اسپین،سویڈن اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔

بھارت: دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ،ہندو انتہا پسندی کی زد میں

ہندوستان کی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ 2018ء کے اعداد وشمار کے مطابق ہندوستان کی آبادی ایک ارب 35کروڑ ہے ۔چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ ہے۔مگر کیونکہ وہاں انتخابات نہیں ہوتے لہٰذا ہندوستان کو سب سے بڑا جمہوری ملک کہا جاتا ہے ۔ہندوستان میں صرف ووٹروں کی تعداد83کروڑ ہے ۔گذشتہ انتخابات کے موقع پر دس لاکھ پولنگ اسٹیشن بنائے گئے۔جو چیز ہندوستان کو دنیا میں سرخرو کرتی رہی ہے وہ وہاں کے آئینی نظام کا تسلسل ہے ۔ 1950ء میں بننے والا آئین ایک دن کے لیے بھی کالعدم نہیں ہوا۔کبھی فوج نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا،انتخابات ہر پانچ سال بعد ہوجاتے ہیںاور اگر اسمبلی وقت سے پہلے ٹوٹ جائے جیسا کہ پارلیمانی نظاموں میں ہوسکتا ہے، تو ایک طے شدہ وقت میں الیکشن ہوجاتا ہے ۔آئین شدید مرکزیت کا حامل ہے،صوبائی خودمختاری محدود ہے ۔بیسیوں مرتبہ صوبوں میں گورنر راج نافذ ہوا ہے لیکن سیاسی عمل بہر طور جاری رہتا ہے ۔

ہندوستان کی اچھی بری جمہوریت کو اب شدید خطرات لاحق ہیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) جمہوری راستے ہی سے اقتدار میں آئی ہے مگر اپنے انتہا پسند ہندوتوا کے پروگرام کے سبب اس نے ہندوستان میں تقسیم در تقسیم اورمذہبی منافرت کا جو عمل شروع کیا ہے ،اُس سے ہندوستانی جمہوریت کوشدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔بی جے پی بڑی حد تک ایک فاشسٹ جماعت بن چکی ہے ۔بی جے پی اس پوزیشن میں کس طرح آئی ،اس کے کئی اسباب ہیں۔ہندوستان کی لبرل کانگریسی حکومتیں برسہا برس اقتدار میں رہنے کے باوجود غربت کا خاتمہ نہیں کرسکیں ۔ان حکومتوں نے سیکولرازم کا نعرہ لگایا مگر بارہا موقع پرستی کا مظاہرہ کیا ۔ایک اور وجہ ہندوستان کے بائیں بازو کا غیر موثر ہوجانا بھی تھا ۔بائیں بازو اور لبرل سیاسی قوتوں کی کمزوری کا فائدہ بی جے پی نے ایک بھرپور مہم کے ذریعے اٹھایا ۔اس نے تا ٔ ثر قائم کیا کہ وہ نتائج دینے والی جماعت ہے ۔پھر پرائیویٹائزیشن اور لبرل اقتصادی پالیسیوں کے نتیجے میں اس نے کارپوریٹ سیکٹر کو اپنا ہمنوا بنالیا۔

دوسری طرف گلوبلائزیشن کے زیر اثر پھیلنے والے عالمی سرمائے کے ساتھ مقامی سرمائے کو ہم آہنگ کرنے کی جس پالیسی کا کانگریس کی آخری حکومتوں نے آغاز کیا تھا ،بی جے پی کی حکومت نے پہلے اپنے زیر اثر صوبوں میں اور پھر مرکز کے اقتدار میں آکر ،اس پالیسی کو کہیں زیادہ سرگرمی کے ساتھ آگے بڑھایا ۔

چنانچہ نیو لبرل عالمی معاشی رجحانات اور ہندوتوا کے سماجی و سیاسی پروگرام کی یکجائی سے بی جے پی ہندوستانی سیاست کے مرکزی دھارے کی سب سے بڑی قوت بن گئی۔مگر اس کی شدت پسند ی اور فاشسٹ اطوار مستقبل میں ہندوستانی جمہوریت کے لیے بہت بڑا چیلنج ثابت ہوں گے ۔