خون کا عطیہ انسانی زندگی بچاسکتا ہے

September 17, 2020

کہتے ہیں کہ کسی کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے اور ایک انسان کی زندگی بچانا دراصل پوری انسانیت کو بچانے جیسا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں جب بھی آفات و حادثات میںزخمیوںکی تعداد بڑھتی ہے تو انہیںخون عطیہ کرنے والوں کی تعداد ان سے بھی کہیںزیادہ ہوتی ہے۔ انسانی ہمدردی کی معراج بھی یہی ہے کہ آپ ایسی چیز عطیہ کرکے دوسروں کی زندگی بچانے میںمدد کریں جو خود بھی آ پ کیلئے بہت قیمتی ہے۔

بلڈٹرانسفیوژن کے ادارے، مختلف تعلیمی اداروں، محلوں اور کمپنیوں میں جب خون کا عطیہ لینے جاتے ہیں تو نوجوان بڑی تعداد میںاس مہم میںحصہ لیتے ہیں اور انسانیت کو اپنے خون کا تحفہ دیتے ہیں۔ تھیلیسیمیا ‬میجر ‬کی بیماری میں مبتلا مریضوں کو سب سے زیادہ خون کے عطیات کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک ایسا مرض ہے جس میں ہر ماہ خون تبدیل کروانا پڑتا ہے۔

میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ ہر انسان کے اندر تقریباً ایک لیٹر یا 2سے 3بوتلیں اضافی خون ہوتاہےاور ماہرین صحت کے مطابق ہر تندرست انسان کو سال میںکم سے کم دوبار خو ن عطیہ کرنا چاہئے۔ اس سے صحت پر منفی کے بجائے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیںکیونکہ دیے جانے والے خون کی کمی تین دن کے اندر پوری ہوجاتی ہے اور56دن کے اندر خون کے100فیصد خلیے دوبارہ تیار ہو جاتے ہیں اور خون کے یہ خلیے پرانے خلیوں کی نسبت زیادہ صحتمند ہوتے ہیں۔ نیا خون بننے کے عمل سے قوت مدافعت بڑھتی ہے، موٹاپے میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم ہو جاتاہے اور کولیسٹرو ل بھی قابو میں رہتا ہے۔

خون کون دے سکتاہے ؟

خون ہر کوئی نہیں دے سکتا، لازمی امر ہے کہ آپ کسی بھی انسان کو صحت مند خون ہی فراہم کریں گے ناں کہ بیماری سے متاثرہ۔ اسی لیے انتقالِ خون سے قبل مختلف بیماریوں جیسے ہیپا ٹائٹس یا ایڈز وغیر ہ کی جانچ کی جاتی ہے۔ درج ذیل صورتوں میں آپ خون دینے کے اہل ہیں:

٭ آپ تمام تر اچھی صحت کے حامل ہوں

٭ آپ کی کم سے کم عمر 17 اور زیاد ہ سے زیادہ 50سال ہو (خواتین کی عمر کم سے کم 18 سال ہو)

٭ آپ کا وزن کم سے کم 110 پائونڈ ہو

٭ آپ نے پچھلے 56 دن سے خون نہ دیا ہو

ہمارے ملک کے مقابلے میں دیگر ممالک میںخون کا عطیہ دینے والوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں صرف ایک سے دو فیصد افراد باقاعدگی سے خون عطیہ کرتے ہیں یا پھر حادثات کی صور ت میںخون دینے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ عطیہ کردہ خون کی7جدید مشینوںپر ٹیسٹنگ کی جاتی ہے، جس میں ہیپاٹائٹس بی اور سی، ملیریا، آتشک (Syphilis) اور ایڈز کےٹیسٹ شامل ہیں۔ تشخیص کے بعد بلڈ گروپ اور ہیموگلوبن کے ساتھ بلڈ گروپ کی مکمل رپورٹ ڈونر کو فراہم کرد ی جاتی ہے۔ جس کا فائدہ ڈونر کو یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ ٹیسٹ کسی بھی معیاری لیب سے کروائے جائیں تو ان پر ہزاروں روپے کا خرچہ ہوتاہے جبکہ خون دینے کی صورت میں یہ رپورٹس بلامعاوضہ حاصل ہوجاتی ہیں۔

خون عطیہ کرنے کے فوائد

مذکورہ بالا فوائد کے علاوہ خون دینے کے اور بھی فائدے ہیں ،جیسا کہ :

٭ ایک عام انسان کے جسم میں 5 گرام آئرن ہونا ضروری ہوتاہے، جس میںسے بیشتر مقدار خون کے سرخ خلیوں میںہوتی ہے ، خون عطیہ کرنے سے یہ مقدار کم ہوتی ہے تو دوبارہ خون سے یہ مقدار پوری ہو جاتی ہے اور یہ تبدیلی صحت کیلئے فائدہ مند ہے۔

٭ ماہرین طب کے مطابق خون دینے سے دورانِ خون کا نظام بہتر ہونے میں مدد ملتی ہے۔ خون بلاک ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے جبکہ ہارٹ اٹیک کا خدشہ بھی 80 فیصد تک کم ہو سکتا ہے۔

٭ ایک تحقیق کے مطابق باقاعدگی سے خون عطیہ کرنے والوں کو مختلف امراض کا کم سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کی اوسط عمر میں 4سال تک کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

انتقالِ خون کی تاریخ

سترھویں صدی کے وسط یعنی جون 1667ء میں سرجری کی تاریخ میں ایک فرانسیسی ڈاکٹر جان باپٹسٹ ڈینس نے پہلی بار انتقالِ خون کا کارنامہ سر انجام دے کر طب کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا کیونکہ کسی بھی حادثے کی صورت میں خون زیادہ بہہ جانے کے سبب بہت سے لو گ اس جہان فانی سے کوچ کر جاتے تھے۔ ڈاکٹر ڈینس نے سب سے پہلے ایک بکری کے بچے کا خون انسان کو منتقل کیا اس کے بعد انسانوں میںانتقال خون کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس وقت تک خون کے گروپس یعنی اے، بی اور ان کے مثبت و منفی ہونے کا بھی پتہ نہ تھا لیکن علمِ طب کی ترقی سے رفتہ رفتہ ان سب عوامل کا انکشاف ہوتا چلا گیا۔ 1930ء میں ماسکو میں موجود فوسوکی انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس نےانتقالِ خون کے حوالے سے ایک انوکھا تجربہ کیا۔

انہوں نے ایک حادثہ میں میںمرنے والے ایک ساٹھ سالہ شخص کا خون 12 گھنٹے کے اندر نکال کر ایک ایسے نوجوان میں منتقل کیا جس نے اپنی دونوںکلائیاں کاٹ کر خودکشی کا ارتکاب کیا تھا۔ اس کے بعد خون موبائل وین کے ذریعے اسپتالوںمیں پہنچایا جانے لگا۔ 1939ء میں انگلینڈ کے ڈاکٹر فلپ نے خون میں اینٹی باڈی کے موروثی طور پر منتقل ہونے کے عمل کو دریافت کیا۔1940ء میں ڈاکٹر ایڈون کوہن نے خون کے مختلف حصوں مثلاً پلازمااور سرخ خلیوں کو الگ کرنے اور انہیںمحفوظ کرنے کا عمل دریافت کیا۔

1941ء میں ہلالِ احمر ( ریڈ کراس ) نے بلڈ بینک قائم کیا۔ 1943ء میں ڈاکٹر پال بی سن نے دریافت کیا کہ خون کی منتقلی کے ساتھ اس میںموجود بیماریاں جیسے کہ ہیپاٹائٹس اور ایڈز وغیرہ بھی منتقل ہو جاتی ہیں۔ 1948ء میںڈاکٹر والٹر نے خون کی منتقلی کیلئے بوتلوں کی جگہ پلاسٹک کی تھیلیوںکا استعمال شروع کیا۔