شوکت علی کی خاموشی

October 03, 2020

سُر گلوکار کے لیے سانس کی طرح ہوتا ہے۔ وہ سُر کے تناظر میں سوچتا ہے، بولتا ہے، حتیٰ کہ کائنات کی ہر شے کو سُر کے حوالے سے پرکھتا ہے۔ یہ عجیب سا روحانی بندھن ہے جو فنکار کو اپنے حصار میں لئے رکھتا ہے۔ اپنے سُر سے فضا میں ارتعاش پیدا کرنے والے، دلوں کو سرشاری عطا کرنے والے، روحوں کو مابعد الطبیعاتی دنیا کی سیر کرانے والے، وجود کو تن من کی اکائی پر رقص پہ اکسانے والے گلوکار کا دل محبت سے بھرا ہوتا ہے، اسی لیے اس کی آواز میں جادوئی تاثیر ہوتی ہے۔ وہ سننے والوں کی سماعتوں کو جکڑ لیتا ہے، دلوں کو شاد کرتا ہے اور روحوں کو آباد کرتا ہے۔ گزشتہ دنوں موسیقی کے بے تاج بادشاہ شوکت علی سے ان کے گھر میں ملاقات ہوئی، ان کو دیکھنا بھی باعث سعادت محسوس ہوتا ہے کیونکہ ان سے ملاقات ہمیشہ خوشگوار اور حیرت انگیز ہوتی ہے۔

اپنائیت اور محبت کا مرکب شوکت علی جب آپ کا مہمان ہو تب بھی حلیمی کا پیکر ہوتا ہے اور جب آپ اس کے مہمان بنیں تو پھر اس کا خلوص قابل بیان نہیں۔ صرف بیس سال کی عمر میں اپنی آواز کے جادو سے دنیا کو نہ صرف حیران کیا بلکہ بہت بڑا ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ مٹی اور دھرتی کے کلچر سے محبت ان کے وجود کے انگ انگ میں سرایت کئے ہوئے ہے۔ وہ فوک کا بادشاہ ہے۔ کلاسیکل، نیم کلاسیکل، غزل اور گیت میں منفرد پہچان کا حامل ہے مگر صوفیانہ کلام کی گائیکی اس کا بڑا حوالہ ہے۔ اس کی آواز کی گھن گرج قومی ترانوں اور فوک گیتوں کو نئے رنگ عطا کرتی ہے۔ صوفیانہ کلام کی برکت نے اسے محبتوں کا مرکز بنا رکھا ہے۔ اپنی ذات کی نفی اور دوسروں کی عزت اس کا منشور ہے۔ موسیقی کے سفر کی طویل ریاضت نے اس کے تن من کو صیقل کر دیا ہے۔ وہ لیجنڈ گلوکار نہیں لِونگ صوفی ہے، محبت کا پیامبر ہے۔اس کی آنکھوں میں امن، انسانیت، محبت اور زندگی کی شمع فروزاں ہے۔

گزشتہ کئی سالوں سے بیماری اسے گھیرے ہوئے ہے لیکن وہ ہر بار اسے چکمہ دے کر زندگی کی طرف نکل آتا ہے۔پہلے دل کا عارضہ تھا اب جگر بھی شامل ہو گیا ہے۔ وہ بیمار ہے مگر مایوس نہیں۔ اس کے چہرے پر زندگی کی رمق ہے، آنکھوں میں جینے کی خواہش ہے اور ہارمونیم بجاتے ہاتھوں میں کام کرنے کی تمنا ہے۔ گزشتہ دنوں پِلاک کی طرف سے ہم انہیں ملنے گئے تو ان کے چہرے پر کوئی حیرانی، پشیمانی اور ویرانی نہیں تھی۔اک ذرا سا پچھتاوے کا عکس نہ تھا۔ لمحہ لمحہ اذیتوں کو سہنے والا فنکار اتنا مطمئن اور شاداب صرف روحانی قوت کے باعث ہی ہو سکتا ہے۔ ان کے بیٹے ان کے بازو بھی ہیں، ان کی چھتری بھی، ان کے دوست بھی اور ان کے خدمت گار بھی۔ چند منٹوں کی روایتی گفتگو کے بعد شوکت علی نے اصرار کر کے ہارمونیم منگوایا۔ ان کی کانپتی انگلیوں نے بٹن پر ہاتھ رکھا تو وہ دھڑکنے لگا، دونوں طرف تار بجنے لگے۔ساز کی معاونت نے آواز کو تھپتھپایا، سہارا دے کر کھڑا کیا اور پھر کمرے میں میاں محمد بخشؒ کا وہ کلام گونجنے لگا جس میں دنیا کی رمز پوشیدہ تھی۔ ایک عظیم گائیک اپنے در سے ہماری سماعتوں کی جھولی بھر کر بھیجنا چاہتا تھا۔ دورانِ گفتگو صحت کی خرابی کا رونا رویا نہ شکایت کی بلکہ محکمہ اطلاعات و ثقافت پنجاب کی بھرپور تعریف کی۔ کلچر کی ترویج کے لئے کام کرنے والے اداروں کو اپنی دعاؤں سے نوازا۔

ہمہ وقت ملک کے لیے دعا کرتے رہے۔ وزیراعظم پاکستان کے ساتھ فنڈ ریزنگ کے لئے انگلینڈ، فرانس اور دیگر ملکوں کے سفر کو یاد کر کے خوش ہوتے رہے کہ انہیں خدمت خلق کے کاموں میں کچھ حصہ ڈالنے کی توفیق نصیب ہوئی۔ کچھ لوگ اتنے منفرد اور بے مثال ہوتے ہیں کہ پوری دنیا میں ان کا ثانی نہیں ہوتا۔ شوکت علی بھی ایسا ہی فنکار ہے۔ انہوں نے گائیکی کے ذریعے ایسے لوگوں تک صوفیاء کا پیغام پہنچایا ہے جو لِکھ پڑھ نہیں سکتے لیکن سن کر اپنے دلوں میں روحانیت کا چراغ جلا سکتے ہیں۔ پاکستانی قوم ان کے گائے ہوئے ایک ترانے کا ہدیہ ادا کرنے کی متحمل نہیں ہے۔ شوکت علی کی کوئی طلب بھی نہیں ہے۔ وہ ایک پرسکون اور مطمئن روح ہے لیکن ہمیں اس نفرتوں کی طرف بڑھتے معاشرے کے لئے شوکت علی کی آواز کی ضرورت ہے۔ اگرچہ سُر سے ان کا ہر لمحے کاساتھ ہے مگر بہت عرصے سے انھوں نے شوز نہیں کئے اور جب وہ بھرپور گاتے تھے تب بھی آج کے گلوکاروں کی طرح لاکھوں میں معاوضہ نہیں لیتے تھے۔ان کے مکمل علاج اور مالی معاونت کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے دست بستہ درخواست ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)