سیاسی گرما گرمی اور قومی مفادات

October 18, 2020

حزب اختلاف کے گیارہ جماعتی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے گزشتہ روز گوجرانولہ میں جلسہ عام منعقد کرکے حکومت کے خلاف اپنی تحریک کا آغاز کردیا ہے جو یقینا ملک کی سیاسی صورت حال میں ایک بڑی تبدیلی ہے۔موجودہ حکومت کے دو برسوں میں مہنگائی اور بے روزگاری کا عفریت جس بری طرح بے قابو ہوا ہے، معاشی ابتری پر قابوپانے کی تمام کوششیں عملاً جس درجہ بے نتیجہ دکھائی دیتی ہیں ، مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کی من مانیوں کو روکنے کی کوئی مؤثر حکمت عملی تشکیل دینے میں جیسی کھلی ناکامی رہی ہے، احتسابی عمل میں غیرجانبداری اور شفافیت کا جو فقدان دیکھا جارہا ہے، یہ وہ عوامل ہیں جنہوں نے اپوزیشن کو حکومت کے خلاف تحریک شروع کرنے کا جواز فراہم کردیا ہے۔ گوجرانوالہ کے جلسے میں اپوزیشن رہنماؤں نے ان ہی حوالوں سے ناکام اور نااہل قرار دیتے ہوئے حکومت کورخصت کیے جانے کی ضرورت کا اظہار کیا ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ جمہوریت کو چوراہے پر کھڑا کرکے ذبح کردینے والوں کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی صورت میں تمام جمہوریت پسند قوتیں آج سے تحریک کا آغاز کررہی ہیں اور اِن شاء اللہ موجودہ حکمراں آنے والا دسمبر نہیں دیکھیں گے۔انہوں نے وضاحت کی کہ فوج سے لڑائی نہیں، لیکن اگر آئین کو پامال کیا جائے اور انتخابات کنٹرول کرائے جائیں تو پھر کلمہ حق بلند کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔میاں نواز شریف نے آن لائن خطاب میں کہا آج پاکستان میں عوام کے گھروں کے چولہے بجھ چکے ہیں، بے روزگاری عام ہے، گیس اور بجلی کے بل ادا کرنا لوگوں کے بس میں نہیں رہا حتیٰ کہ ادویات بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں۔ سابق وزیر اعظم نے خود پر غداری کے الزام سے متعلق کہا کہ یہ پہلی بار نہیں ہورہا ۔ آمروں نے عوامی رہنماؤں پر ہمیشہ یہ الزام لگایا ہے کیونکہ وہ آئین و قانون کی بات کرتے ہیں۔ ان کا سوال تھا کہ پھر محب وطن کون ہیں؟ وہ جنہوں نے آئین کو تباہ کیا یا وہ جنہوں نے ملک کو دو ٹکروں میں تقسیم کردیا۔ چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ آج ملک میں تاریخی مہنگائی ہے، عمران خان کلبھوشن کے وکیل بن گئے ہیں، جمہوریت کی بحالی کیلئے اپوزیشن متحد ہوگئی ہے۔ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے عوام سے اپیل کی کہ تیار رہو حکومت کو گھر بھیجنا ہے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی ،سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور راجہ پرویز اشرف نے بھی جلسے سے خطاب کیا۔ حکومت کے خاتمے کے مطالبے پر مبنی اس تحریک کے آغاز پر وزیر اعظم نے اپنی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اپنے ساتھیوں کو اطمینان دلایا ہے کہ بے روزگار اور نیب زدہ اپوزیشن سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں، موجودہ مہنگائی اور بے روزگاری کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں، یہ روز جلسے کریں کوئی فرق نہیں پڑتا۔یہ جلد ہی تھک جائیں گے اور ہم مہنگائی اور دیگر مسائل پر قابو پالیں گے۔ فی الحقیقت جمہوری روایات کا تقاضا تو یہی ہے کہ حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو آئینی حدود میں اظہار رائے کی مکمل آزادی فراہم کرے اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دے۔جبکہ اپوزیشن کو بھی آئین کی خلاف ورزی اور تشدد کی ہر شکل سے دور رہنا چاہیے۔ دونوں جانب سے اس کا اہتمام ہو تو سیاسی گرماگرمی کے باوجود درجہ حرارت اتنا نہیں بڑھے گا کہ معاشی و سماجی صورت حال کنٹرول میں نہ رہے اور قومی مفادات کو محفوظ نہ رکھا جاسکے۔ لیکن اگر حکومت نے آئین اور قانون کے برعکس آزادی اظہار پر پابندیاں عائد کیں ، غیرقانونی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کیا اور اس کی بنا ء پر اپوزیشن کی صفوں میں جنم لینے والااشتعال تشدد کی شکل میں ظاہر ہوا تو ملک کے مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا لہٰذا حب الوطنی کا لازمی تقاضا ہے کہ دونوں جانب سے آئین و قانون کیخلاف کوئی قدم نہ اٹھایا جائے۔