باادب بانصیب، بے ادب بے نصیب

November 01, 2020

انسانی وجود کو دُنیا میں لانے والی عظیم ہستی ماں ہے، جو اپنے شکم میں نو ماہ تک ایک ننّھی سی جان کو بہت احتیاط سے پالتی اور دُنیا کے سرد و گرم سے بچا کر رکھتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق انسانی جسم عمومی طور پر پینتالیس ڈیلٹا یونٹ کا درد برداشت کرسکتا ہے، مگر ایک ماں زچگی کے وقت ستاون ڈیلٹا یونٹ کا درد برداشت کرتی ہے،جو قریباً بیس ہڈیوں کے ایک ساتھ ٹوٹ جانے کے برابر ہے۔ پھرجب بچّہ جنم لیتا ہے، تو کیسے اس کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خیال رکھتی ہے۔ اس کا بول و براز خوشی خوشی اپنے ہاتھوں سے صاف کرتی ہے۔

اپنا خونِ جگر دودھ کی صُورت پلا کر چلنے پھرنے کے قابل بناتی ہے۔ اور جسمانی، ذہنی نشوونما اور اخلاقی تربیت کرنے میں تو اپنی زندگی ہی لگا دیتی ہیں۔ سو دُکھ جھیلتی ہے، ہزار مشقّتیں اُٹھاتی ہے، تب کہیں جا کر ایک بچّہ شعور کے منازل طے کرپاتا ہے۔تب ہی تو اللہ پاک نے جنّت اس کے قدموں تلے رکھ دی۔ اولاد پر ہرحال میں والدین اور خاص طورپر ماں کا احترام واجب ہے، لیکن افسوس وہی اولاد ذرا ہوش سنبھالنے پر اسی ماں سے تلخ، روکھے لہجے میں بات کرتی ہے۔

اسے غصہ دکھاتی ہے اور انتہائی رنج کا مقام ہے کہ کبھی اپنا ہاتھ تک اُٹھا لیتی ہے۔ ایسی اولاد کی بدبختی میں کیا شک ہو سکتا ہے، سوائے اس کے کہ وہ تہہ دِل سے ندامت میں ڈوب کر ماں سے بھی معافی مانگے اور ربّ سے بھی۔ اللہ کے پیارے نبی ﷺنے فرمایا،’’اللہ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی حرام کر دی ہے۔‘‘اسلام نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی بہت تاکید کی ہے۔

قرآن میں والدین کے آگے اپنے بازو بچھا دینے، اپنی نظریں نیچی اور لہجہ نرم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ والدین ہماری جنّت ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی بڑھاپے میں پا کر ان کی خدمت کرنے پر مغفرت کی نوید ہے۔نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ’’انسان کو اس کے گناہوں کی سزا آخرت میں ملے گی، لیکن والدین کی نافرمانی اور ان سے ناروا سلوک کی سزا دُنیا میں بھی ملے گی۔‘‘

ہمارا معاشرہ دن بدن انحطاط کا شکار ہورہا ہے، اخلاقی قدریں پامال ہیں۔بڑوں کا ادب، بزرگوں کی تعظیم کی روایت ختم ہوتی جارہی ہے اور اس کے نتیجے میں زندگی سے سُکون، چین اور خوشی بھی غائب ہوتی گئی ہے۔ گھروں میں ہر طرح کی نعمتیں موجود ہیں، لیکن خوشی، مسّرت اور محبّت میسّر نہیں کہ نصیب بھی ادب سے کُھلتے ہیں۔

یہ بات گِرہ سے باندھ لیں کہ اخلاق کا زوال، تباہی کا آغاز ہے۔ اپنے بڑوں کی عزّت کریں، والدین سے خصوصی اکرام کا رویّہ رکھیں۔اُن کے کھانے پینے، جسمانی صحت،ادویہ غرض کہ ہر چھوٹی بڑی ضرورت کا خاص خیال رکھیں۔ والدین کی عزّتِ نفس مجروح نہ ہونے دیں۔ اختلاف کی صُورت میں بھی ادب آداب کا خیال رکھیں۔ اللہ کے نبیﷺ نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہما اجمعین کو کافر اور مشرک ماں باپ سے بھی حُسنِ سلوک کی تعلیم دی۔

حضرت ابراہیمؑ کے باپ آذر نےحضرت ابراہیمؑ کی توحید کی دعوت قبول نہیں کی اور انہیں آگ میں ڈالنے کے فیصلے میں شریک رہے، پھر بھی حضرت ابراہیمؑ نے انہیں ابّی یعنی ’’میرے پیارے باپ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے باپ کی مغفرت کی بھی دُعا کی،جس کی ممانعت ہوگئی۔ تو یاد رکھیں کہ اگر آج ہم اپنے والدین سے بُلند آواز میں بات کریں گے، تو کل ہمارے بچّے بھی ہمارے ساتھ یہی کریں گے۔ گھر ٹھیک، تو معاشرہ ٹھیک۔ با ادب ہی با نصیب ہوتا ہے۔والدین کی دُعائیں ہی خوش قسمتی کے دروازے وا کرتی، بخت جگاتی ہیں،لہٰذا ماں باپ کی عزّت کریں اور اپنا بخت سنواریں۔