یورپی مسلمان خطرے میں … !

October 30, 2020

ڈیٹ لائن لندن _… آصف ڈار
فرانس کے صدر امینیول میکخواں اگر ایک فرانسیسی استاد کے سر قلم کرنے کے واقعے کو اسلام کی بجائے دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے اور سارا الزام اسلام پر لگا کر اسے خدانخواستہ سارے بحران کا ذمہ دار قرار نہ دیتے تو پھر آج گرجا گھر میں مزید حملے کا واقعہ پیش نہ آتا جس میں کئی معصوم جانیں چلی گئیں۔ ظاہر ہے کہ فرانس میں شدت پسند عناصر کی جانب سے کیے جانے والے دونوں حملوں کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہےمگر ان حملوں کو چند افراد کی بجائے سارے اسلام کے ساتھ نتھی کرنا اور ان مسلمانوں کی دل آزاری کرنا جو امن پسند اور صلح جو ہیں کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے۔ دوسری جانب اگر مسلمان ممالک، مسلمان دانشوروں اور رہنمائوں نے سنجیدگی کے ساتھ توہین رسالتؐ کے معاملات کو مغربی ممالک کے ساتھ اٹھایا ہوتا تو آج چند نوجوانوں کوقانون اپنے ہاتھوں میں لینے اور جہادی سرگرمیوں میں شرکت کی جرات نہ ہوتی ۔چونکہ ان نوجوانوں کو گائیڈ ہی ہیں کیا گیا،یہ جانتے ہی نہیں کہ اگر کوئی اسلام کی توہین کرتا ہے تو اس کے ساتھ کس انداز سے نمٹا جاتا ہے۔ انہیں یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ چاقو، تلوار یا بندوق اٹھا کر بغیر کسی فتویٰ کے جہاد کرنے کی کوشش کرنا دوسرے مسلمانوں کے لئے کس قدر نقصان دہ ہوسکتا ہے؟ اس سے ساری دنیا میں اسلام جیسے پرامن اور بہترین دین کا امیج متاثر ہوتا ہے، اس کے ماننے والوں کی بدنامی ہوتی ہے اس سے ساری امہ دکھی ہوتی ہے کیونکہ اسلام کسی کا بھی ناحق خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی کسی کو تن تنہا جہاد کی اجازت دیتا ہے۔ اسلام میں جہاد کا اعلان کرنے کا اختیار صرف حاکم وقت کے پاس ہے اس کے لئے بھی فتویٰ حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اب فرانس میں دو افراد نے دو حملے کرکے سارے مسلمانوں کو ایک بار پھر دفاعی پوزیشن میں لاکھڑا کیا ہے۔ صدر میکخواں کے اسلام کے بارے میں بیان پر جو یورپی اور غیر مسلم ممالک و لیڈر ناخوش تھے اب وہ ایک بار پھر سوچیں گے اور ہوسکتا ہے کہ وہ بھی سیکخواں کے بیان کا ساتھ دینے لگیں۔ یہ صرف اس لئے ہورہا ہے کہ مسلمان لیڈروں کی جانب سے اپنے نوجوانوں کو درست طور پر گائیڈ ہی نہیں کیا جارہا یا پھر یورپ میں بعض ایسے مسلم لیڈر بھی پیدا ہوگئے ہیں جو انتہا پسندی کے راستے پر نہ صرف چل رہے ہیں بلکہ بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو مزید گمراہ کرنے کی سازشیں بھی کررہے ہیں۔ اگرچہ فرانسیسی صدر کا ردعمل انتہائی قابل مذمت تھا اور انہوں نے نریندر مودی کا بیانیہ ہی اپنایا، مگر یورپ کا کوئی اور لیڈر اس طرح کا ردعمل دے ہی نہیں سکتا۔ تاہم اس واقعہ کا مسلم دنیا میں کیا اثر ہوا؟ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب مسلم امہ کی ترجمانی کرنے کے دعوے کرنے والے ممالک کو ہی دینا ہوگا ۔ اس واقعہ کے بعد چاہئے تو یہ تھا کہ فوری طور پر او آئی سی کا اجلاس بلاکر صدر میخواں کے بیان کی مذمت کی جاتی اور تمام مسلمان ممالک انہیں معافی مانگنے پر مجبور کرتے مگر کئی روز گزرنے کے بعدمحض ایک ڈھیلا سا بیان جاری کیاگیا اور اکتوبر کی طرح اپنی آنکھیں بند کرلی گئیں۔ ان حالات میں پاکستان نے ایک مرتبہ پھر آگے بڑھ کر نہ صرف فرانسیسی سفیر کو طلب کرکے احتجاجی مراسلہ تھمایا بلکہ مسلم امہ (نام نہاد) سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ متحد ہوکر فرانسیسی صدر اور یورپ کے دوسرے سربراہوں کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ مسلمانوں پر الزامات لگانے کی بجائے توہین رسالتؐ کے خلاف قانون سازی کریں۔ جبکہ ترکی نےایک بار پھر مسلمانوں کی قیادت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے نہ صرف میکخواں کو للکارا بلکہ فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں دیا بھر کے مسلمان عرب ممالک کی بجائے قیادت کے لئے ترکی، پاکستان اور ایران کی طرف دیکھیں گے۔ مسلم لیڈروں کو ان معاملات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا ہوگا وگر نہ مغرب میں رہنے والے کروڑوں مسلمانوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیبوں کے درمیان تصادم کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔