ملک میں اعلیٰ تعلیم کا شعبہ

November 01, 2020

تعلیم کو کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی کا ضامن تصور کیا جاتا ہے۔ تعلیم اور انسانیت کا تعلق اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ انسانی تاریخ۔ رفتہ رفتہ انسان مختلف علوم میں ترقی کرتا رہا اور آج کی دنیا سائنسی علوم کی بدولت چاند اور مریخ پر پہنچ چکی ہے۔

پاکستان نے جب اپنے سفر کا آغاز کیا تو اس وقت پورے ملک میں صرف ایک ہی یونیورسٹی تھی، جسے ہم جامعہ پنجاب کے نام سے جانتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں 217 یونیورسٹیاں اور اعلیٰ تعلیم ادارے ہیں، جن کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ان میں سے 134سرکاری یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے ہیں جبکہ باقی نجی شعبے نے قائم کیے ہیں۔

1947ء سے لےکر 2002ء تک پاکستانی یونیورسٹیوں کی جانب سے 3ہزار پی ایچ ڈی ڈگریاں جاری کی گئیں۔ حالیہ برسوں میں پی ایچ ڈی ڈگریوں کے اجراء میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن 2001ء میں قائم ہوا ، 2014ء میں سب سے زیادہ ایک ہزار368طلبا کو پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دی گئیں۔

پاکستانی یونیورسٹیز اور اعلیٰ تعلیمی ادارے بشریات، زراعت، خلائی سائنس، فشریز، سمندری حیات، کمپیوٹر سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، بزنس اینڈ مینجمنٹ، انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، ویٹرنری سائنسز، نفسیات پر ادارہ جاتی اور تحقیقی پروگرام متعارف کرواتے ہیں۔

پاکستان کی پہلی ورچوئل یونیورسٹی مکمل طور پر جدید انفارمیشن اور ٹیکنالوجی سے لیس یونیورسٹی ہے، جو اکیڈمک پروگرامز کے ساتھ سیٹیلائٹ اور انٹرنیٹ ٹی وی بھی استعمال کر رہی ہے۔ اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کو بھی مت بھولیں جہاں پر اعلیٰ ٹیکنالوجی کی تحقیق اور کاروباری تنظیم کاری کا بہترین ماحول تمام تر سہولیات کے ساتھ فراہم کیا جاتا ہے۔

اس وقت پاکستان کی سرکاری و نجی یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں 40ہزار سے زائد اساتذہ تعلیمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، جن میں 10ہزار کے قریب پی ایچ ڈی ہیں یعنی یہ پاکستانی یونیورسٹیوں کے تدریسی عملے کا 25فیصد بنتے ہیں۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام کے بعد پاکستان میں طلبا اور اساتذہ دونوں کو ہی ملکی اور غیرملکی اسکالرشپس مل رہی ہیں۔ امریکا اور برطانیہ میں دنیا کی معروف یونیورسٹیاں قائم ہیں، اسی لیے ایچ ای سی کے تحت وہاں کے لیے بھی اسکالر شپس دی جاتی ہیں۔

اگرچہ گزرتے ماہ و سال میں پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی شعبے کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری اور پی ایچ ڈی اسکالرز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے سبب حیرت انگیز ترقی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کے باوجود سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان کے حقیقی مسائل حل کرنے کے لیے محققین اور سائنسدانوں کو مناسب ماحول اور وسائل دستیاب ہیں؟

دیگر سوالات نئے علوم، محققین کی تعداد بڑھانے، تحقیقی لیبارٹریز اور تھنک ٹینکس کی تعداد کے علاوہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں نمایاں کامیابیوں سے متعلق ہیں۔ یہ ساری بحث اس بڑے سوال کے گرد گھومتی ہے کہ کیا پاکستان کی یونیورسٹیاں ملک کی سماجی و معاشی منظر کو تبدیل کرنے کا مرکز ثابت ہورہی ہیں؟ ہمارے اساتذہ عموماً یونیورسٹیوں میں وسائل کی فراہمی کے ساتھ تحقیق کی ضرورت پر زور دیتے رہتے ہیں۔

یونیورسٹیوں کی کارکردگی اور تحقیق کا جائزہ لینے کے لیے مختلف معیارات قائم کیے گئےہیں۔ تھوڑی سی تبدیلی کے بعد ان معیارات کو قومی تعلیمی ادارے مثلاً ایچ ای سی اور بین الاقوامی ادارے مثلاً کیو ایس ورلڈ یونیورسٹیز رینکنگ اور ورلڈ یونیورسٹیز رینکنگ ٹائم ہائرایجوکیشن استعمال کررہی ہیں۔ پاکستان میں بین الاقوامی پس منظر کے ساتھ طلبا اور اساتذہ کو یہی تعلیمی، تدریسی، تحقیقی ماحول اور اس کے اثرات،بشمول مختلف جائزوں کے ساتھ فراہم کیے جارہے ہیں۔

کارکردگی کے معیارات

پاکستانی یونیورسٹیوں میں تقریباً تمام شعبہ ہائے علوم میں تحقیقی مراکز قائم کیے جاچکے ہیں۔ یونیورسٹیوں کی کارکردگی جانچنے کا عمل بہت پیچیدہ اور کسی ایک معیار پر پر منحصر نہیں ہے۔ ہر یونیورسٹی مختلف ہے، جس کی کارکردگی اس کے مشن اور نقطۂ نظر کے مطابق جانچی جاتی ہے۔ کسی یونیورسٹی کی کارکردگی جانچنے کیلئے تحقیقی کتاب کی اشاعت اور دیگر عناصر مثلاً پوسٹ گریجویٹ طلبا کی تعداد، پروگرامز، طلبا کو دیئے گئے تحقیقی کاموں کی نوعیت، ملازمین اور بین الاقوامی شراکتی اداروں سے تعاون بھی شامل ہیں۔

یونیورسٹیوں کی کارکردگی اور نتائج کو جانچنے کے لیے فیکلٹی کے تحقیقی مقالے بہترین ذریعہ ہوتے ہیں۔ یہ بات اہم نہیں ہے کہ یونیورسٹی نے کتنے تحقیقی مقالے پیش کیے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ کتنے تحقیقی مقالوں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا۔ تحقیقی نتائج کا انحصار انڈر گریجویٹ ، ایم فل یا پی ایچ ڈی کرنے والے طلبا کی صلاحیتوں پر ہے۔ اس کے علاوہ، یونیورسٹی کی طرف سے جاری کیے گئے پیٹنٹ بھی کارکردگی جاننے کیلئے بہترین ذریعہ ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی پر وہ توجہ دی جائے، جس کی فی زمانہ ضرورت ہے۔ تحقیق کے لیے درکار فنڈز بھی مہیا کیے جائیں تاکہ اس پر کام کی رفتار برقرار رہے۔ اس وقت اعلیٰ تعلیم کو معیاری بنانے کے لیے نہایت سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں، یونیورسٹیوں کو پاک چائنا اقتصادی راہداری کے پس منظر میں بھی طویل المدت منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

یونیورسٹیوں کو پانی کی کمی اور توانائی کے بحران پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ پاکستان کو نینو ٹیکنالوجی اور بائیوٹیکنالوجی کے شعبوں میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی یونیورسٹیوں میں تحقیق کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہےتاکہ پاکستانی صنعت کے شعبے کو درپیش مسائل کو حل کیا جاسکے اور معلوماتی معاشرے (Information Society)کو علمی معاشرے (Knowledge Society)میں بدلا جاسکے۔ یونیورسٹیوں میں اختراعات اور کاروباری ماحول کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے۔