کیا ایسے شخص کو سیکولر قرار دینا جائز ہے؟

May 05, 2013

میں پاکستانیات کا ایک ادنیٰ علم طالب ہوں۔ میرے مبلغ علم کا یہ حال ہے کہ جس ورق پر بھی نگاہ پڑتی ہے، اس میں میرے لئے نئی معلومات اور نئی باتیں ہوتی ہیں جس سے اپنی علمی کم مائیگی کا احساس اور بھی شدید ہو جاتا ہے۔ پروفیسر احمد سعید میرے کلاس فیلو اور دوست ہیں۔ انہوں نے قائداعظم اور تحریک پاکستان پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔ بلاارادہ آج ان کی کتاب ”گفتار قائداعظم“ کھولی تو جی چاہا کہ آپ کو بھی اپنے تجسس میں شریک کر لوں۔ یہ کتاب قائداعظم کی تقاریر،بیانات کا مجموعہ ہے جنہیں مختلف اخبارات سے لیا گیاہے۔ ایسے ہی کتاب کھولی تو میرے سامنے صفحہ نمبر 254 کھل گیا جس پر قائداعظم کے بیان کے یہ الفاظ درج تھے اور یہ بیان قرار داد پاکستان کی منظوری کے نو ماہ بعد کا ہے۔ ملاحظہ فرمایئے ”مسلم اقلیت والے صوبوں کے مسلمانوں کو اپنی تقدیر کا مقابلہ کرنا چاہئے لیکن مسلم اکثریت والے صوبوں کو آزادی دلانی چاہئے، تاکہ وہ اسلامی شریعت کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں“۔ (روزنامہ انقلاب 31 دسمبر 1940ء)
اول تو یہ بات ذہن میں رکھیں کہ تحریک پاکستان کے دوران ایثار اور اسلامی اخوت کا جذبہ عروج پر تھا اور مسلم اقلیتی صوبے مسلمان اکثریتی صوبوں کے لئے بار بار ایثار کا اعلان کرتے تھے۔ اس حوالے سے مسلمان اقلیتی صوبوں کے نمائندوں کے بیانات تاریخ کا حصہ ہیں اور ہاں یہ بھی غور کیجئے کہ قائداعظم دسمبر 1940ء میں جب بھی پاکستان کا تصور محض ایک خواب تھا اس مطالبے کا جواز یہ دے رہے ہیں ”تاکہ وہ اسلامی شریعت کے مطابق زندگی گزار سکیں“۔ احمد سعید کی کتاب کے صفحہ نمبر 261 نے مجھے مزید حیران کر دیا۔ نواب بہادر یار جنگ کی موجودگی میں طلبہ اور نوجوانوں سے گفتگو کرتے ہوئے قائداعظم نے وضاحت کی ”میں جب انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سنتا ہوں تو میرا ذہن خدا اور بندے کی باہمی نسبتوں اور رابطوں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ میں نہ کوئی مولوی ہوں نہ ملا اور نہ مجھے دینیات میں مہارت کا دعویٰ ہے۔ البتہ میں نے قرآن مجید اور اسلامی قوانین کے مطالعہ کی اپنے تئیں کوششیں کی ہیں۔ اس عظیم الشان کتاب میں اسلامی زندگی سے متعلق ہدایات کے باب میں زندگی کا روحانی پہلو، معاشرت، سیاست، معیشت، غرض انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآن مجید کی تعلیمات کے احاطہ سے باہر ہو۔ قرآن کی اصولی ہدایات اور سیاسی طریق کار نہ صرف مسلمانوں کے لئے بہترین ہیں بلکہ اسلامی سلطنت میں غیر مسلموں کے لئے بھی سلوک اور آئینی حقوق کا اس سے بہتر تصور ممکن نہیں۔ (رہبر دکن 19 اگست 1941ء)
اس گفتگو کے دوران قائداعظم نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے وضاحت کی ”اسلامی حکومت کے تصور کا یہ بنیادی امتیاز پیش نظر رہے کہ اطاعت اور وفا کشی کا مرجع خدا کی ذات ہے اس لئے تعمیل کا مرکز قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ قرآن کے ا حکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرتے ہیں، آپ جس نوعیت کی بھی حکمرانی چاہتے ہو اس کے لئے بہرحال سلطنت اور علاقہ کی ضرورت ہے“۔
ان الفاظ پر غور کیجئے اور قرار داد مقاصد کو یاد کیجئے۔ پہلا فقرہ ہی وہ ہے جو قائداعظم نے 1941ء میں بولا تھا۔ پھر یاد کیجئے قرارداد مقاصد کے حوالے سے وزیراعظم لیاقت علی خان کی تقریر جس میں انہوں نے کہا کہ یہ قرارداد قائداعظم کی سوچ کی ترجمانی کرتی ہے۔ یاد رہے لیاقت علی خان نے اپنی جوانی قائداعظم کی قیادت میں تحریک پاکستان کی نذر کر دی تھی اور ان سے زیادہ کوئی قائداعظم کو نہیں سمجھتا تھا۔ آخری فقرہ وہ ہے جو علامہ اقبال نے 28 مئی 1937ء کو اپنے خط میں قائداعظم کو لکھا تھا (بحوالہ خطوط اقبال بنام جناح)
قیام پاکستان سے چھ برس قبل کے یہ چند فقرے پڑھیے اور دل سے پوچھئے کہ کیا ایسے آدمی کو سیکولر کہا جا سکتاہے جو مستقبل کے پاکستان میں شریعت کی علمداری کی بات کر رہا ہے۔ قرآن حکیم پر گہری نظر رکھتا ہے اور قرآن حکیم کو قوانین، معاشرت ، معیشت اور سیاست کا ماخذ اور تابع قرار دے رہا ہے۔ کیا ایسے شخص کو سیکولر قرار دینا اور اس کے تصور پاکستان پر سیکولر کا بہتان لگانا تاریخ کی نفی اور خود قائداعظم سے زیادتی نہیں؟ اگر سیکولرازم کے ماڈرن مفہوم یعنی مذہب اور ریاست و سیاست کو الگ الگ بھی سمجھ لیا جائے تو قائداعظم اس معیار پر پورے نہیں اترتے کیونکہ وہ ہر مسلمان کی مانند اسلام کو مکمل ضابطہ حیات سمجھتے تھے اور ”معاشرت، سیاست، معیشت غرض کہ انسانی زندگی کے ہر شعبہ کو قرآنی تعلیمات کے تابع قرار دیتے تھے“۔ میں اپنے موقف کی حمایت میں قائداعظم کے ہزاروں الفاظ ”کوٹ“ کر سکتا ہوں لیکن مقصد آپ کو فقط جھلک دکھانا ہے۔ قائداعظم کی تقاریر و بیانات پڑھیے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے قیام پاکستان سے قبل 101 بار اور قیام پاکستان کے بعد چودہ بار کہا کہ پاکستان کے ا ٓئینی ڈھانچے کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔
پاکستان کو جس طرح کا ملک بننا تھا، وہ بن چکا، اس لئے قائداعظم کا تصور پاکستان محض نصابی باتیں اور علمی مباحث ہیں، نہ قوم بانی پاکستان کے تصور کو عملی جامہ پہنانے میں سنجیدہ ہے اورنہ وہ ایسی جماعتوں یا گروہوں کی حمایت کرتی ہے جو قائداعظم کے پاکستان کو ان کے خواب کے مطابق اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست بنانے میں مخلص ہیں۔ امریکی سروے کے مطابق 84 فیصد پاکستانی ملک میں شریعت کے نفاذ کے حق میں ہیں لیکن وہ اس سیاسی جماعتوں اور قائدین کو ووٹ نہیں دیتے جو اسلامی شریعت کے علمبردار ہیں۔ گویا ہمارا معاشرہ ایک منافقت اور تضاد کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے اور اس کی ذہنی بلوغت اور فکری پختگی ابھی اس قابل نہیں کہ اسے اس بھنور سے نکال سکے جہاں وہ اس بھنور اور اپنے مستقبل کی واضح سمت متعین کر سکے۔ میں نہایت خلوص نیت سے لکھ رہا ہوں کہ میرا نہ کوئی ایجنڈا ہے اور نہ ہی مجھے قائداعظم کے سیکولر ہونے سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ میں تو فقط قائداعظم کے نظریات کو اسی طرح پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں، جس طرح انہوں نے خود بیان کئے ہیں اور ان پر لگائے گئے بہتانوں کی نفی اور وضاحت کرتا ہوں تاکہ نوجوان نسلیں ذہنی کنفیوژن کا شکار نہ ہوں۔
تاریخ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ قائداعظم ایک کھرے، سچے اور مخلص انسان تھے، وہ نہ بکتے تھے، نہ جھکتے تھے، ان کا مقصد محض مسلمانوں کو انگریز اور ہندو غلامی سے نجات دلانا تھا۔ انہیں اقتدار سے دلچسپی تھی نہ کوئی ذاتی مفاد اس کے پیش نظر تھا۔ تاریخ یہ فیصلہ بھی دے چکی کہ مسلمانوں کو ایسی بے لوث قیادت شاید ہی کبھی نصیب ہوئی ہو، اسی پس منظر میں محترم مولانا شبیر احمد عثمانی جیسے صاحب نظر ووجدان شخص نے قائداعظم کے انتقال پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ قائداعظم اورنگزیب کے بعد مسلمانوں کے عظیم ترین رہنما تھے۔
اسلامی جمہوری پاکستان سے قائداعظم کی وابستگی کا اندازہ اس سے کیجئے کہ انہوں نے 15 اگست 1947ء کو پاکستان کے پہلے یوم آزادی پر پاکستان کے جھنڈے کی پرچم کشائی مولانا شبیر احمد عثمانی سے کروائی جن کو وہ خاص طور پر اپنے ساتھ لے کر گئے۔ یہ پاکستانی قوم کے لئے ایک واضح پیغام بھی تھا اور اپنے اس ارادے کا اظہار بھی کہ وہ پاکستان کو اسلامی جمہوریت ریاست بنائیں گے۔ اپنے اس وعدے سے وہ اس قدر مخلص اور یکسو تھے کہ انہوں نے اسلامی دنیا کے ایک نامور مفکر علامہ محمد اسد کو بلایا اسے پاکستانی شہریت دی اور ان کی سربراہی میں ایک محکمے کی بنیاد رکھی جس کا نام تھا۔
Department of Islamic Reconstruction
اس ادارے کے قیام کا مقصد پاکستانی ا ٓئین اور قوانین کو اسلامی اصولوں کے مطابق تشکیل دینا تھا۔ علامہ محمد اسد پیدائشی یہودی تھے، ان کا تعلق آسٹریا سے تھا وہ 1926ء میں مسلمان ہو گئے تھے۔ علامہ اسد قرآن، عربی زبان، اسلامی تعلیمات اور فلسفہ پر گہری نظر رکھتے تھے اور علامہ اقبال کے حلقہ ارادت میں شامل تھے۔ قیام پاکستان سے ایک ماہ قبل علامہ محمد اسد نے اپنے رسالے ”عرفات“ میں پاکستان کے آئین، قانون، معاشی نظام اور نصاب تعلیم کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کے حوالے سے طویل مضمون لکھا تھا۔ قائداعظم کی جانب سے ”اسلامک ری کنسٹرکشن“ کے محکمے کے سربراہ مقرر ہونے کے بعد علامہ اسد نے 18 اکتوبر 1948ء کو ریڈیو پاکستان کی نشری تقریر میں واضح کیا تھا کہ اس محکمے کا کام پاکستان کے قانونی ڈھانچے کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہے۔ قائداعظم کے انتقال کے بعد یہ محکمہ فعال نہ رہ سکا۔ اس پر پھر کبھی لکھوں گا۔ فی الحال ان گزارشات پر کھلے ذہن کے ساتھ غور کیجئے اور سوچیے کہ قائداعظم کا تصور پاکستان کا تھا؟ کیا انہیں اور ان کے پاکستان کے سیکولر قرار دینا جائز ہے۔ ایک بار پھر عرض کر رہا ہوں کہ یہ میری ذات کا مسئلہ ہرگز نہیں، یہ مسئلہ ہے قائداعظم محمد علی جناح کے تصورات اور ویژن کو اپنے تاریخی پس منظر میں سمجھنے کا… انصاف کیجئے انصاف!!!