عالمی و قومی منظرنامہ اورصدر آزادکشمیر!

November 01, 2020

تعریف و توصیف کے پھول اور تنقید کے کانٹے سیاست کے گلے کا ہار بنتے رہتے ہیں ،تاہم کبھی کبھی تنقید کا کانٹا حلق میں اٹک جائے تو بہت تنگ کرتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ قسمت مہربان ہو تو '’’سب اچھا ہے‘‘ ہوجاتا ہے۔واضح رہے کہ راقم نے قسمت کہا ہے،اسٹیبلشمنٹ نہیں ! بہرحال آج قومی اسمبلی میں ایاز صادق اور فواد چوہدری کے بیان میں الجھنے کا موڈ نہیں کیونکہ یہ سب معاملہ سیاسی و میڈیا ریٹنگ کے حصول اور زبانوں کے دانستہ و نادانستہ پھیلاؤ کا ہے:

سمجھنے ہی نہیں دیتی سیاست ہم کو سچائی

کبھی چہرہ نہیں ملتا کبھی درپن نہیں ملتا

چونکہ پچھلے کئی روز سے پاک بھارت تعلقات اورکشمیر پر اپنی سوئی اٹکی ہوئی ہے چنانچہ 24 اکتوبر 2020 کو بسلسلہ تقریب یومِ تاسیس آزاد کشمیر وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر سے جامعہ کشمیر مظفرآباد میں جو ملاقات ہوئی‘ پھر دو روز قبل صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان کی لاہور آمد کے موقع پر ملاقات کے دوران ہم پاک بھارت ایشوز پر بڑھتی ہوئی داخلی سیاست کی کشیدگی پر سوچ کے گرداب میں پھنسے رہے۔ علاوہ بریںاس 'فکری بھنورمیں ہیں کہ بھارتی آئین میں کشمیر کو خصوصی اہمیت دینے والی دفعات 370اور35اے کے سبوتاژ کرنے والے مودی کے غیرانسانی و غیرمعیاری اور غیرجمہوری افعال سے کشمیر کے فلش پوائنٹ ہونے کو مزید تقویت ملی ہے جس پر عالمی برادری کو قطعی آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ عالمی طاقتوں کے دانت بھی کھانے کے اور، دکھانے کے اور ہیں۔ پیش منظر میں انسانی حقوق کے دعوے اور پس منظر میں معاشی فوائد کے نعرے ہیں۔ انسان اور انسانیت کے حقوق تو ان دعوئوں اور نعروں کے بیچ میں کہیں گم ہی ہوگئے ہیں۔اقوامِ متحدہ میں ہونے والی ووٹنگ اور جمہوریت اعداد کے بل بوتے پر نہیں، اثرات کے بل بوتے پر چل رہی ہےاور یہ اثرات عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ہیں۔ کیا ہم یہ سمجھیں کہ ہرطرح کی اسٹیبلشمنٹ ضرورت سے زیادہ سیانی ہے یا دینیات و سیاسیات و انسانیت کے مضامین ان کے نصاب کا حصہ ہی نہیں؟ اپنی اس بات پر حلقۂ یاراں میں کچھ لوگ کشت زعفران کو ہوا دیتے ہیں، جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پاک وطن میں ’’جمہوریت گر حسن ہے تو اسٹیبلشمنٹ ریاست کا رومانس!‘‘ بہرحال یہ ضروری ہے کہ دونوں اپنے اپنے مقام اور مرتبہ پر رہیں، اسی سے گلشن کے کاروبار پر شباب ممکن ہے ورنہ سب افسانے۔

لاہور میں ایک خصوصی نشست میں سابق وزیر مملکت چوہدری جعفر اقبال، ڈاکٹر میاں یاسین، ایثار رانا، اکمل سومرو اور ڈاکٹر عبدالباسط کی موجودگی میں جب میں نے خارجہ امور میں بین الاقوامی شہرت کے حامل اور صدر آزادکشمیر مسعود خان سے پوچھا کہ 2002میں مشرقی تیمور کو انڈونیشیا اور 2011 میں جنوبی سوڈان کو سوڈان جیسے مسلم ممالک کو اقوام متحدہ سے احکامات مل سکتے ہیں کہ ریفرنڈم کو عمل میں لایا جائے تو کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ استصواب رائے کا حکم کیوں جاری نہیں کرتی ؟ اقوام متحدہ کب تک کشمیریت کے حوالے سے بغض کی بیماری میں مبتلا رہے گی؟ بقول مسعود خان، وقت وقت کی بات ہے۔ کبھی وقت تھا کہ امریکن لابی محسوس و غیرمحسوس انداز میں پاکستان پر فریفتہ تھی اور آج بھارت کی طرف جھکاؤ ہے تاہم مسعود خان کا یہ کانسیپٹ بہت کلیئر ہے کہ پاکستانی و کشمیری نوجوانوں کو کرنٹ افیئرز و انٹرنیشنل افیئرز کی شاہراہ پر چلتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے، مایوسی والی کوئی بات نہیں اور یہ بھی ضروری ہے کہ نوجوان عہد شباب ہی میں قیادت اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔

صدر کشمیر سے ہم کلام ہوں تو میاں نواز شریف کا مسعود خان کو صدر کشمیر بنانے کا فیصلہ دوراندیشی اور راست اقدام لگتا ہے۔ راقم کا اس بات پر مسعود خان سے اتفاق ہے لیکن پچھلے دنوں وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے طلبہ یونینز کے انتخابی عمل کی بحالی کا جو عندیہ دیا ہے‘ یہ سوچ بھی صدر آزادکشمیر سے ملتی جلتی ہے کہ قیادت کا فہم نوجوانی ہی میں ضروری ہے۔

یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی

جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

اس پر غور فکر کی ضرورت ہے اور اچھا ہوگا کہ آزاد کشمیر حکومت کوئی منظم اور مربوط نظام وضع کرے جس سے نئی نسل میں مثبت مقابلے کی پیش رفت ہو اور مکالمے کے دریچے کھلیں۔ ہم مانیں یا نہ مانیں، ایک قحط الرجال ہے اور ’’ہوم ڈلیوری قیادت‘‘ کے کثرت سے جنم لینے سے جمہوری و سماجی وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے جو گلوبل ویلج اور ڈیجیٹل لائف میں ضروری ہیں۔وزیراعظم عمران خان خود نوجوانوں پر اعتماد کرتے ہیں سو طلبا یونینز کا آغاز ملک بھر میں کیوں نہیں؟

معاملہ قومی یا بین الاقوامی سطح کا ہو جو بات سمجھ میں آتی ہے ،وہ یہی ہے کہ مجموعی طور پر اشرافیہ کی ہوا چلی ہےجیسا کہ کسی ملک میں جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کے سامنے سرنگوں ہے تو کہیں انجینئرڈ ڈیموکریسی۔ غیرجانبدار مکالمے کا گلا نہ گھونٹا جائے اور فکری آزادی کو میرٹ گر ملے تو محسن انسانیت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ سلم کی بےحرمتی کی کسی کو جرات نہ ہو گی۔

پاکستان یا کشمیر اسمبلیوں میں موجود سیاسی عمائدین اور فکری اکابرین کو سنجیدہ ڈپلومیسی اور تحقیق و تعلیم کی بالادستی کی راہ ہموار کرنا ہوگی۔آئینی بالادستی پر چلنا ہی عالمی بالادستی کی ضمانت ہے مگر مطلوبہ منزل کے لئے سیاسی و خارجی و تعلیمی قائدین کو خود احتسابی کو رواج بخشنا ہوگا۔ سوچنا تو پڑے گا کہ ایف اے ٹی ایف میں اپنوں کی بیگانگی کیوں کر تھی؟ داخلی کھوکھلا پن غالب ہے‘ اس لئے ہم خارجی طور پر مغلوب ہیں ۔ ذرا سوچئے کہ زبانوں کا پھسلنا اور سیاسی ریٹنگ کا لالچ کہیں بےتوقیر نہ کردے!