امریکہ میں تبدیلی کا بخار اُتر گیا؟

November 05, 2020

زیر نظر سطور اشاعت کے مراحل سے گزر کر آپ تک پہنچیں گی تو یہ فیصلہ ہوچکا ہوگا کہ امریکہ کے نئے صدر جوبائیڈن ہوں گے یا پھر ڈونلڈ ٹرمپ ہی دوسری مدت کے لئے صدارت کا حلف اُٹھائیں گے۔

منگل اور بدھ کی درمیانی شب جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو پولنگ کا سلسلہ جاری ہے، لوگ ووٹ کاسٹ کر رہے ہیں، پھر گنتی ہوگی جو کئی دن تک جاری رہ سکتی ہے لہٰذا فی الوقت کچھ کہنا قبل از وقت ہے مگر بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جو بائیڈن میدان مار لیں گے اور ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے الفاظ کے ذریعے بوئی ہوئی خاردار فصل کاٹنا پڑے گی۔

اس مرحلے پر جیت اور ہار کی پیش گوئی اس لئے کر رہا ہوں کہ ابتدائی نتائج سے رجحانات کا اندازہ ہوجاتا ہے اور ٹرینڈز بتا رہے ہیں کہ امریکہ میں تبدیلی کا بخار اُتر گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی231 سالہ تاریخ میں 11ویں صدر ہونگے جو دوسری بار صدر منتخب نہیں ہو سکے اور لوگوں نے انہیں مسترد کردیا۔

1789میں امریکی صدر کا عہدہ تخلیق کئے جانے پر جارج واشنگٹن کو پہلا صدر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ جون ایڈمز ان کیساتھ بطور نائب صدر فرائض سرانجام دیتے رہے اور جارج واشنگٹن کے سبکدوش ہونے پر امریکہ کے دوسرے صدر منتخب ہوئے لیکن دوسری مدت کیلئے لوگوں نے انہیں مسترد کردیا تو تھامس جیفرسن تیسرے امریکی صدر منتخب ہوگئے۔ یوں جون ایڈمز دوبارہ انتخاب میں شکست کھانے والے پہلے امریکی صدر بن گئے۔

45میں سے 10صدور کو امریکی ووٹرز نے سیکنڈ ٹرم کے لئےمسترد کیا۔آخری بار ایسا تب ہوا تھا جب1992 میں جارج بش سینئر بل کلنٹن سے شکست کھاگئے۔

میں نے قبل از وقت یہ نتیجہ اخذ کیوں کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہار جائیں گے؟اِس سوال کا جواب جاننے کے لئے امریکی صدارتی الیکشن کے طریقہ کار کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔امریکہ میں ہر شخص ووٹ تو کاسٹ کرتا ہے مگر صدر منتخب ہونے کے لئے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ضروری نہیں ہوتا۔

مثال کے طور پر 2016 کے صدارتی انتخابات میں ہلیری کلنٹن اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں 30لاکھ ووٹ زیادہ لینے کے باوجود ہار گئیں۔اسلئے امریکی نظامِ انتخاب سے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہاں اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسے کتنے ووٹ ملتے ہیں بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ کسے کس علاقے میں زیادہ ووٹ ملتے ہیں۔

امریکہ میں ہر ریاست سے ارکانِ پارلیمنٹ (کانگریس اور سینیٹ کے ارکان) کی تعداد کو سامنے رکھتے ہوئے الیکٹورل ووٹ طے کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کیلی فورنیا میں صدارتی الیکشن کے لئے 55 جبکہ ٹیکساس میں 38 الیکٹورل ووٹ ہیں۔

نیو یارک اور فلوریڈا کو 29,29الیکٹورل ووٹ دیئے گئے ہیں۔پنسلوینیا اور الینوئس کے پاس 20,20الیکٹورل ووٹ ہیں۔نیو ہیمپشائر کے پاس 04جبکہ ریاست الاسکا کے پاس صرف 03الیکٹورل ووٹ ہیں۔جب کوئی امیدوار کسی ریاست میں کاسٹ کئے گئے ووٹوں کا 50.1فیصد ووٹ حاصل کر لیتا ہے تو وہاں کے تمام الیکٹورل ووٹ اسے دے دیئے جاتے ہیں۔

امریکہ کی تمام ریاستوں کے پاس مجموعی طور پر 538الیکٹورل ووٹ ہیں اور جو امیدوار 270الیکٹورل ووٹ لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے، وہ صدر منتخب ہو جاتا ہے۔

بیشتر ریاستوں میں تو پارٹی پوزیشن بہت واضح ہوتی ہے کہ یہاں ری پبلکن پارٹی کی مقبولیت ہے یا پھر ڈیمو کریٹس کا راج ہے مگر بعض ریاستیں جو کسی ایک جماعت کے ہاتھ کی چھڑی یا جیب کی گھڑی نہیں ہوتیں، انہیںSwing states کہا جاتا ہے اور دراصل انہی ریاستوں میں یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ کامیابی کس کے قدم چومے گی؟ مثال کے طور پر ایری زونا، فلوریڈا، جارجیا،مشی گن اور نیو ہیمپشائر سمیت کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں لوگ آخری وقت میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ووٹ کسے دینا ہے۔

اس بار بھی ان ’’Swing States‘‘میں کڑا مقابلہ متوقع تھا۔ 2016 کے عام انتخابات میں ڈونلڈٹرمپ ایری زونا اور فلوریڈا میں بالترتیب3.6اور1.2فیصد کی اکثریت سے جیتے تھے مگر اس بار دونوں ریاستوں سے جو بائیڈن کو برتری حاصل ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ مشی گن، نیو ڈا، مینی سوٹا اور نیو ہیمپشائر سے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کو برتری حاصل ہے۔

انہی رجحانات کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرنا دشوار نہیں کہ حتمی جیت کس کی ہوگی۔ تاہم اس بار اقتدار کی منتقلی آسان نہیں ہوگی؟ ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی ڈاک کے ذریعے ووٹنگ سے متعلق تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔

چند برس قبل دنیا بھر میں تبدیلی کی لہر آئی تھی۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے، بھارت میں نریندر مودی وزیراعظم بن گئے، پاکستان میں عمران خان کے سر پر وزارت عظمیٰ کا تاج سجا دیا گیا تو برطانیہ میں عمران خان کے دوست بورس جانسن وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوگئے۔

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے حامی ہیں اور انہوں نے ٹرمپ کے حق میں پیغام بھی جاری کیا ہے۔

غالباً عمران خان بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں ہوں گے کیونکہ اگر تبدیلی کی لہر پلٹنے پر آگئی اور امریکہ سے بری خبریں آنے لگیں تو ان کے اثرات یہاں بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ جب بھی سونامی آتا ہے تو پانی اُتر جانے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ سیلابِ بلا کیا کچھ خس و خاشاک کی مانند بہا کر لے گیا ہے.

امریکہ میں بھی شاید ڈونلڈ ٹرمپ کی رخصتی کے بعد یہ تخمینہ لگایا جا سکے گا کہ ان کے دور صدارت میں کس قدر نقصان ہوا مگر ہمارے ہاں تو تبدیلی کی لہر اُترنے سے پہلے ہی تباہی وبربادی کے آثار نمایاں ہیں۔