شیل گیس کی دریافت ۔ توانائی کا انقلاب

May 06, 2013

پاکستان میں انرجی کے بحران پر میں نے کئی کالم لکھے جن کو نہایت سراہا گیا۔ جس میں ایک کالم شیل گیس پر بھی تھا۔توانائی کی دنیا میں شیل گیس نئی دریافت ہے اور قارئین نے اس پر مزید معلومات فراہم کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ حکومت کے مطابق قادر پور اور سوئی گیس فیلڈز 2022ء تک ختم ہوجائیں گے جس سے پہلے ہمیں گیس کے حصول کیلئے بشمول پاک ایران گیس پائپ لائن متبادل منصوبوں پر تیزی سے کام کرنا ہوگا۔یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں شیل گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں ۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق شیل گیس کی دریافت سے امریکہ آئندہ چند سالوں میں توانائی میں خود کفیل ہوجائے گا ۔ جنوری 2012ء میں امریکی صدر بارک اوباما نے دعویٰ کیا تھا کہ شیل گیس کی دریافت سے امریکہ کے قدرتی گیس کے ذخائر 100 سال تک چلیں گے۔ شیل گیس کی دریافت سے دنیا کا تیل اور قدرتی گیس پر انحصار کم ہوتا جارہا ہے اور بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل اور قدرتی گیس کی قیمتوں میں حیرت انگیز طور پر کمی آرہی ہے کیونکہ شیل گیس کی لاگت خام تیل کے مقابلے میں 70% ہے ۔ دنیا بالخصوص امریکہ میں شیل گیس کی دریافت کو توانائی کی دنیا میں ایک انقلاب کہا جاسکتا ہے۔
شیل گیس قدرتی گیس کی ایک قسم ہے جو زیر زمین باریک ریت کے ذروں اور مٹی سے بننے والی تہہ دار چٹانوں سے حاصل کی جاتی ہے جسے Mudstone کہاجاتاہے۔ بلیک شیل میں پائے جانے والے نامیاتی اجزاء کو توڑ کر گیس اور تیل حاصل کیا جاتا ہے۔ امریکی محکمہ توانائی کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے 32ممالک میں شیل گیس کے 5760 ٹریلین مکعب فٹ (TCF) کے ذخائر ہیں جو امریکہ میں شیل گیس کے موجود ذخائر کا 7 گناہے۔ دنیا میں شیل گیس کے بڑے ذخائر شمالی امریکہ میں 1931TCF، چین میں 1275TCF، جنوبی امریکہ میں1225TCF، میکسیکو میں 681TCF، یورپ میں 639TCF جس میں پولینڈ میں سب سے زیادہ شیل گیس کے ذخائر پائے جاتے ہیں جبکہ جنوبی افریقہ میں 485TCF اور بھارت میں 63TCF شیل گیس کے ذخائر ہیں، بھارت کا سب سے بڑا تجارتی وکاروباری گروپ شیل گیس کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔ اس کے علاوہ لیبیا، الجزائر، ارجنٹائن، جنوبی افریقہ اور کینیڈا میں بھی شیل گیس کے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ شیل گیس کو زمین سے نکالنے کی جدید ٹیکنالوجی Hydrofracking صرف امریکہ کے پاس ہے اس لئے گزشتہ 5 سال کے دوران امریکہ میں شیل گیس کی پیداوار میں 20% اضافہ ہواجو اس کی قدرتی گیس کی مجموعی پیداوار کا 25% ہے جبکہ 2030ء تک شیل گیس امریکہ کی مجموعی قدرتی گیس کی پیداوار کا 50%ہوجائے گا۔ امریکہ میں شیل گیس کی پیداوار میں اضافے سے نہ صرف ملکی ضروریات پوری ہورہی ہیں بلکہ مستقبل قریب میں امریکہ اس کا ایک بڑا برآمدکنندہ بن سکتا ہے۔ توانائی کے بین الاقوامی ماہرین کاکہنا ہے کہ توانائی کے ان نئے ذخائر کی دریافت سے عالمی سیاست، معیشت اور جیواسٹرٹیجک توازن کا کھیل مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گا۔ امریکہ میں شیل گیس کی پیداوار میں اضافے سے عالمی مارکیٹ میں گیس کی قیمتوں میں کمی آئی ہے جو 13 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ سے کم ہوکر 4.23 ڈالر فی ملین BTU ہوگئی ہیں۔ امریکی نیو بیکر انسٹی ٹیوٹ کے مطالعے کے مطابق امریکہ میں شیل گیس کی پیداوار میں اضافے سے یورپی ممالک کیلئے روس کی گیس کی فراہمی میں بھی کمی آئے گی اور 2040ء تک یورپ کیلئے روسی گیس کی فراہمی 27% سے کم ہوکر صرف 13% تک رہ جائے گی۔
خوش قسمتی سے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو قدرتی گیس کی کمی کو پورا کرنے کیلئے شیل گیس کے کم از کم 51 سے 100 ٹریلین مکعب فٹ ذخائر عطا کئے ہیں اور اس طرح پاکستان دنیا میں شیل گیس کے ذخائر رکھنے والا 17 واں بڑا ملک ہے اور شیل گیس کے حصول سے پاکستان میں آئندہ 5 سے 10 سالوں میں ہماری مجموعی گیس کی پیداوار 4 گنا بڑھ سکتی ہے جو ہماری طلب کو پورا کرنے کیلئے کافی ہے۔ پاکستان میں اس وقت سردیوں میں یومیہ 2 بلین مکعب فٹ گیس کی کمی کا سامنا ہے جو ہماری قدرتی گیس کی پیداوار (4.2 بلین مکعب فٹ یومیہ) کا تقریباً 50% ہے لیکن گیس کی طلب کے پیش نظر 2021ء تک یہ کمی بڑھ کر 5.2 بلین مکعب فٹ اور 2025ء تک 8 بلین مکعب فٹ یومیہ ہوسکتی ہے جسے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے اور شیل گیس کے حصول سے پورا کیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ حکومت نے اپنے آخری دنوں میں شیل گیس کی دریافت اور اس کے حصول کیلئے شیل گیس پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ حال ہی میں پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (PPL)اور غیر ملکی کمپنی ENI نے شیل گیس کی دریافت کے سلسلے میں کنوؤں کی کھدائی کیلئے 10/ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت ENI پاکستان میں اپنے تین پائلٹ منصوبوں کے تحت سندھ اور پنجاب میں 1100 کنویں کھودے گی۔ رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ کے 45,000 مربع کلومیٹر وسطی رقبے میں شیل گیس کے 364کنویں کھودے گئے اور 155کنوؤں سے حاصل کی گئی گیس کے نمونوں کاتجزیہ کیاگیا۔ تینوں پائلٹ پروجیکٹس کے تحت کھودے گئے کنووٴں سے 4سے 5 ٹریلین مکعب فٹ غیر مضر شیل گیس کے ذخائر کاتخمینہ لگایاگیاہے۔ ایک TCF قدرتی اور شیل گیس کا موازنہ کریں تو قدرتی گیس کی مالیت 530 ملین ڈالر جبکہ شیل گیس کی مالیت 3800 ملین ڈالر ہوگی، قدرتی گیس کے ایک کنویں کی کھدائی پر 12 ملین ڈالر جبکہ شیل گیس کے کنویں پر 17.5ملین ڈالر لاگت آتی ہے۔ قدرتی گیس کے ایک کنویں سے 15 سے 20 ملین جبکہ شیل گیس کے کنویں سے 3 سے 4 ملین مکعب فٹ گیس یومیہ ایک سے دوسال تک حاصل ہوتی ہے۔ قدرتی گیس کے کنویں کی پیداواری مدت 25سے 30سال جبکہ شیل گیس کے کنویں کی یہ مدت 40سال ہوتی ہے۔
ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے ملک میں موجودہ انرجی کے بحران کے خاتمے کیلئے 2 سے 3 سال کی مدت کا اعلان کیا ہے۔ میری نئی حکومت کو تجویز ہوگی کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے ہمیں اپنے انرجی مکس کو بہتر بناکر متبادل ذرائع سے انرجی حاصل کرنا ہوگی جس میں میرے نزدیک اولین ترجیح ہائیڈرو پاور جس کیلئے حکومت کو درمیانے درجے کے ڈیمز بناکر سستی اور صاف بجلی حاصل کرنا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے کالے سونے تھرکول کے 175 بلین ٹن اور شیل گیس کے51 ٹریلین مکعب فٹ کے ملکی ذخائر کو استعمال میں لاکر سستی توانائی حاصل کرنا ہوگی۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو جلد از جلد پایہٴ تکمیل تک پہنچاکر 1000MMCF گیس یومیہ سپلائی کو ترجیحی بنیادوں پر یقینی بنایا جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملک میں بجلی اور گیس پیدا کرنے والی کمپنیوں کی تشکیل نو کرکے ان کے T&D نقصانات اور چوری کو کنٹرول کیا جائے اور گڈگورننس کے ذریعے ان کی پیداواری استعداد اور کارکردگی کو بہتر بنایا جائے تاکہ ان کمپنیوں کے واجبات کی عدم ادائیگیوں کی وجہ سے ہونے والے سرکولر ڈیٹ کو ختم کیا جاسکے۔ موجودہ حکومت نے پاور کے کئی پروجیکٹس شروع کئے ہیں جن کی تکمیل سے آئندہ 2 سے 3 سالوں میں بجلی کی طلب میں کافی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث پاکستان کو ہر سال 2% جی ڈی پی میں کمی کا سامنا ہے اور صنعتی ترقی جمود کا شکار ہے جس سے بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے جس کا ہمارا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ مذکورہ اقدامات فوری طور پر نہ کرنے کی صورت میں ہمیں آئندہ انتخابات میں بھی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بجلی کے بحران کے حوالے سے کئے گئے وعدوں کے اشتہارات پھر اخبارات میں پڑھنے کو ملیں گے۔