امریکی جمہوری نظام کی طاقت؟

November 07, 2020

اِس سال جون میں درویش کا کالم چھپا تھا کہ ’’کورونا اور ٹرمپ سے دنیا کی جان کب چھوٹے گی؟‘‘ کورونا جیسی مہلک وبا کا تو ابھی معلوم نہیں لیکن ٹرمپ جیسے غیرذمہ دار اور مسخرے صدر سے امید ہے کہ دنیا کی جان چھوٹنے والی ہے۔ اُن کی جگہ 78سالہ سابق نائب صدر جوبائیڈن عالمی سپرپاور کے صدر منتخب ہونے والے ہیں بشرطیکہ صرف امریکی ریاست نیواڈا میں اُن کی لیڈ (برتری) قائم رہے دیگر چار ریاستوں جارجیا، نارتھ کیرولینا، پنسلوینیا اور الاسکا میں اگر صدر ٹرمپ جیت بھی جاتے ہیں پھر بھی جوبائیڈن کی فتح کو وہ روک نہیں سکیں گے۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دشمن بھی امریکہ کو دنیا کی عظیم ترین جمہوریت تسلیم کرتے ہیں۔ جمہوری معاشروں میں اختلافِ رائے کی آزادی سے جہاں ٹکرائو کی صورت دکھائی دیتی ہے وہیں سیاسی و سماجی گھٹن اور جبرو استبداد کا خاتمہ بھی ہوتا ہے۔ 4جولائی 1776سے 3نومبر 2020کی ایک تابناک تاریخ ہے جس پر امریکی قوم بجا طور پر فخر کر سکتی ہے۔ جارج واشنگٹن کی پاپولیریٹی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اصرار کیا جاتا ہے کہ آپ اپنی صدارتی حکمرانی کا تسلسل جاری و ساری رکھیں لیکن وہ مدبر امریکی بابائے قوم کس قدر سچائی و سادگی سے کہتا ہے کہ میرے علاوہ بھی امریکہ میں بہت سے قابل اور باصلاحیت انسان موجود ہیں، میں اپنی قوم پر مسلط کیوں رہوں؟ دیگر باصلاحیت و قابل شہریوں کو یہ موقع کیوں نہ ملے کہ وہ اپنی قوم کی خدمت کرنے کیلئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکیں جبکہ دیگر اقوام میں اقتدار کے حریص ایسے نابغے بھی تھے، جو کہتے تھے ملک یا قوم جائے بھاڑ میں، ہمیں سب سے بڑا عہدہ ملنا چاہئے اور پھر تادمِ مرگ ہمارے پاس رہنا چاہئے۔ ایسے بھی تھے جو بیک وقت کئی کئی عہدوں پر براجمان رہنا چاہتے تھے یا پھر اپنے لمبے ہاتھوں سے دوسروں کی پلیٹیں صاف کرنا اپنا حق سمجھتے تھے اور سمجھتے ہیں۔ خدا معاف فرمائے، اقتدار اور حکمرانی کی ہوس کتنی بری بلا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں منتخب وزیراعظم کابینہ کا سربراہ ہوتا ہے، وہی کابینہ کے اجلاسوں کو پریذائیڈ کرتا ہے مگر ہمارے یہاں ایسے سربراہانِ مملکت یا بابے بھی گزرے ہیں جو وزیراعظم کو کارنر کرتے ہوئے خود کابینہ کی صدارت کرنے بیٹھ جاتے تھے۔ کسی بھی عمارت کی جب بنیادیں ہی ٹیڑھی ہوں گی تو لازمی بات ہے اوپر چل کر مزید بڑی خرابیاں پیدا ہوتی چلی جائیں گی۔

مغربی جمہوریتوں پر طنز و حقارت کے تیر چلانے والے بلاشبہ ہماری صفوں میں کم نہیں لیکن پوری انسانیت تہذیبِ مغرب کی احسان مند رہے گی کہ اُنہوں نے انسانی و عوامی رائے یعنی ووٹ کی طاقت کو صحیح معنوں میں عزت و عظمت بخشی اور باور کروایا کہ ووٹ کی عزت درحقیقت انسانیت کی عزت و تقدیس ہے۔ اُنہوں نے پوری دنیا کو پُرامن انتقالِ اقتدار کی راہ دکھلائی ورنہ ہم جو خود کو تیس مار خاں قرار دلوانے میں پاگل ہوئے بیٹھے ہیں ہماری تاریخ خون خرابے اور قتل و غارت گری سے بھری پڑی ہے۔جی چاہ رہا ہے کہ نیلسن منڈیلا جیسے وسیع النظر اور وسیع الظرف انسانوں کی مثالیں پیش کی جائیں لیکن محدود کالم میں اتنی گنجائش نہیں۔ اِس امریکی نائب صدر جوبائیڈن کی سوچ اور طرز حکمرانی کا جائزہ لے لیا جائے جس نے صدر باراک اوباما کے ساتھ کام کیا تھا، اُن کا جوان بیٹا کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوا تو جمع پونجی اُس کے علاج پر خرچ ہو گئی اور نوبت اپنا گھر بیچنے تک پہنچ گئی، کیا اِس کے کوئی دوست نہیں تھے جو ہوائی جہازوں کے نہ سہی بیمار بچے کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات ہی برداشت کر لیتے؟ بہرحال بات جب صدر اوباما کے کانوں تک پہنچی تو اُس نے اپنے ذاتی اکائونٹ سے دستِ تعاون بڑھایا مگر کینسر کے مرض میں مبتلا جواں سال بیٹے کی موت کا دکھ پھر بھی جوبائیڈن کو سہنا پڑا۔آج منتخب ہونے سے قبل ہی جوبائیڈن اپنی پارٹی اور اپنی قوم سے مخاطب تھے ’’میں نے بلاشبہ صدارتی الیکشن ایک ڈیموکریٹ کی حیثیت سے لڑا ہے لیکن منتخب ہونے کے بعد میں تمام امریکیوں کا صدر بنوں گا، میرے حامی بھی تحمل کا مظاہرہ کریں، سیاست میں نفرت اور دشمنی نہیں ہوتی۔ امریکی قوم کو توڑنے والی چیزیں کم ہیں اور جوڑنے والی بہت زیادہ‘‘۔ اِس کو کہتے ہیں قیادت، قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے والی قیادت۔ جمہوری تسلسل کا یہی حسن ہے کہ اگر اس راستے سے کوئی ابن الوقت یا چالباز آگے آ بھی جاتا ہے تب بھی جمہوری تسلسل میں خلل نہ آنے دیا جائے تو موقع ملنے پر نااہلی سے پھیلائے گئے گند کو صاف کرنے والی باصلاحیت قیادت سامنے آ جاتی ہے بشرطیکہ سسٹم میں مضبوطی ہو تو ایک ٹرم کیا دو ٹرمز کی خرابیوں کو بھی بطریق احسن دور کیاجا سکتا ہے، سسٹم مستحکم ہو تو افراد و اشخاص سے بھی کوئی بہت زیادہ خرابی نہیں پیدا ہوتی۔ صدر ٹرمپ اور ان کی سوچ یا کارکردگی پر ہم جتنی مرضی تنقید کرلیں، اُنہیں مسخرہ یا غیرذمہ دار کہہ لیں، اُن کی سیاسی صلاحیتوں پر سوالات اٹھا لیں، اِس میں شک نہیں کہ اُنہوں نے امریکی صدارت کے باوقار منصب کو خاصا بےتوقیر کیا جس سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے عالمی وقار پر زد پڑی یا بالفرض اگلی کامیابی کی صورت میں مزید پڑ سکتی ہے لیکن یہ امریکی جمہوری سسٹم کی مضبوطی ہے کہ منفی تبدیلی کا بالآخر صفایا ہو جائے گا۔ عوام اپنی آئینی و جمہوری راہوں پر پچھلی دو ڈھائی صدیوں کی طرح رواں دواں رہیں گے۔ اُن کے آزادیٔ اظہار اور ووٹ کی عزت پر کوئی جنونی یا سرپھرا حملہ آور نہیں ہو سکے گا۔