ساحل اور وسائل پر قبضے کیخلاف سندھ کا احتجاج

November 17, 2020

عجیب اتفاق ہے کہ آج بھی اتوار ہے اور جب میں کالم لکھ رہا ہوں تو آج بھی اسی 11قوم پرست عوامی تنظیموں پر مشتمل ’’سندھ ایکشن کمیٹی‘‘ کی طرف سے سندھ کے ساحل اور وسائل پر قبضے کے خلاف ایک بڑی ریلی کراچی میں نکالی جارہی ہے۔ پروگرام کے مطابق یہ لوگ جمع ہوکر ریلی کی شکل میں گورنر ہائوس تک جائیں گے جہاں سندھ کے عوام کی طرف سے احتجاج کرنے کے بعد اس ایکشن کمیٹی کے ارکان گورنر ہائوس تک پہنچ کر سندھ کے حقوق پر مشتمل یادداشت نامہ سندھ کے گورنر کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دراصل اِن ایشوز پر سندھ کے مختلف حلقوں کی طرف سے نکالی گئی یہ پہلی یا دوسری ریلی نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو سارا سندھ اس وقت ان ایشوز پر احتجاج کررہا ہے۔ اب تک ان ایشوز پر کئی سیاسی تنظیموں کی طرف سے نہ صرف مختلف شہروں میں بڑی ریلیاں نکالی گئی ہیں بلکہ صوبے کے ایک شہر سے دوسرے شہر تک احتجاجی مارچ بھی کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں 4نومبر کو ایاز لطیف پلیجو کی سربراہی میں قومی عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے سندھ سے زیادتیوں کے خلاف ضلع جیکب آباد کے شہر کندھ کوٹ سے ایک بڑا جلوس نکالا گیا جس میں مرد کارکنوں کے ساتھ خواتین کارکن بھی شامل تھیں اور وہ جلوس پورے سندھ سے گزرنے کے بعد کراچی شہر پہنچا جہاں انہوں نے مختلف مقامات پر دھرنے دیے جہاں تقریریں کی گئیں ۔جن کے ذریعے سندھ کے ساحل اور سندھ کے دیگر وسائل کے خلاف نہ صرف مرکزی حکومت بلکہ کراچی کے کچھ مخصوص حلقوں کی طرف سے کچھ معاملات پر کی گئی جارحیت کی مذمت بھی کی گئی اور اُنہوں نے خبردار کیا کہ سندھ کے عوام نہ اپنے ساحلی جزیروں پر کسی قوت کو قبضہ کرنے دیں گے اور نہ سندھ کو تقسیم کرنے یا سندھ کے کسی شہر پر قبضہ کرنے کی اجازت دیں گے۔ اُن سے پہلے مرحوم رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک کی طرف سے مختلف شہروں سے جلوس نکالا گیاتھا جس میں سندھ کی خواتین کی بڑی تعداد شامل تھی۔ یہ احتجاجی ریلی بھی بعد میں کراچی پہنچی اور مختلف مقامات پر دھرنا دیکر احتجاج کیا گیا۔ دراصل سندھ کی مختلف تنظیموں کی طرف سے یہ احتجاج مرکزی حکومت کی طرف سے سندھ کے ساحلی جزیروں کو اپنی تحویل میں لینے کے لئے جاری کئے گئے۔ صدارتی آرڈیننس کے خلاف کیا جارہا ہے اور اسی دوران یہ بھی اطلاعات ہیں کہ تھر کے کارونجھر پہاڑ پر بھی قبضہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ کراچی کے حلقوں کی طرف سے مرکزی حکومت کی حمایت سے یہ جو مطالبہ کیا جارہا ہے کہ کراچی کو سندھ سے الگ کرکے صوبے کی حیثیت دی جائے یا دیہی سندھ اور شہری سندھ کو الگ کرکے شہری سندھ پر مشتمل ایک الگ صوبہ بنایا جائے۔ اِس کا سندھ کے عوام میں شدید ردِعمل ہوا ہے لہٰذا اس کے خلاف بھی سندھ بھر میں مختلف سیاسی اور عوامی حلقوں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ سندھ کے عوام یہ بھی مطالبہ کررہے ہیں کہ کافی عرصے سے مختلف ملکوں سےلاکھوں غیرقانونی پناہ گزینوں کو لاکر کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں آباد کرکے سندھ کے اصل باشندوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی جو سازش کی جارہی ہے وہ فوری طور پر بند کی جائے اور ان غیرقانونی پناہ گزینوں کو اپنے علاقوں میں واپس بھیجا جائے۔ اِس سلسلے میں اُن حلقوں نے اِس بات کا بھی حوالہ دیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران لاکھوں کی تعداد میں آباد ان غیرقانونی پناہ گزینوں کا نوٹس لیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ان کو فوری طور پر کیمپوں میں منتقل کیا جائے اور پھر اپنے اپنے ملکوں کو بھیجا جائے۔ یہاں میں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ اس سے پہلے اتوار 25اکتوبر کو سندھ کی ایک اہم قوم پرست جماعت ’’جسقم‘‘ کی طرف سے سندھ کے جزیروں پر مرکزی حکومت کے قبضے کے خلاف ضلع خیرپور کے مقام ببرلو بائی پاس پر ایک بڑا دھرنا دیاگیا جو 4گھنٹے تک جاری رہا جس میں جسقم کے علاوہ سندھ پروگریسو کمیٹی کی طرف سے بھی مظاہرہ کیا گیا۔ دھرنے میں سندھ ترقی پسند پارٹی،جمعیت علمائے اسلام اور کچھ دیگر تنظیموں کے رہنمائوں اور کارکنوں نے بھی شرکت کی۔ اِن رہنمائوں نے اپنی تقریروں میں کہا کہ دریائے سندھ پر ڈیم اور کینال تعمیر کرکے سندھ کو پانی سے محروم کرنے کے بعد اب سندھ کے ساحلی جزیروں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میں نے گزشتہ کالم میںانکشاف کیا تھا کہ جب پاکستان کے غیرمنتخب نظام میں اِس وقت کی آمر حکومت نے مشرقی پاکستان کی آبادی کو کم دکھانے کے لئے مغربی پاکستان کے سارے صوبوں کو ’’ویسٹ پاکستان‘‘ صوبے میں ضم کرکے مغربی پاکستان کے اُن چھوٹے صوبوں کی صوبائی خود مختاری کو ختم کردیا تھا اور ان کو ’’کالونی‘‘ کی حیثیت دیدی گئی تھی تو مغربی پاکستان کے پہلے گورنر نے کہا کہ مغربی پاکستان کے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ سارے مغربی پاکستان کا نظام چلایا جا سکے لہٰذا انہوں نے سندھ کے خزانے سے 30کروڑ روپے نکال لئے اور وعدہ کیا کہ جلد یہ رقم سندھ کے حوالے کی جائے گی مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اب جب اس سلسلے میں کچھ باخبر حلقوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ رقم ابھی تک سندھ کو واپس نہیں کی گئی اور پاکستان کی مرکزی حکومت اب تک سندھ کی 30کروڑ روپے کی مقروض ہے مگر زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب پتا چلا کہ 1947میں جب پاکستان وجود میں آیا تو پاکستان کی پہلی حکومت نے بھی ملک کا کاروبار چلانے کے لئے سندھ کے خزانے سے 30کروڑ روپے نکال لئے، یہ رقم بھی ابھی تک سندھ کو واپس نہیں کی گئی،اس طرح وفاق اب تک سندھ کے 60کروڑ روپے کا مقروض ہے۔