11مئی ، پاکستان نیا بھی ہو گا،روشن بھی

May 10, 2013

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام نے ثابت کر دیا کہ وہ کسی بھی صورت میں خونی انقلاب برپا کرنے کے لیے آمادہ نہیں ۔ قومی خزانہ لٹ جائے ، ملک تاریکی میں ڈوب جائے، شہروں میں دہشت کا راج ہو ، عوام بے روزگار اور ان کے بچے کم خوراکی ( میل نیوٹریشن) سے دوچار ہوجائیں ، لیکن قوم کسی طور فرانس ، ماؤ اور خمینی والے انقلاب پر آمادہ ہے نہ تیونس، مصراور لیبیا والی”عرب سپرنگ “پر ۔اس کے باوجود ایک تبدیلی ہے جو تاریکی میں ڈوبے پاکستان میں جاری ہے ۔ بد ترین سماجی ناانصافی ،دہشت گردی کا عذاب سہتے ، کمر توڑ مہنگا ئی اور بے روزگاری ہی نہیں ، نیم فاقہ کشی اور خودکشیوں کے مایوس کن ماحول میں پاکستانی قوم اپنے ہی طریقے اورحکمت سے ملک پر چھ عشروں سے مسلط نظام بد پر حملہ آور ہوئی ہے۔ محلوں میں داخل ہو کر تاج و تخت اچھال کر نہیں ، بلکہ گلی محلوں سے ووٹ کی چوٹ لگا کر ۔ واہ واہ، پاکستانیوں کے انداز تو دیکھیں ،ایک آئینی اور ریاستی ادارہ( عدلیہ ) اوپر کی سطح سے مکمل آزاد اور قابل اطمینان حد تک شفاف کر کے، دوسرے میڈیا جیسے عوامی انسٹی ٹیوٹ کو آزاد کر کے ، عوام سٹیٹس کو ء کے خلاف سر بکف ہو گئے ۔ ہر دو اداروں کے جاری تاریخی کردار کے پس پردہ ایک پراسس ہے ، وہ نہیں جس کی وکالت سٹیٹس کوء( نظام بد) کے پجاری و حواری انقلاب کا مذاق اڑاتے اور انقلابیوں کو ٹھینگے دکھاتے ہوئے کرتے ہیں ۔عوام کا شروع کیا ہوا یہ پراسس بذات خود انقلاب آفریں ہے۔ اسے صحافیوں اوروکلاء جیسے بیدار عوامی طبقے نے عوام الناس کی بھر پور تائید اور عملی معاونت سے شروع کیا اور نتیجہ خیز بنا دیا ۔ ہفت خاندانی نظام جمہوریت کے وکلاء کا تصور جمہوری عمل تو انتخابی عمل تک ہی محدود رہا ، وہ انتخابی عمل جسے پاکستان کی جاگیر دارانہ سیاست اور خود کو عقل کل سمجھنے والے وطن کے مخلص مگر لالچی فوجی اورسول آمروں نے اپنی اغراض اور خود پسندی سے تراشا ۔ کدھر ہے مزدوروں ، کسانوں ، خواتین، کلرکوں، وکلاء، اساتذہ اور طلبہ کے ذریعے ”انقلاب“ برپا کر نے والی پیپلز پارٹی ؟جس کے اقتدار کی پانچ باریاں ، فسطائی حربوں ، انقلابیوں کو ٹھکانے لگا کر نئی جاگیر دارانہ سیاست شروع کر نے ، انتخابی دھاندلیوں ، ملک میں خاندانی سیاست کی بنیاد رکھنے ، قومی خزانے کی لوٹ مار اور بد ترین طرز ہائے حکومت کے جملہ ماڈلز کے عملی مظاہروں سے بھری پڑی ہیں۔کتنا سادہ اور معصوم تھا عوام کا وہ طبقہ ؟ جو خود کو لبرل اور جمہوری سمجھ کر بھی فوجی آمریت کی کوکھ اور خاندان پر چلنے والی پارٹی کو انقلابی سمجھ کر اس کا دیوانہ بن گیا ۔ انقلاب کے متوالے لیکن سادہ ذہن اس طبقے نے الیکشن 70ء میں پیپلز پارٹی کے کھمبوں کو بھی ووٹ دے کر بلاشبہ ایک انقلاب برپا کیا ، ایک ایسا انقلاب ، جس میں بڑے بڑے انقلابی ذلتوں سے دوچار کر دیے گئے ۔ پیپلز پارٹی کے دیر ینہ کارکنوں جے رحیم ، معراج محمد خان ، رانا مختار ، احمد رضا قصوری ، ملک معراج خالد اور حنیف رامے کے نام تو یاد ہو نگے ۔ خاکسار کو لاہور میں لیا گیا ،جے رحیم کا رو رو کردیے جانے والا وہ انٹر ویو (شائع شدہ ) نہیں بھولتا جس میں آنسو ٹپکاتے انہوں نے یہ فقرہ ادا کیا ”سالے نے مجھے ہتھکڑیا ں لگوا کرپلنگ کے پائے سے بندھوایا اور مجھے پلنگ پر بیٹھنے کی اجازت بھی نہیں تھی ، میں گھنٹو ں فرش پر بیٹھا رہتا “۔ یہ اس جمہورہت کا آغاز تھا ، جس کا اختتام اب عوام کچھ اس طرح کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے سابقہ سیاسی قلعے میں لاہوری ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ یار ہمارے حلقے میں پیپلز پارٹی کا کوئی امیدوارہے ؟ فرینڈلی اپوزیشن فیم ن لیگ ثابت کر نے پر تلی ہوئی ہے کہ عمران خان پی پی کا فرنٹ مین ہے ۔ ادھر عمران خان نے ثابت کر دیا کہ اس نے قومی سیاست میں پی پی کو نمبر تین کر دیا اور ق لیگ فکر مند ہے کہ جب تیر ٹوٹ گئے تویہ کون جنونی ہے جو ہمارے سر پر آن کھڑا ہوا ۔ کہتا ہے بلے سے شیر کا شکار کروں گا ۔یہ سب تبدیلی کی ہی تو علامتیں ہیں ۔ جسٹس افتخار چوہدری کی تاریخ ساز NOسے شروع ہونے والی وکلاء کی تحریک ، آزاد عدلیہ کی بحالی وزیر اعظم گیلانی کی وزارت عظمیٰ کا خاتمہ اور نااہلیت او ر پی پی کے نمبر تین ہو کر تحریک انصاف کا ن لیگ کے مقابل سینہ تان کر کھڑے ہو جانا جاری برپا ہوتی تبدیلی ہی ہے ۔ کرکٹ کاوہ کھلاڑی ، جو بغیر کسی فوجی آمر کے سہارے ،اناڑی سیاست کرتا کرتا انتخابی سیاست میں اپنے کرکٹ والے مقام پر آگیا تو یہ تبدیلی نہیں ؟میاں صاحب دو مرتبہ اقتدار میں آئے اور اب تیسری باری کے لیے پورے ملک میں پرواز کر رہے ہیں ۔ یہ بھی تو تبدیلی ہی ہے کہ آج میاں شہباز شریف نے ووٹرز پر واضح کیا ہے کہ اعجاز الحق مسلم لیگ ن کے امیدوار نہیں ۔
اس کو تبدیلی نہیں کہاجائے گا کہ شہیدظہور الٰہی کی اولاد بھٹو پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد میں ہے ۔ میاں نواز شریف نے پانچ سال خاموشی سے پیپلز پارٹی سے معنی خیز تعاون کرتے ہوئے اندرون سندھ کمند ڈال کر سندھی قوم پرستوں سے اتحاد کر لیا اور بلوچستان کے تند و تیز اور غصیلے بلوچ لیڈروں سے بھی ، انہیں قومی سیاست کے مین سٹریم لانا تبدیلی نہیں؟
سید منور حسن اور بگٹی کے بیٹے کی دوستی یوں بڑھ رہی ہے کہ لگتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں ا ن کا انتخابی اتحاد ہی نہ ہوجائے ۔ یہ تبدیلی نہیں کہ عمران خان ڈرون حملوں کے خلاف بنیاد ی انسانی حقوق کے علمبردار امریکیوں کے ساتھ مل کر وزیرستان کے نواح میں امریکی پالیسی کے خلاف مظاہرہ کرآیا او ر اب دعویدار ہے میں یہ حملے ختم کراؤں گا ۔
تاریخی حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان سر سید کی حکمت و دانش، اقبال کے ویژن ، قائد اعظم کی راست اور مدلل سیاست نیز حریت پسند مسلم صحافیوں کی ”پاور آ ف پین“ اور عوامی قافلے کی تائید و حمایت کے امتزاج سے بننے والے خمیر کی پیدوا ر ہے جس کا نتیجہ دیر سے نکلا ، لیکن حیرت انگیز اور عظیم تر ۔ یوں کہ ہزاروں سال قدیم مہا بھارت تقسیم ہو گیا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان قائم ۔ وائے بد نصیبی ابتدائی سالوں میں ہی جاگیر داروں ، بیوروکریٹس ، فوجی و سول آمروں، نودولتی جہلا اور نااہل حکمرانوں کے نااہل حواریوں کے ہتھے چڑھ گیا ۔ اب عوام کو بھی تبدیلی کا بخار چڑھا ہے۔ گیارہ مئی ، پاکستان میں مکاری سے گھڑی فرعونیت کے مکمل خاتمے کا تو نہیں بلکہ اس کی مکمل بیخ کنی کی جانب اہم سنگ میل ہے ۔ انشااللہ سفر جاری رہے گا ۔ بہت لٹکتی پارلیمنٹ بنتی نظر آ رہی ہے ۔ اسمبلی لٹکتی ہو گی لیکن بھٹکتی نہیں ۔ ایک بار پھر جعلی ڈگری ہولڈر ، کالی دولت سے ٹکٹ خرید کر عوامی نمائندہ بننے والے ، ٹیکس چور ، قرض خور اسمبلیوں میں پہنچتے نظر آ رہے ہیں لیکن ان کے سینے پر مونگ دلتے ،کچھ سر پھرے بغیر کسی مقتدر ادارے کی معاونت اور عقیدت اور ماتم کی طاقت سے محروم ، اصلی اور کھرے نمائندے بھی ان کے سروں پر سوار ہونگے ۔ اب اسٹیٹس کو کے خلاف جنگ اسمبلیوں کے اند ر ہو گی ۔ پھر یہ ہائی و سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن میں قانونی جنگ اختیار کر لے گی ۔ کھوٹے سیاست دان ، سٹیٹس کو ء کی چٹختی ، گھلتی اور پگھلتی طاقت سے عوامی نمائندہ بننے میں کامیاب ہو بھی گئے تو آئین و قانون کے اطلاق کا بالآخر سامنا تو کرنا پڑے گا ۔ پرویز مشرف کو کرنا پڑ رہا ہے تو یہ جاری جرائم پر کیسے بچ جائیں گے ؟ جو جھوٹے طور آئین آئین کر تے خود کو جمہوریت کا چمپئن ثابت کرتے تھے اور جو آرٹیکلز 62،63کے اطلاق پر پریشان ہیں ، اب جب آئین کا اطلاق ہو گا ( جو ہو کر رہے گا ) ان کی آنکھیں کھل جائیں گی اوہ ، تبدیلی تو آگئی ۔ اسمبلیوں میں ریکارڈ مانگا جائے گاکہ ہاؤ س بلڈنگ فنانس کارپوریشن نے قرضوں کی درمیانی یا آخری اقساط ادا نہ کر نے پر کتنے مجبور و بے کس ووٹروں کے مکان قرقی کیے ۔ اسٹیٹ بنک کو وہ فہرستیں عدالت میں پیش کرنا ہونگی جس سے آشکار ہو گا کہ ماضی او ر آ ج کے کتنے حکمرانوں اور عوامی نمائندوں کے کتنے قرضے لیے ، کس کس بنیاد پر لیے ، کیسے معاف ہو گئے اورقیوم و ڈوگر طرز کی عدالتوں سے معافی کی تو ثیق کیسے ہوئی ، جس قانونی بنیاد پر ہوئی اس بنیاد پر عوام کے قرضے کیوں معاف نہ ہو سکے ؟
دوہر ے قانون اور آمریت و بادشاہت سے زیاد ہ مضبوط ہفت خاندانی حکمرانی کا دور ختم ہو نے کو ہے ۔ گیارہ مئی آ رہا ہے ۔ صرف گیا رہ مئی نہیں ، ووٹر برپا تبدیلی سے نکلے نتائج کو سنبھالنے اورسنوارنے کے لیے جوق در جوق نکلیں اور اپنے زیر اثر ووٹرز کو نکالیں ۔ صرف گیارہ مئی کو نہیں ، اس کے بعد پے در پے نظر آتے ضمنی انتخابات میں الیکشن کی کمیاں خامیاں دور کرنے اور اسمبلیوں سے سٹیٹس کو ء کے گند کی صفائی کے لیے بھی کمر باندھ لیں ۔ انقلاب تو نہیں انقلابی نوعیت کا تبدیلی کا جو عمل جاری ہے جاری رہے گا جس کا نتیجہ ہو گا کہ پاکستان نیا بھی ہو گا او ر روشن بھی۔