پاناما لیکس۔ کیا کچھ نکلے گا؟

April 21, 2016

یہ بات پہلے بھی راز نہیں تھی کہ پاکستان سے لوٹ کر اور ٹیکس چور ی کر کے تقریباً 50 ارب ڈالر بیرونی ملکوں میں منتقل کئے جاچکے ہیں۔ بیرونی ممالک میں ناجائز دولت رکھنے والے پاکستانیوں میں ریاست کے چاروں ستون سے تعلق رکھنے والی شخصیات تو ہیں ہی ان کے ساتھ سیاستدان، صنعتکار، تاجر، بینکوں سے قرضے معاف کرانے والے ملک کے اندر اربوں روپے کے اثاثے رکھنے والے یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری اور مختلف حکومتوں سے قومی اعزازات حاصل کرنیوالے اور ’’خیرات‘‘ کے نام پر سرمایہ کاری کرنے والے بھی شامل ہیں۔ پاناما پیپرز کے افشا ہونے کے بعد طاقتور طبقوں نے چابکدستی سے جو مربوط حکمت عملی اپنائی ہے اس سے ایسا نظر آرہا ہے کہ حالیہ سیاسی الزام تراشیوں اور ہنگامہ آرائی سے آخر کار مستفید ہونے والوں میں وہ افراد بھی شامل ہوں گے جن کے نام پاناما لیکس میں شامل ہیں جبکہ قومی دولت لوٹنے والے اور ٹیکس چوری کرنے والے بدستور مزے میں رہیں گے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ آمرپرویز مشرف نے اقتدار پر قبضے کرنے کے فوراً بعد لوٹی ہوئی دولت اور بینکوں سے ناجائز طریقے سے معاف کرائے گئے قرضوں کی پائی پائی وصول کرنے کا عہد کیا تھا مگر جلد ہی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجراء کیا اور بینکوں کے قرضے معاف کرنے کی مہم شروع کردی۔ اسی طرح چند ماہ قبل حکومت نے پہلے ود ہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ پر تاجروں کے احتجاج کو سنگین ہونے دیا اور پھر تاجروں کیلئے پاکستان کی تاریخ کی سب سے پرکشش ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجراء کردیا۔ اب خدشہ ہے کہ کچھ عرصے بعد پاکستان سے لوٹ کر بیرونی ملکوں میں منتقل کی گئی رقوم کی واپسی میں ناکامی کا اعتراف کر کے ان رقوم کو پاکستان واپس لانے اور قانونی تحفظ فراہم کرنے کے نام پر ایک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ایک قومی المیہ ہوگا۔یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ پاکستان سے لوٹی ہوئی اور ٹیکس چوری کی رقوم کا ایک حصہ مختلف اثاثوں کی شکل میں ملک کے اندر موجود ہے اور حکومت کی مکمل دسترس میں ہے جبکہ دوسرا حصہ بیرونی ملکوں میں موجود ہے۔ یہ بات یقیناً تشویش ناک ہے کہ آف شور کمپنیز کے نام پر رکھی ہوئی دولت پاکستان واپس لانے اور اس دولت کی ملکیت رکھنے والے سیاست دانوں کا احتساب کرنے کے مطالبات جوش و خروش سے کئے جارہے ہیں مگر لوٹی ہوئی دولت سے بنائے ہوئے کئی ہزار ارب روپے کے ان اثاثوں کے ضمن میں کوئی بات نہیں کی جارہی ہے جو ملک کے اندر موجود ہیں۔ اس مد میں صرف ایک برس میں دو ہزار ارب روپے سے زائد وصولی ممکن ہے۔ یہی نہیں، ملک سے لوٹی ہوئی رقوم کی بیرونی ملکوں میں منتقلی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے جسے روکنے کیلئے قانون سازی کرنے اور اقدامات اٹھانے کے ضمن میں بھی دبائو نہیں ڈالا جارہا۔ ہم ان د ونوں امور کے ضمن میں سفارشات گزشتہ 18 برسوں سے ان ہی کالموں میں پیش کرتے رہے ہیں۔ ہم نے سپریم کورٹ نے کےسامنے 1999 ء میںربوٰ کے مقدمے میں لوٹی ہوئی دولت کو قومی خزانے میں واپس لانے کیلئے تفصیلی گزارشات پیش کی تھیں جو بینچ کے سربراہ کے فیصلے میں موجود ہیں۔پاناما لیکس اسیکنڈل کے ضمن میں تحقیقاتی کمیشن ضرور بنائیں مگر اس حقیقت کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ متعدد پیچیدگیوں کی وجہ سے کمیشن کے کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے امکانات روشن نہیں ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں معیشت دستاویزی نہیں ہے۔ کالے دھن کا حجم تقریباً 20 ہزار ارب روپے ہے، پنڈی/ حوالہ اور اسمگلنگ کا مجموعی حجم تقریباً 50؍ارب ڈالر سالانہ ہے، بینکوں میں بے نامی کھاتے ہیں اور کالے دھن کو سفید بنانے کے قانونی اور غیر قانونی دونوں راستے موجود ہیں۔ 2005ء میں کراچی اسٹاک ایکسچینج میں زبردست بحران آیا تھا۔ اس اسکینڈل میں کچھ بڑے بروکرز کے نام بھی سامنے آئے تھے اور اسکینڈل کا ریکارڈ بھی عملاً موجود تھا۔ سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا اور پھر لاکھوں ڈالر فیس دے کر ایک امریکی فرانزک کمپنی ڈیجیلینس کی خدمات بھی حاصل کی گئیں مگر آخر میں کوئی بھی ذمہ دار قرار نہیں پایا۔ اسی طرح خود سپریم کورٹ نے اپنے ایک سابق جج کی سربراہی میں بینکوں کے قرضوں کی معافی کے مقدمہ میں کمیشن بنایا تھا۔ قرضوں کی معافی کا ریکارڈ بھی عملاً محفوظ تھا مگر کمیشن کی رپورٹ جو سپریم کورٹ کو ہی پیش کی گئی تھی قطعی بے معنی ثابت ہوئی اور کمیشن اصل حقائق تک پہچنے میں ناکام رہا۔ 4 برس سے زائد کا عرصہ گزارنے کے باوجود سپریم کورٹ نے فیصلہ صادر ہی نہیں کیا۔ پاناما پیپرز کے ضمن میں پاکستان میں ہونیوالے احتجاج سے قوم کو سنہری موقع ملا ہے کہ مندرجہ ذیل سفارشات پر عمل درآمد کیلئے حکمرانوں اور پارلیمنٹ بشمول صوبائی اسمبلیوں پر دبائو ڈالیں۔
(1) ٹیکس حکام سے خفیہ رکھی ہوئی آمدنی سے بنائے ہوئے ملک کے اندر موجود اثاثوں کا انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے تعین کر کے مروجہ قوانین کے تحت ٹیکس وصول کیا جائے اور کارروائی کی جائے۔
(2) معیشت کو دستاویزی بنانے، کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنے، اسمگلنگ اور ہنڈی/ حوالہ کے کاروبار پر قدغن لگانے، بینکوں کے بے نامی کھاتوں کو بند کرنے، وفاق اور صوبوں کی سطح پر ہر قسم کی آمدنی پر بلا کسی استثنیٰ موثر طور سے ٹیکس عائد اور وصول کرنے، کھلی منڈی سے ڈالر خرید کر ملک میں کام کرنے والے بینکوں میں جمع کراکر اس رقم کی باہر منتقلی کے حجم کو محدود کرنے کی قانون سازی کی جائے چنانچہ (الف) انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق III (4)کو منسوخ کیا جائے (ب) معاشی اصلاحات کے تحفظ ایکٹ 1992ء اور فارن ایکسچینج ریگولیشن 1947کی متعلقہ شقوں پر نظرثانی کی جائے اور (ج) اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کو مزید سخت بنایا جائے اور ان پر عمل کیا جائے۔ اب یہ ضروری ہے کہ مندرجہ بالا سفارشات کو نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنایا جائے کیونکہ دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے بھی یہ اصلاحات ضروری ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ اول سمندر پار پاکستانیوں اور 183دن سے زائد باہر رہائش کھنے والے پاکستانیوں کو قانوناً پابند کیا جائے کہ وہ اپنی سالانہ آمدنی اور مجموعی دولت کے گوشوارے پاکستان میں داخل کریں البتہ انہیں فی الحال ٹیکس سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ دوم حکومت کو اقوام متحدہ اور خصوصی طور پر مغربی ممالک سے یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت کو کسی بھی ملک میں محفوظ جنت فراہم نہ کی جائے۔ کرپشن پر قابو پانے کیلئے احتساب کا موثر نظام وضع کرنا۔ اداروں کو مضبوط بنانا اورقانون کی حکمرانی قائم کرنا انتہائی ترجیح اقدامات ہونا چاہئیں۔ اگر مندرجہ بالا سفارشات پر عمل کیا جائے تو لوٹی ہوئی دولت کا ایک حصہ واپس مل جائے گا، کرپشن میں کمی ہوگی۔ لوٹی ہوئی دولت کی ملک سے باہر منتقلی کا عمل سست ہوگا۔ دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملے گی، معیشت کی شرح نمود تیز ہوگی، روزگار کے زیادہ مواقع میسر آئیں گے۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ کم ہوگا اور عوام کی حالت بہتر ہوگی۔