وہ چلیں تو منزلیں بھی ساتھ ہوئیں

December 22, 2020

ٹائم میگزین نے 2020ء کی 100بااثر خواتین کی فہرست جاری کی جس کے مطابق امریکا کی پہلی خاتون نائب صدر کملا ہیرس، جرمن چرنسلر انجیلا مرکل اورامریکی ہائوس آف کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی کانام شامل ہے ۔ بر طانوی نشریاتی ادارے ’’بی بی سی‘‘ کی 2020 ء کی متاثر کن اور بااثر خواتین کی فہرست کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے ،جس میں قائدانہ ،تخلیقی صلاحیت اور شنا خت شامل ہے۔

اس فہرست میں پاکستان کے احسا س پروگرام کی سر براہ اور وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائےخاتمہ غربت، ڈاکٹر ثانیہ نشتر، فن لینڈ کی وزیر اعظم سنامرین ،پاکستان کی معروف فن کارہ ماہرہ خان ،افغانستان کی روبوٹکس ٹیم لیڈرسومیا فاروقی، افغانستان کی کارکن لالہ عثمانی اور یواے ای کی ایڈوانس ٹیکنالوجیز منسٹر سارہ ال امیری کا نام شامل ہے۔ ذیل میں ان خواتین کے بارے میں مختصراً نذر قارئین ہے۔

کملا ہیرس

کیلی فور نیا سے تعلق رکھنے والی 55 سالہ کملا ہیرس نے امریکا کی تاریخ میں پہلی خاتون نائب صدر بن کر نئی تاریخ رقم کی ہے ۔ان کی والدہ کا تعلق انڈیا اور والد کا تعلق جمیکا سے ہے ۔ہارورڈ میں چار سال رہنے کے بعد کملا ہیرس نے ہیسٹنگز میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے قانون کی ڈگری کی اور المیڈا کاؤنٹی ڈسٹرکٹ اٹارنی کے دفتر سے اپنے کریئر کا آغاز کیا۔وہ ریاست کیلی فورنیا کی سابق اٹارنی جنرل بھی رہ چکی ہیں اور نسلی تعصب کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران پولیس کے نظام میں اصلاحات کی بھی حامی رہی ہیں۔

انہوں نے 2003 ءمیں سان فرانسسکو کے لیے اعلیٰ ترین ڈسٹرکٹ اٹارنی بن کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔اس کے بعد وہ امریکا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست کیلی فورنیا میں وکیل اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار کی حیثیت سے ابھریں ۔کیلی فورنیاکے اٹارنی جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔امریکی سینیٹ میں منتخب ہونے کے بعد کملا ہیرس نے سینیٹ کی اہم سماعتوں میں اس وقت کے سپریم کورٹ کے نامزد امیدوار بریٹ کاوانوف اور اٹارنی جنرل ولیم سے تیکھے سوالات کرنے کے لیے ترقی پسندوں میں مقبولیت حاصل کی۔ٹائم میگزین نے کملا ہیرس کو پرسن آف دی ائیر قرار دیا ہے۔

انجیلا مرکل

انجیلا مرکل جرمنی کی چانسلر اور یورپی یونین کی نہایت فعال اور زیر ک رہنما ہیں۔ انجییلا مرکل1954ءکو جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں پیدا ہوئیں۔ انجیلا نے جرمنی کی کارل مارکس یونیورسٹی سے طبیعیات میں اعلیٰ سند حاصل کی۔

انہوں نے دیوار برلن کے گرائے جانے کے بعد ملک میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک شروع کی ۔2003ءکے انتخابات میں وہ پارلیمان کی رکن منتخب ہوئیں۔ 2005ءکے انتخابات میں چانسلر منتخب ہوئیں۔ 2019ءمیں وہ پانچویں بار الیکشن جیت کر چانسلر بنیں۔

ان کے مخالفین نے ان کی تارکین وطن سے ہمدردانہ پالیسی کی وجہ سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا ،مگر وہ اپنی پالیسیوں پر ڈٹی رہیں۔اور پوری ہمت اور طاقت کے ساتھ ہر تنقید کا سامنا کیا۔

نینسی پلوسی

نینسی امریکی ہائوس آف کانگریس کی اسپیکر ہیں۔ نینسی پلوسی 26 مارچ 1940ء کو بالٹی مور میں پیدا ہوئیں ان کے والدین اٹلی سے ہجرت کرکے امریکامیں آباد ہوئے۔ نینسی کا امریکی سیاسی جماعت ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق ہے۔ وہ پہلی امریکی خاتون ہیں جو کانگریس کی اسپیکر منتخب ہوئیں، انہیں صدر کے بعد اختیارات اور سیاسی امور میں نائب صدر کےبرابر تصور کیا جاتا ہے۔ نینسی نے سب سے پہلے امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذہ کے لئے آواز اٹھائی ۔

بلقیس دادی

ٹائم میگزین اور بی بی سی کی بااثر خواتین کی فہرست میں دلی کے شاہین باغ کی 82 سالہ بزرگ خاتون ،بلقیس دادی کا نام سر فہرست ہے۔ یہ دسمبر اور جنوری میں متنازع ترمیم شہریت قانون کے خلا ف احتجاج کی عالمی علامت بن کر اُبھری تھیں۔ ان کا تعلق اتر پردیش کے ہار پور سے ہے ۔یہ متنازع قانون 11 دسمبر 2019 ء کو بھارتی پارلیمان نے منظور کیا تھا ،جس کے تحت مذہب کو بھی اہلیت شہریت کی کسوٹی قرار دیا گیا ۔

بلقیس دادی شاہین باغ دہلی میں ہونے والے احتجاج کی سر خیل تھیں اور انتہائی سرد موسم میں اس متنازع قانون کے خلاف تین مہینوں تک جاری رہنے والے احتجاجی دھرنے میں سینکڑوں دیگر خواتین کے شانہ بشانہ رہیں ۔ ان کے خاوند کسی تنازعے کے بغیر ایک متحد بھارت کے نظریے میں پروان چڑھے تھے اور اسی نظر یے کے تحت انہوں نے یہ جدوجہد کی ۔

انہوں نے شاہین باغ کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا ۔ یہ انڈیا میں دیوار سے لگادئیے گئے لوگوں کی آواز بنیں ان کو ہمت دلائی۔وہ مظاہرے میں صبح آٹھ بجے سے رات بارہ بجے تک شامل رہتی تھیں ۔بلقیس دادی نے اس مظاہرے کے لیے ذریعے لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ جمہوریت کو بچانا کتنا ضروری ہے ۔ شاہین باغ مظاہروں کے دوران ایک بار انڈیا کے وزیر داخلہ نےکہا تھا کہ سی اے اے سے ہم ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔اس کےجواب میں بلقیس دادی نے کہا تھا کہ ہم ایک انچ کیا ایک بال برابر بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔اب وہ اپنے بچوں کے ساتھ شاہین باغ میں مقیم ہیں ۔

سنا مرین

بی بی سی کی متاثر کن خواتین کی فہرست میں فن لینڈکی وزیر اعظم سنا مرین کا نام بھی شامل ہے ۔یہ ’’آل فی میل کوالیشن گورنمنٹ ‘‘ کی سربراہی کرتی ہیں ۔ان کا تعلق سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے ۔ان کی حکومت میں جتنی سیاسی جماعتیں ہیں ۔

اُن سب کی سربراہ خواتین ہیں ۔دنیا بھر میں پھیلی عالمی وباء کورونا میں فن لینڈ دنیا کے سب سے کم متاثرہ ممالک میں شمار ہوا ۔ سنا مرین نے ایک بیان میں کہا کہ خواتین کی حکومت یہ دکھا سکتی ہے کہ اس وبا ءسےلڑنا اور ساتھ ہی ماحول کی آلودگی کو دور کرنا ،تعلیم کا معیار بہتر کرنا ،مسائل کے لیے آواز بلند کرنا یہ تمام کام کرنا ممکن ہے۔

ڈاکٹر ثانیہ نشتر

2018 ء سے احساس پروگرام کی سر براہ اور وزیراعظم کی معاون خصوصی برائےخاتمہ غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا نام بھی بی بی سی کی فہرست میں شامل ہے ۔انہوں نے بطور معاون خصوصی برائے انسداد غربت وہ اقدام اٹھائے، جس کی مدد سے پاکستان ایک فلاحی ریاست بن سکے ۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ کورونا کے شدید اثرات نے ہمیں ایک ایسا موقع دیا ہے کہ ہم ایک انصاف پسند دنیا قائم کرنے کے ساتھ ساتھ غربت ،عدم مساوات اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے مسائل کا خاتمہ کرسکیں لیکن ان مقاصد کے حصول کے لیے عورتوں کو برابری کا درجہ ملنا ضروری ہے۔

انہوں نے احساس پروگرام کے ذریعے ہزاروں پاکستانیوں کو موبائل بینکنگ، سیونگ اکائونٹس اور بنیادی وسائل کی سہولتیں فراہم کی ہیں ۔

ماہرہ خان

نامور پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان نے خواتین پر ہونے والے جنسی تشدد اور رنگ گورا کرنے والی کریموں کے خلاف آواز اُٹھائی اور نسل پرستی کے خلاف ہونے والی جنگ کی حمایت کی ۔

اسی بناء پر ان کو 100 با اثر خواتین کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔ماہرہ خان خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے میں کبھی بھی پیچھے نہیں رہیں۔ اقوام متحدہ ہائی کمشنر کے لیے ’’قومی خیر سگالی سفیر ‘‘بھی ہیں، جو پاکستان میں افغان مہاجرین میں آگاہی فراہم کررہی ہیں ۔

سومیا فاروقی

افغانستان کی طالبہ اور روبوٹک ٹیم لیڈر سومیا فاروقی نے۔ افغانستان میں جب کوروناکا پہلا کیس آیا تو سومیا اور ان کی ٹیم’’افغان ڈریمر‘‘ نے وہاں پر کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے کم قیمت میں وینٹی لیٹرز تیار کیے ۔جس سے مریضوں کو بہت فائدہ بھی ہوا۔ اب سومیا اور ان کی ٹیم اپنے کام کو منسٹر آف ہیلتھ کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اگر وہ اپنے اس ارادے میں کا م یا ب ہو جاتی ہیں تو اس وینٹی لیٹرکو ریموٹ ہسپتال میں بھی استعمال کیا جا سکے گا۔

علاوہ ازیں سومیا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں پہلا گلو بل چیلنج ایوارڈ بھی اپنے نام کر چکی ہیں ۔سومیاکی کار کردگی دیکھتے ہوئے بی بی سی نے انہیں بااثر خواتین میں شامل کیا ۔

لالہ عثمانی

افغانستان سے تعلق رکھنے والی لالہ عثمانی نے رواں برس عورتوں کے خلاف ایک مہم چلائی،جس کانام ’’میرا نام کہاں ہے ‘‘ ؟اس مہم کا لب لباب یہ ہے کہ افغانستان میں جب کوئی بیٹی پیدا ہوتی تو برتھ سرٹیفیکیٹ میں اس کا نام نہیں آتا تھا ،صرف والد کانام درج ہوتا تھا ،اسی طر ح لڑکی کانام شادی کارڈ پر درج نہیں ہوتا تھا اور یہاں تک کہ جب وہ بیمار ہوتی تھی ،تب بھی اس کا نام اسپتال کی رسید پرنہیں لکھا جاتا تھا۔

ان سب چیزوں کی وجہ سے لالہ عثمانی نے یہ مہم شروع کی۔ تین سال کی انتھک جدوجہد کے بعد 2020 ء میں افغان حکومت نے سر کاری دستاویز پر لڑکیوں کے نام کو درج کرنے کی اجازت دے دی ہے ،ان کا کہنا ہے کہ ’’ہر انسان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کی کوشش کرے‘‘۔ تبدیلی لانا مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ۔اس کی مثال ہم عورتیں ہیں ،جنہوں نے افغانستان جیسے ملک میں اپنی شناخت حاصل کرنے کے لیے لڑائی لڑی اور آخر کار کام یابی حاصل کرلی ۔

سارہ ال امیری

بی بی سی کی فہرست میں ایک اور بااثر نام سارہ ال امیری کا ہے جو متحدہ عرب امارات کی ٹیکنالوجی کی وزیر ہیں اور امارات کی خلائی ایجنسی کا حصہ ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ امارات کے خلائی مشن کی ڈپٹی پروجیکٹ مینیجر بھی ہیں ۔جو عرب دنیا کا پہلا خلائی مشن ہوگا ۔

پہلی پہلی بار

ریما ڈوڈین ،وائٹ ہائوس کی ڈپٹی ڈائریکٹر

امریکا میں پہلی مرتبہ فلسطین سے تعلق رکھنے والی مسلم خاتون’’ ریما ڈوڈین‘‘ جنوری 2021ءمیں وائٹ ہاؤس کی قانون سازی کے امور کی ڈپٹی ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھالیں گی۔ ریما ڈوڈین جو بائیڈن کے قانونی امور کی دو رکنی ٹیم میں شامل ہیں اور وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی فلسطینی نژاد مسلم خاتون ہیں۔

ڈوڈن اس وقت ڈیموکریٹک ڈک ڈربن سینیٹ کی ڈپٹی چیف آف اسٹاف اور فلور ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔قبل ازیں ریما ڈوڈین سینیٹر ڈوربن کی فلور کونسل اور ریسرچ ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتی رہی ہیں۔وہ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ،بار کلے اور یونیورسٹی آف ایلانوائے سے فارغ التحصیل ہیں۔

آصفہ اختر، جرمن سائنس داں

پاکستانی نژاد جرمن ماہر جینیات آصفہ اختر2020 ء میں جرمنی کی مشہور میکس پلانک یونیورسٹی کے شعبہ حیاتیات اور طب کی نائب صدر منتخب ہوئیں ۔وہ سوسائٹی کی تاریخ میں اس مقام تک پہنچنے والی پہلی خاتون ہیں۔ کروموسوم اور ایپی جنیٹکس ان کا خاص شعبہ ہے ۔نائب صد ر کے اعزاز کے بعد وہ سوسائٹی کے زیر اہتمام 27 اداروں اور 7 تحقیقی تجربہ گاہوں کا انتظام بھی سنبھا لیں گی۔

قبل ازیں آصفہ کو 1652 ءمیں جرمنی کی سب سے قدیم سائنسی اکادمی کی رکنیت سے بھی نوازا گیا۔ اس وقت وہ ’’سیل سائنس ‘‘ نامی تحقیق جرنل کی مدیر بھی ہیں ۔آصفہ 2013 ءسے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ آف امیونولوجی اینڈ ایپی جنیٹکس کی سربراہ بھی ہیں۔ انہوں نے ڈی این اے سے ہٹ کر بھی جین پر اثر ڈالنے والے عوامل پر غور کیا جو ایپی جنیٹکس کی بنیاد ہیں۔

مشہورِ زمانہ پھل مکھی یا ڈروسوفیلا ماڈلنگ میں انہوں نے ایکس کروموسومز کو سمجھا ہے۔ 2019 ءمیں آصفہ نے ایک مقالہ لکھا ،جس میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح بعض خامرے (اینزائم) جینوم کو جوڑے رکھتے ہیں اور اس شعبے کے سائنس دانوں نے اسے بہت سراہا۔ان کا دوسرا اہم کام کروماٹِن پر ہے جو ڈی این اے اور پروٹین سے بنی ایک شے اور خلیے کے مرکزے (نیوکلیئس) میں کوموسوم کی تشکیل کرتا ہے۔ اس تحقیق پر انہیں فیلڈبرگ انعام دیا گیا جو ہرسال صرف ایک ہی ماہر کو ملتا ہے۔

مس کاٹیر ینا کیلا روپولویونان کی پہلی خاتون صدر

63 سالہ مس کاٹیر ینا کیلا روپولو2020ء میں ملک کی تاریخ کی پہلی خاتون صدر بنیں ۔ یہ سینئر جج بھی رہ چکی ہیں ۔انہوں نے پیرس کی سوبورن یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویٹ کیا ہے ۔ایک ماہر قانون کی حیثیت سے ماحولیاتی معاملا ت اور آئینی قوانین پر ان کو خصوصی مہارت حاصل ہے ۔صدر ہونے کے ساتھ کمانڈر اِن چیف کا عہدہ بھی ان کے پاس ہے۔

اپوزیشن پارٹیوں نے نومنتخب صد ر کی حمایت کی ،یہی وجہ ہے کہ انہیں ملک کی پارلیمانی تاریخ میں بھر پور مینڈیٹ ملا ہے ،نیز اور کسی سیاسی پارٹی سے تعلق نہ رکھنے کی بنیاد پر بھی زیادہ تعداد میں حمایت بھی حاصل ہوئی ہے ۔انہوں نے مارچ 2020ء میں صدارت کا حلف اُٹھا یا ہے۔

ٹرمپ کو تگنی کا ناچ نچانے والی خواتین

الہان عمر

2020 ء میں امریکا کی ایوان نمائندگان کی رکن منتخب الہان عمر نے اپنے حلقے منی سوٹا ڈسٹرکٹ سے 2 لاکھ 52 ہزار 939 ووٹ حاصل کرکے کام یابی حاصل کی یہ دوسری بار منتخب ہوئی ہیں ۔انہوں نے اپنا بچپن کینیا کے تارکین وطن کیمپ میں گزارا ۔ان کا خاندان صومالیہ سے نقل مکانی کرکے کینیا آیاتھا ۔بعدازں الہان امریکی ریاست منیسو ٹا گئیں،جہاں انہوںنے2018 ء میں پہلی بار مسلمان اراکین کانگریس منتخب ہوکر تاریخ رقم کی تھی ۔

2018 ء میں کام یابی حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ میری یہ فتح اُس آٹھ سالہ بچی کے نام ہےجو تارکین وطن کے کیمپ میں تھی، یہ جیت ہر اس لڑکی کے لیے جسے خواب دیکھنے سے روکا گیا تھا ۔2019 ءمیں الہان عمر نے جارجیا کےنمائندے جان لوئس کے ساتھ مل کرایک قرار داد پیش کی تھی کہ، تمام امریکیوں کو ملک کے اندر اور باہر انسانی اور شہری حقوق ملنےچاہیے۔

انہوں نے تمام امریکیوں کے لیے طب کی سہولیات کی بھی حمایت کی ۔ان کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے ۔2016ء میں وہ پہلی صومالی امریکن قانون ساز بھی تھیں ۔قدامت پسند الہان عمر کے اسرائیل سے متعلق موقف پر تنقید کرتے ہوئے ان پر یہودی دشمنی کا الزام بھی لگا یا گیا ۔اس کے علاوہ ان کو اپنی جماعت کی جانب سے بھی امریکی اور اسرائیل کے تعلقات پر چند بیانا ت کی بناء پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔

الہان عمر کوسابق امریکی صدڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلسل لفظی حملوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ایک رپورٹ کے مطابق تقریبا ً48 فی صد امریکی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران الہان عمر کو امتیازی سلوک کا سامنا کرناپڑا ،جب کہ 74 فی صد نے کہا کہ ان کے ساتھ صدر ٹر مپ کا رویہ دوستانہ نہیں ہے۔

راشدہ طلیب

راشدہ طلیب 2020 ء میں دوبارہ ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹروئٹ سے ایوان نمائندگان کی رکن منتخب ہوئی ہیں ۔ان کے والدین فلسطینی پنا ہ گزیں کی حیثیت سے امریکا آئے تھے ۔ چودہ بہن بھائیوں میں یہ سب سے بڑی ہیں ۔46 سالہ راشدہ نے ابتدائی تعلیم اپنے شہر کے پبلک اسکول سے حاصل کی اور پھر ویسٹرن مشی گن یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی ۔ان کا مقصد اپنے حلقے مشی گن میں رہنے والوں کویہ احساس دلانا تھا کہ کوئی ہے جو ان کے حق کے لیے آواز بلند کرسکتا ہے، ان کی لڑائی لڑ سکتا ہے ۔خواہ میں رِنگ سے باہر رہوں یا اس میںاتر کر لڑائی لڑو ں ۔قبل ازیں 2008ء میں ریاست مشی گن کی اسمبلی کی پہلی مسلمان رکن منتخب ہوئیں۔

اس اسمبلی میں انہوں نے مفت ہیلتھ کلینک اور ریاست کے معمر شہریوں کو کھانے کی فراہمی کے لیے ’’میلز آن ویلز ‘‘ نامی پروگرام کا آغاز کیا ۔2018 ء میں پہلی مسلمان اراکین کانگریس منتخب ہوکر تاریخ رقم کی ۔ان کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے ۔انہوںنے اپنے حلقے مشن گن ڈسٹرکٹ 13 سے 66 فی صد ووٹ حاصل کرکے کا م یابی اپنے نام کی ہے۔ان کو سابق امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مسلسل ناروا رویہ کا سامنا کرنا پڑا ۔

آیانا پریسلی

امریکی کانگریس 2020ءکے ایوان نمائندگان میں شامل ہونے والی چار خواتین میں آیانا پریسلی کا نام بھی شامل ہے ۔ان کی پیدائش اوہایو میں ہوئی ،جب کہ پرورش شکاگو میں ہوئی۔

بوسٹن یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد 2009 میں وہ بوسٹن سٹی کونسل کے لیے منتخب ہوئیں۔پریسلی بوسٹن سٹی کونسل کی 100 سال کی تاریخ میں منتخب ہونے والی وہ پہلی سیاہ فام خاتون تھیں۔ جہاں انہوں نے گھریلو تشدد، بچوں کے ساتھ زیادتی اور انسانی اسمگلِنگ جیسے مسائل پر کام کیا۔

الیگزینڈریا اوکاسیو۔ کورٹیز

2020ء امریکی ایوان نمائندگان کی رکن منتخب ہونے والی چار خواتین میں الیگز ینڈر یا اوکا سیو -کورٹیز کا نام بھی شامل ہے ۔یہ 1989 ء میں نیو یارک میں پیدا ہوئیں۔ 2011 ءمیں بوسٹن یونیورسٹی سے انٹر نیشنل ریلیشن اور اکنامکس کی ڈگری لینے کے بعد اپنی ماں کی مدد کے لیے انہوں نے بار ٹینڈر کے طور پر کام کیا۔2016 کے پرائمری الیکشن کے دوران انہوں نے برنی سینڈرز کی انتخابی مہم میں بھی کام کیا۔

اس دوران انہوں نے پورے ملک کا دورہ کیا اور انہیں اپنے ملک اور کمیونٹی کے لیے کام کرنے کی تحریک ملی۔2018 ء کے وسط مدتی انتخابات میں جو کرولی کو شکست دے کر انہوں نے سب کو حیران کر دیا ۔انہیں میڈیا کی اس قدر توجہ ملی کہ انہیں ڈیموکریٹ پارٹی کا چہرہ کہا جانے لگا۔

امریکا میں خاموش انقلاب
سینئر کمیونی کیشنز اسٹاف کی 7 نام زد خواتین

کچھ انقلاب خاموشی سے بھی رونما ہوجاتے ہیں۔ اتنی خاموشی سے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انقلاب آیا ہی نہیں۔ اس ضمن میں ایک انقلاب رواں سال امریکا میں بھی آیا۔ ایسا خاموش انقلاب کبھی دیکھا نہ سنا۔ نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس نے وائٹ ہائوس کے لیے سینئر کمیونی کیشنز اسٹاف کی جو ٹیم نام زد کی ہے، وہ تمام کی تمام عورتوں پر مشتمل ہے۔

اب وائٹ ہائوس کی ترجمان سینئرٹیم میں کوئی مرد شامل نہیں ہے۔ان سات عورتوں کی پروفائل متاثر کن ہے ،انہوںنے کمیونی کیشن کے شعبے میں نمایاں کام یابیاں حاصل کی ہیں ۔کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دور ایسا بھی آئے گا جب دنیا کے سب سے طاقت ور دفتر کی تر جمانی اور تعلقات ِعامہ کے ذریعے نیک نامی میں اضافے کی ذمہ داری عورتیں سنبھالیں گی ۔ان میں سے ہر ایک کا ماضی متاثر کن ہے وہ انتھک محنت اور کار کردگی کے بعد اس مقام پر پہنچنی ہیں ۔

1-الزبتھ ای الیگزینڈر،فرسٹ لیڈی کمیونی کیشن ڈائریکٹر

الزبتھ ای الیگزینڈر بائیڈن ہیرس کی مہم کی سینئر مشیر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں گی ۔انہوں نے سابق امریکی صدر اوباما کے دور میں بائیڈن ایڈمنسٹریشن میں کام کیا۔ بعدازاں یہ بائیڈن کمیونی کیشن ڈائریکٹر کیپٹول ہل کی سینیٹر مقرر ہوئیں۔ الیگزینڈر واشنگٹن ڈی سی اور الیگزینڈریا میں فیڈرل پروسکیوٹر کے طور پر بھی اپنے فرائض انجام دی چکی ہیں ۔

علاوہ ازیں انہوں نے یونائیٹڈ نیشنل فائونڈیشن کی پریس سیکرٹری کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ بائیڈن ہیرس مہم میں شامل ہونے سے پہلےایف ٹی آئی کنسلٹنگ میں سینئر مینیجنگ ڈائریکٹر بھی تھیں ۔ انہوں نے ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی سے گریجویٹ کیا ہے ۔

2۔کیٹ بیڈنگ فیلڈ ،وائٹ ہائوس کیمونی کیشن ڈائریکٹر

کیٹ بیڈنگ فیلڈ بائیڈ ن ہیرس مہم میں مینیجر اینڈ کمیونی کیشن ڈائر یکٹر کے ساتھ ڈپٹی ڈائریکٹر ذرائع ابلاغ امور کا عہدہ بھی سنبھالیں گی۔وہ2008 ء میں بیڈنگ سینیٹ مہم ڈپٹی نیشنل پریس سیکرٹری رہ چکی ہیں ۔علاوہ ازیںانہوں نے کارپوریٹ کمیونی کیشن ،موشن ایسوسی ایشن آف امریکا کی ترجمان خواتین اور نائب صدر کے طور پر بھی اپنی خدمات انجام دی ہیں۔انہوں نے ورجینیا یونیورسٹی سے گریجویٹ کیا ہے ۔

3۔ایشلےایٹین، نائب صد رکمیو نی کیشن ڈائریکٹر

بائیڈن ہیر س مہم میں ایشلے ایٹین سینئر مشیر کے طور پر کام کریں گی ۔قبل ازیں نینسی پلوسی ہائوس کی کمیونی کیشن ڈائریکٹر اور اسپیکر کی سینئر مشیر ،ایٹین امریکی سابق صدر اوباما ۔بائیڈن میں صدر اور ڈائریکٹر آف کمیونی کیشن کی معاون خصوصی تھیں ۔اوباما کے دورِحکومت میں یہ ڈپٹی کمیونی کیشن ڈائریکٹر اور ترجمان رہیں ۔انہوںنے سیم ہیوسٹن یونیورسٹی سے گریجویٹ کیا ہے ۔

4۔کیرین جین پیئر ،پرنسپل ڈپٹی پریس سیکرٹری

کیرین جین پیئر چیف وائٹ ہائوس آفس کےسیاسی امور کے لیے ریجنل پولی ٹیکل ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں گی ۔اس سے قبل یہ امریکی صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کی سینئر مشیر رہ چکی ہیں ۔ امریکی سابق صد ر اوباما کے دور میں جنوبی مشرق ریجنل پولی ٹیکل ڈائریکٹر اورنیویارک سٹی کونسل کی قانون ساز ڈائریکٹر اور بجٹ امور کی ڈپٹی چیف آف اسٹاف بھی تھیں ۔جین پیئر نے کولمبیا یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ہے ۔

5۔جین یسکی،وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری

جین پسکی جائیڈن مہم میں وائٹ ہائوس پریس سیکرٹری کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں گی ۔اس سے پہلے اوباماکے دور میں وائٹ ہائوس کی کمیونی کیشن ڈائریکٹر اورڈپٹی وائٹ ہائوس سیکرٹری رہ چکی ہیں۔پسکی امریکا کے تین سابق صدر کی ٹریولنگ پریس سیکرٹری تھیں ۔کارنیگی وقف کی کمیونی کیشن اور حکمت عملی کے لیے نائب صدر کے طور پر کام کیا۔پسکی نے کالج آف ولیم اینڈ میری سے گریجویٹ کیا ہے۔

6۔سیمون سینڈرز،نائب صدرسینئر مشیر اور چیف ترجمان

بائیڈن ہیرس مہم میں نائب صدر کی مشیر اور ترجمان کے عہدہ پر فائز کی گئی ہیں ۔2016 ء میں سب سے کم عمر صدر پریس سیکرٹری ہونے کا اعزاز بھی اپنے نام کرچکی ہیں ۔بائیڈن کا حصہ بننے سے پہلے سینڈر سی این این سیاسی مبصر تھیں اور 360 گروپس کی پرنسپل بھی رہ چکی ہیں ۔انہوں نے کرائٹن یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ہے ۔

7۔پیلی ٹوبر،وائٹ ہائوس ڈپٹی کمیونی کیشن ڈائریکٹر

بائیڈن مہم میں کمیونی کیشن ڈپٹی ڈائریکٹر کی خدمات انجام دیں گی۔ اس مہم کا حصہ بننے سے قبل یہ ڈپٹی ڈائریکٹر فار امریکی آواز کےطور پر کام کررہی تھیں ۔یہ سینیٹ اقلیت لیڈر چارلیس ای سیچومر کی میڈیا ڈائریکٹر تھیں ۔ٹوبر نے میامی یونیورسٹی سے گریجویٹ کیا ہے ۔