وبائی امراض کی صورت میں ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟

January 01, 2021

مولانا نعمان نعیم

(مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ)

اسلام ایک ہمہ گیر ضابطۂ حیات اور عالمی دستور زندگی ہے ،جو زندگی کے تمام شعبوں میں انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے، اچھائی کا حکم دیتااور برائی سے روکتا ہے، یہ حلال و پاکیزہ غذاؤں کے استعمال اور حرام و ناپاک چیزوں سے اجتناب کی تلقین کرتا ہے، لوگوں کے ساتھ اخوت و ہمدردی اور بھلائی کا حکم کرتا ہے اور ہر ایک کے ساتھ خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، مدد کرنے کو ثواب قرار دیتا ہے، گویا زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو اسلامی تعلیمات سے تشنہ اور خالی ہو۔

اس وقت عالمی سطح پر کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی کا چرچاہے ،اس وائرس سے متاثرین کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی ہے۔پاکستان میں بھی اس وائرس سے متاثرین کی تعدادروز بروز بڑھ رہی ہے اورہزاروں اموات بھی ہوچکی ہیں،اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ یہ ایک وبائی مرض ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ڈاکٹروں کی تحقیق یہ ہے کہ یہ بیماری متعدی ہے اور اس کی کچھ علامات ہیں جس سے یہ بیماری دوسروں میں منتقل ہوسکتی ہے ۔

اس وبا اور بیماری میں دنیا کی عظیم طاقتوں کے لیے ایک عبرت ونصیحت ہے، انہیں تکبر بالکل زیب نہیں ہوتا، روئے زمین در حقیقت ایک خالق ومالک کی ہے، جس کے قبضۂ قدرت میں اس کا سارا نظام ہے، جوصبح وشام کو پیدا کرتا ہے، سورج وچاند کو نکالتا ہے ، موسموں کو تبدیل کرتا ہے ، زمین سے غلہ نکالتا ہے، آسمان سے پانی کو برساتا ہے،اسی پروردگار کو خدائی کا دعویٰ زیب دیتا ہے اور اسی کی جانب رجوع کرنا بندگی کا شیوہ ہے۔

اسلام ہمیں تمام شعبۂ حیات کی طرح مرض اور وبا میں بھی رہنمائی اور صحیح ہدایات دیتا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ اور اصول یہ ہےکہ تمام بیماری اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔دنیا کے اندر جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اللہ تعالیٰ کی منشا اور حکم سے ہو رہا ہے۔ اللہ کے حکم کے بغیر ایک پتہ بھی حرکت نہیں کرسکتا اور جب کوئی بیمار پڑتا ہے تو شفا دینے والی ذات اللہ ہی کی ہے ارشادِ ربانی ہے:’’جب میں بیمار ہوجاتا ہوں تو اللہ ہی شفا دیتا ہے۔

حضرت کعب بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ جب دنیا میں زنا کاری، بدکاری اور حرام کاری عام ہوجاتی ہے اور انسان اپنی حدوں کو پار کرکے خود کو ’’ اَنَا رَبُّکُمُ الۡاَعۡلیٰ‘‘ تصور کرنے لگتا ہے اور نافرمانی عام ہوجاتی ہے جب چھوٹوں پر ظلم، بڑوں کی بے حرمتی ہونے لگتی ہے، والدین کے ساتھ کھلے عام بدسلوکی اور وحشیانہ برتاؤ ہونے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑک اٹھتا ہے اور لوگوں پر مختلف طریقوں سے مصیبت و آفت اور عذاب کا نزول ہونے لگتاہے۔

دنیا کے اندر مرض کی بہت سی نوعیتیں اور قسمیں ہیں، لیکن کوئی بھی مرض مؤثر بالذات نہیں ،بلکہ اصل مؤثر بالذات خداوند قدوس ہے۔وائرس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے ،شریعت نے اس کی ہدایت دی ہے ، تاہم اس سے خوف اور دہشت میں آنے کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ خوف و دہشت سے بڑاکوئی وائرس نہیں۔ بہت سے لوگ جو اس میں بیماری میں مبتلا نہیں ہیں، لیکن خوف نے ان پر دبیز چادر تان لی ہے ، وہ کورونا سے زائد مہلک بیماری میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ بعض مرتبہ نفسیاتی خوف ایک مہلک بیماری بن جاتا ہے۔

اس لیے خوف و ہراس سے بڑا کوئی مہلک مرض نہیں ہے ۔ مسلمانوں کے پاس عقیدے کی اتنی مضبوط طاقت ہے جس کے ذریعے وہ اپنے پاس آنے والے خوف کو ختم کرسکتے ہیں ۔ ایک مسلمان کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ موت کا ایک وقت متعین ہے جس سے پہلے کسی کی موت نہیں ہوسکتی اور اگر موت کا وقت آجائے تو کوئی اسے ٹال نہیں سکتا ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اسے بہت واضح اندازمیں بیان کیا ہے۔جب موت کا وقت آجاتا ہے تو ایک لمحے کے لیے آگے پیچھے نہیں ہوتا ۔(سورۂ نحل ۶۱)

ایک مسلمان کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کونقصان پہچانا چاہے توپوری دنیا مل کر اسے نفع نہیں پہنچاسکتی اور اگر اللہ تعالیٰ کسی کو نفع پہنچا نا چاہے تو پوری دنیا مل کر اسے نقصان نہیں پہنچاسکتی ۔

آپ ﷺ نے ہمیں یہ دعا سکھلائی ہے: اے اللہ ،جسے آپ کوئی نعمت دینا چاہیں تو کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے آپ روک دیں تو کوئی اسے دے نہیں سکتا اورمال والوں کو ان کی مال داری نفع نہیں پہنچاتی ۔(صحیح بخاری ،حدیث نمبر ۸۴۴)ایک مسلمان کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ بیماری دینے والی ذات اللہ کی ہے اور شفاء دینے والی ذات بھی اللہ کی ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ بیماری اور دواء کے درمیان ایک پردہ حائل ہوتا ہے، جب اللہ کاحکم شفاء کا ہوتا ہے تو وہ درمیانی پردہ زائل ہوجاتا ہے اور دوا کارگر ہوجاتی ہے اور مریض شفاء پاجاتا ہے ۔(مرقاۃ المفاتیح ،کتاب الطب والرقی۷/۶۱۲۸)

شریعت نے ا حتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور ان احتیاطی تدابیر پر جس حد تک عمل ممکن ہو، کرنا چاہیے ، طاعون کے سلسلے میں اسلام کی ہدایت ہے، آپ ﷺ کا ارشاد ہے : جس علاقے میں طاعون پھیلا ہو ،لوگ وہاں نہ جائیں اور وہاں کے لوگ وہاں سے نہ نکلیں، بلکہ صبر کرکے انہی علاقوں میں رہیں،اگر موت مقدر ہوگئی تو شہادت کی موت ہوگی، وہاں سے نکلنا موت سے فرار اختیار کرنے کے مترادف ہے، جب کہ اگر کسی کی موت کا وقت آگیاہے تو وہ موت سے بھاگ نہیں سکتا ۔ (مسند احمد حدیث نمبر :۱۴۹۱)قرآن ِ کریم میں ارشاد ہے : تم جہاں کہیں بھی رہو، موت تمہیں آپکڑے گی ،اگر چہ تم مضبوط قلعوں میں بند ہوجائو ۔(سورۃ النساء ۷۷) دوسرے لوگوں کو وہاں جانے سے اس لیے منع کیا کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو ، اور جہاں وبائی امراض پھیلے ہیں، وہاں جانا گویا کہ اپنے آپ کو ہلاکت کے قریب کرنا ہے۔

اس نقطۂ نظر سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وبائی امراض متعدی ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے وبائی امراض زدہ علاقو ں میں جانے سے منع کیا گیا ۔ آج جو بہت سے ملکوں میںلاک ڈاؤن کیا گیا ہے کہ کوئی دوسرے ملکوں سے نہ آئے اور اس ملک کا کوئی باہر نہ جائے تو یہ درحقیقت اسلام کا ہی نظریہ ہے جو اسلام نے چودہ سو سال پہلے وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے پیش کیا تھا، اگر حالات اس قدر خراب ہوجائیں اوروبائی امراض اس قدر پھیل جائیں تو لاک ڈاؤن کیا جاسکتا ہے، یہ اسلام کی تعلیمات کے عین موافق ہے ۔

وبائی امراض یا وائرس کا پھیلنا ایک قسم کا عذاب خداوندی ہے، اس سے نہ صرف لوگوں کی موت واقع ہورہی ہے، بلکہ دنیا بالکل سمٹ سی گئی ہے ، معیشت کا بہت بڑا نقصان ہورہا ہے ، چیزیں بہت سے علاقوں میں مہنگی ہوگئی ہیں جس سے عام لوگ تکلیف میں مبتلا ہیں، ظاہر ہے کہ یہ سب عام لوگوں کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہے، اس لیے بحیثیت مسلمان ، ایک عالمی و آفاقی امت ہونے کے ناتے ہمیں آپ ﷺ نے جو تعلیمات دی ہیں، انہیں بروئے کار لاکر اس سے نجات پانے کی سعی و کوشش کرنی چاہیے ، آپ ﷺ کا یہ معمول تھا کہ جب بھی کوئی مصیبت اور پریشانی آتی ، آندھی طوفان کی شکل میں ہو یا آفات و بلیات کی شکل میں آپﷺ مسجد کی طرف جاتے اور مسجد میں حضرات صحابہؓ کو جمع کر تے ،نماز اور دعا کی تلقین فرماتے، حضرات صحابہؓ کی زندگی میں بھی یہ چیز بہت اہمیت کے ساتھ ملتی ہے(سنن ابو داؤد حدیث نمبر :۱۱۹۶) اس لیے آج جب کہ دنیا میں کورونا وائرس کی دہشت ہے، مسلمانوں کو نماز او ردعاؤں کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔

صدقہ و خیرات رب کے غضب اور بلاکو ٹالتے ہیں ،اس لیے صدقہ و خیرات کا اہتمام کرناچاہیے ۔بیماری کے حملہ آور ہونے میں گندگی کو بہت دخل ہے۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر صفائی ستھرائی کا خاص خیال کرنا بہت ضروری ہے ،عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جو رپورٹ شائع کی گئی ہے، اس کے مطابق وائرس ایک شخص کے ہاتھ یا منہ کے ذریعے دوسرے شخص کے اندر منتقل ہوتا ہے، اس لیے اس موقع پر کثرت سے ہاتھ دھونا چاہیے اور پرہجوم جگہوں سے دور رہنا ،ماسک استعمال کرنا ،لوگوں سے مصافحہ کرنے سے وقتی تقاضے کے تحت رکناچاہیے ۔

دنیا میں اللہ عزوجل کا یہ قانون ہے کہ اس نے سارے انسانوں کو یکساں اور ایک رتبے کا حامل نہیں بنایا، لوگوں کو مختلف درجوں اور مراتب کا حامل بنایا ہے ، یہ اس لیے نہیں کہ بڑا انسان چھوٹے انسان پر ظلم کرے ، اس پراپنی طاقت اور انانیت کا مظاہر ہ کرے ، اسے ناحق ستائے، اس پر ستمگری کرے، اس مجبوروناتواں انسان کو ناکردہ جرم کی سزا دے، اپنے نشہ قوت میں مست ہو کر بدمست ہاتھی کی طرح سارے انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح روندتا پھرے، ارض خدا میں اپنی سلطنت اور خدائی کا دعوی کرے، خلق اللہ جو عیال اللہ (اللہ کا کنبہ ) ہے ، اس پر ظلم روا رکھے، بلکہ یہ اونچ نیچ ، یہ نشیب وفراز، یہ دولت وثروت، مراتب ودرجات کا تفاوت صرف اس لیے ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے کام آئے ، جسے اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں یوں ارشاد فرمایا: اور ہم نے بعض کو بعض پر درجات کے اعتبار سے فوقیت دی ہے، تاکہ ان میں سے ایک دوسرے سے کام لیتا رہے۔(الزخرف:۳۲)

اس لیے کسی بھی انسان کو بحیثیت انسان ہونے کے دوسرے انسان،بلکہ جانور پر بھی ناحق ظلم کرنا درست نہیں ، اللہ عزوجل نے حدیث قدسی میں فرمایا ہے : ’’اے میرے بندو! میں نے ظلم کرنے کو اپنی ذات پر حرام کیا ہے ، تم بھی ظلم کو اپنے اوپر حرام کر لو، کسی پر ظلم نہ کرو۔(صحیح مسلم) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مظلوم کی بددعا سے بچو! اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو، کیوں کہ اس کی بددعا اور اللہ کے درمیان کوئی آڑنہیں ہوتی۔(صحیح بخاری)