آوارہ

January 04, 2021

حاجی نعیم صاحب کا جواب سن کر میرا منہ کھلے کاکھلا رہ گیا۔ یوں لگا جیسے میرے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ہے۔ میں نے دوبارہ پوچھا’’حاجی صاحب کیا کہا آپ نے؟‘‘۔ حاجی صاحب نے مکمل اطمینان سے وہی جواب دیا’’میں راشد کو بدمعاش بنانا چاہتا ہوں‘‘۔ میں نے بے اختیار اپنی کنپٹی کھجائی۔ حاجی صاحب کو میں 20 سال سے جانتا ہوں۔ انتہائی ڈیسنٹ انسان ہیں۔ریٹائرڈ بینک آفیسر ہیں۔ نہایت خوش لباس ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت شریف بھی ہیں۔ ہمیشہ سے تعلیم کے حق میں رہے ہیں۔ ماشاء اللہ چار بیٹوں کے باپ ہیں۔ بڑا بیٹالندن میں انجینئر ہے، دوسرا امریکہ میں ڈاکٹر ہے اور تیسرا کینیڈا میں پائلٹ ہے جبکہ چوتھا بیٹا راشد پاکستان میں ہی حاجی صاحب کے ساتھ رہتا ہے اورسیکنڈ ایئر کا سٹوڈنٹ ہے۔راشدپڑھائی میں کچھ زیادہ اچھا نہیں۔ زیادہ تر موٹر سائیکل پر آوارہ دوستوں کے ساتھ گھومتا رہتا ہے۔ دو تین دفعہ حوالات کی بھی سیر کرچکا ہے۔ پتا نہیں کیوں حاجی صاحب اس کے بارے میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی پہلو تہی کرجاتے ہیں؟ آج اتفاقاً حاجی صاحب سے ملاقات ہوگئی تو میں نے پوچھ ہی لیا کہ آپ راشد کو کیابنانا چاہتے ہیں؟ حاجی صاحب کا جواب میرے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھا۔ بے اختیار ہنس پڑےاور کہا’’یار اُس کی بدمعاشی کی وجہ سے میرے بہت سارے مسئلے خودبخود حل ہوگئے ہیں، ویسے بھی کم بخت ہے تو آوارہ لیکن سستے جذبات اُس میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں‘‘۔ میں نے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا’’کیا مطلب؟‘‘۔حاجی صاحب دوبارہ ہنسے’’ دیکھو! میں تو ٹھہرا بزدلی کی حد تک شریف انسان، بجلی کا پورا پورا بل بھرنے کے باوجود جب لائن مین مجھ سے آکر مشکوک انداز میں کہتا تھا کہ آپ کا میٹر کیوں آہستہ چلتا ہے ؟ تو میں خوفزدہ ہوجاتاتھا۔اِس پر لائن مین اور زیادہ شیر ہوجاتا تھا اوردھمکی دیتا تھا کہ اگر اسے کچھ پیسے نہ دیے گئے تو وہ اوپر شکایت لگا دے گا جس کے نتیجے میں نہ صرف میٹر کٹ جائے گا بلکہ لاکھوں روپے کا جرمانہ بھی بھرنا ہوگا۔میں ہر دفعہ اسے بلاوجہ خوش کرنے کے لیے دو ہزار دے دیا کرتا تھا۔ اس بات کی خبر میرے چھوٹے بیٹے راشد کو ہوئی تو اُس نے اپنے انداز سے لائن مین سے بات کی۔ فائدہ یہ ہوا کہ لائن مین خوفزدہ ہوگیا اور اب جب بھی آمنا سامنا ہو تو سلام لے کر چپکے سے نکل جاتاہے۔

پڑھی لکھی اولاد ماں باپ کا فخر تو ہوتی ہے لیکن بعض اوقات ماں باپ کے کسی کام کی نہیں رہتی۔‘‘ حاجی صاحب نے گہری سانس لی ، جیب سے مڑا تڑا ٹشو پیپر نکال کرآنکھوں کے گوشے صاف کیے اور ٹشو پیپر دوبارہ مٹھی میں جکڑ لیا’’مجھے احساس ہے کہ میرے یہ جملے سراسر خود غرضی کے زمرے میں آتے ہیں لیکن میں چاہتا ہوں راشد ان پڑھ رہے۔ وہ لفنگا اور آوارہ تو ہے لیکن رات کو میرے پیر بھی دباتا ہے۔ کوئی بھی چیز چاہیے ہو تو جھٹ سے لادیتاہے۔ یہ بچپن سے ہی ایسا تھا۔اس کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا لیکن گھر کے سارے کام یہی کرتا تھا۔ جب اسکے تینوں بڑے بھائی تعلیم حاصل کررہے تھے اور کتابیں کھولے پڑھ رہے ہوتے تھے تو یہی سبزی لاتا تھا۔ بڑے بھائی اکیڈمیوں میں چلے جاتے تھے اور یہ تنور سے روٹیاں لانے کا فریضہ سرانجام دیتا تھا۔ میری گاڑی بھی یہی صاف کرتا تھا۔گھر کے چھت والے پنکھے بھی اسی نے صاف کیے۔اسے بڑے بڑے الفاظ نہیں آتے۔چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر مجھے حوصلہ دیتا ہے۔ فلمی انداز میں ڈائیلاگ مارتاہے کہ ابو میرے ہوتے ہوئے آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔میری دعا ہے کہ یہ سیکنڈ ایئر میں پھر فیل ہوجائے تاکہ نہ کبھی تعلیم حاصل کرے نہ ہمیں چھوڑ کر باہر جائے۔ پتا نہیں کیوں مجھے یقین ہے کہ یہ بدمعاش مرتے دم تک ہمارے ساتھ بھی رہے گا اورہمارے بڑھاپے کا سہارا بھی بنے گا۔تمہیں تو پتا ہے کہ میں سموکر ہوں لیکن بڑے بیٹے میری سگریٹ نوشی کے سخت خلاف تھے کہ میں گھر میں دھواں کیے رکھتاہوں۔ یہ خنزیر ایسا ہے کہ مجھے سگریٹ کی ڈبی لاکر دے تو میری طرف اچھال کر آنکھ بھی مارتاہے کہ ابو موجیں کریں…‘‘ حاجی صاحب بے اختیارزور سے ہنس پڑے اور مٹھی کھول کر ایک بار پھر گیلا ٹشو اپنی آنکھوں پر رکھ لیا۔