غیر معیاری اور مضرِ صحت ادویات کا کاروبار عروج پر!!

January 10, 2021

صحت کے شعبے کو انسانیت کی خدمت اور مسیحائی کا شعبہ سمجھا جاتا ہے، لیکن جب سے ہمارے معاشرے کو دولت کی ہوس نے جکڑا ہے، تب سے اس شعبے کو بھی چند کالی بھیڑوں نے کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے اور منافع کے لالچ میں یہ کالی بھیڑیں انسانی زندگیوں سے کھیلنے میں مصروف ہیں۔ جعلی و غیر معیاری ادویات کی فروخت ہو یا اتائی ڈاکٹرز کی جانب سے سادہ لوح شہریوں کو علاج معالجے کے نام پر ان کی زندگیوں سے کھیلنا ہو، یہ تمام چیزیں ایک سنگین جرم کے زمرے میں آتی ہیں۔

اتائی ڈاکٹرز، غیر معیاری جعلی ادویات، اسمگل شدہ اور غیر رجسٹرڈ کمپنیوں کی ادویات کی فروخت سمیت غیر قانونی میڈیکل اسٹوروں کےخلاف کارروائی کرنا حکومت اور محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے لیکن حیرت انگیز طور پر محکمہ صحت، ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ ڈرگ انسپکٹر نے اس سنگین جرم پر اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں۔یہ جرم انجام دینے والے رقم کی لالچ میں قیمتی انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں مگر متعلقہ انتظامیہ کی جانب سے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا جارہا ہے اور نہ ہی انسانی جانوں سے کھیلنے والے اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی کی جارہی ہے۔ متعلقہ اداروں کے ساتھ ساتھ ضلعی انتظامیہ نے بھی اس سنگین جرم سے چشم پوشی اختیار کررکھی ہے۔

موجودہ صوبائی حکومت کی جانب سے صحت کے شعبے کی بہتری کے لئے سندھ میں صحت ایمرجنسی بھی نافذ کی گئی تھی جس کا مقصد سرکاری سطح پر صحت کے شعبے میں بہتری لانا تھا مگر صحت ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود اس سنگین جرم کی روک تھام کے لئے کوئی بڑی کارروائی نہیں کی جاسکی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس گھناؤنے کاروبار کی روک تھام دکھائی نہیں دے رہی ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

آئے روز اتائی ڈاکٹروں کی غفلت و لاپروائی کے باعث مریضوں کی طبیعت خراب ہونے یا ان کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر سمیت گرد و نواح کے علاقوں میں صورتحال اس قدر خراب ہے کہ بڑی تعداد میں غیر قانونی طور پر میڈیکل اسٹور چلائے جارہے ہیں جبکہ اسپتالوں میں غریب مریضوں کے لئے آنے والی سرکاری ادویات بھی میڈیکل اسٹوروں پر فروخت کردی جاتی ہیں، خاص طور پر اسمگل شدہ اور ملکی و مقامی سطح پر بننے والی غیر رجسٹرڈ کمپنیوں کی ادویات کی فروخت سے مریضوں کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی ٹیکس کی مد میں بھاری نقصان پہنچ رہا ہے۔

ضلع سکھرصوبہ بلوچستان ، پنجاب اور سندھ کے درمیان ایک حب کی صورت رکھتا ہے۔ سکھر سندھ کا تیسرا بڑا شہر ہونے کی وجہ سے یہاں بڑے سرکاری اور نجی اسپتال بھی قائم ہیں جہاں نہ صرف ضلع سکھر بلکہ گھوٹکی، شکارپور، جیکب آباد اور بلوچستان کے مختلف اضلاع سے مریضوں کو علاج و معالجے کے لئے لایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ضلع سکھر میں میڈیکل اسٹوروں کی تعداد زیادہ ہے مگر میڈیکل اسٹور مالکان کی اکثریت قوانین پر عملدرآمد نہیں کرتی۔اکثر میڈیکل اسٹوروں کے پاس ریفریجریٹر تک موجود نہیں ہے، اور ایسی ادویات جو ریفریجریٹر میں رکھی جانی چاہیے وہ باہر رکھی ہوتی ہے جس سے ان کی افادیت کم ہوجاتی ہے۔

میڈیکل اسٹوروں پر حکومت کی جانب سے سرکاری اسپتالوں کو فراہم کی جانے والی ادویات، اسمگل شدہ ادویات، زائد المیعاد، غیر معیاری، جعلی اورغیر رجسٹرڈ کمپنیوں کی دوائیں فروخت کی جارہی ہیں جنہیں روکنے والا کوئی نہیں۔محکمہ صحت، ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ ڈرگ انسپکٹر کی جانب سے کوئی کارروائی سامنے نہیں آتی خاص طور پر میڈیکل اسٹوروں کو چیک کرنے والا ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ ڈرگ انسپکٹر کا شعبہ بڑی حد تک غیر فعال دکھائی دیتا ہے اور اس اہم ترین شعبے کی نہ صرف عدم توجہی بلکہ قوانین پر عملدرآمد نہ کرنے والے میڈیکل اسٹور کے مالکان کی سرپرستی دکھائی دیتی ہے، کیونکہ سکھر ضلع کو ڈویژنل ا ہیڈ کوارٹر کا درجہ حاصل ہے ، جہاں ڈویژنل سطح کے انتظامی اور محکمہ صحت کے افسران موجود ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر یہ سب کچھ ہورہاہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے۔ ادویات کی قانونی طور پر فروخت اور میڈیکل اسٹور قائم کرنے کے لئے محکمہ صحت کی جانب سے ایک لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔

اگر کوئی شخص میڈیکل اسٹور قائم کرنا چاہتا ہو تو وہ باقاعدہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کو درخواست دیتا ہے ۔درخواست دہندہ کیلئے یہ لازم ہے کہ اس کے پاس یا تو بی فارمیسی کی ڈگری ہو، یا ڈسپنسر کا کئی سالہ تجربہ ہو اور درخواست دہندہ کا گریجویٹ ہونا لازمی ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر درخواست دہندہ کی انکوائری کیلئے ڈرگ انسپکٹر کو متعین کرتا ہے جس کے بعد متعلقہ ڈرگ انسپکٹر تمام چھان بین کے بعد اپنی رپورٹ جاری کرتا ہے ،اس رپورٹ کی بنیاد پر ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی جانب سے میڈیکل اسٹور کھولنے کیلئے لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔ میڈیکل اسٹور کے لائسنس کیلئے ان تمام مراحل کا مطلب یہی ہے کہ جو لوگ ادویات کی فروخت کا کام انجام دینا چاہتے ہیں، انہیں ادویات کے بارے میں مکمل معلومات ہوں، ملکی اور غیر ملکی ادویات کا مکمل ادراک ہو تاکہ کسی بھی ڈاکٹر کی جانب سے مریض کو ادویات کیلئے نسخہ دیا جائے تو ادویات فروخت کرنے والا اس نسخے کے مطابق ادویات مریض کو دے سکے۔

سکھر شہر اور گرد و نواح کے علاقوں خاص طور پر دیہی علاقوں میں ایسے میڈیکل اسٹور ہیں جن کے پاس دواؤں کی فروخت کا سرکاری لائسنس موجود نہیں ہے جبکہ درجنوں ایسے میڈیکل اسٹور بھی ہیں جن کے لائسنس کی مدت ختم ہوچکی ہے اور انہوں نے اپنے لائسنس کی تجدید نہیں کرائی ہے، اور متعدد میڈیکل اسٹورمالکان ، اپنی اتائی ڈاکٹری بھی چلا رہے ہیں۔ ایسے میڈیکل اسٹور مالکان کو مبینہ طور پر ڈویژنل ڈرگ انسپکٹر، ڈسٹرکٹ ڈرگ انسپکٹر نے اجازت دے رکھی ہے کہ وہ کام کریں انہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ سکھر ضلع کے دیہی علاقوں میں قائم بعض میڈیکل اسٹور زائد المیعاد ادویات بھی فروخت کررہے ہیں جس کے استعمال سے عام طور پر مریضوں کو سخت نقصان سے دوچا ر ہونا پڑتا ہے۔

سکھر جو کہ ملک کے گرم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے یہاں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے اور بڑی تعداد میں شہر و گرد و نواح میں ایسے میڈیکل اسٹور ہیں جو تپتی دھوپ اور شدید گرمی میں بھی ٹمپرچر مینٹین کرنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کرتے اور ماہر ڈاکٹروں کے مطابق اگر دوا کو کمپنی کی جانب سے بتائے گئے درجہ حرارت میں نہیں رکھیں گے تو دوا کی افادیت پر منفی اثرات پڑیں گے اور اس کی افادیت 40 سے 50 فیصد تک کم ہو سکتی ہے لیکن حکومت اور متعلقہ اداروں کی اس جانب بھی کوئی خاص توجہ نہیں ہے۔

سکھرسمیت دیگر شہروں کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ صحت کے شعبے میں اس سنگین صورتحال پر صوبائی حکومت نے کبھی کوئی خاطر خواہ نوٹس نہیں لیا یہی وجہ ہے کہ انسانی جانوں سے کھیلنے والا یہ غیر قانونی کاروبار بڑھتا جارہا ہے اور عام لوگ بری طرح متاثر ہورہے ہیں جبکہ غیر ملکی اور غیر رجسٹرڈ ادویات کی غیر قانونی فروخت سے پاکستان میں ادویات بنانے والی کمپنیوں کو سخت نقصان سے دوچار ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت کو ٹیکس کی مد میں بھاری نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے محکمہ صحت کی بہتری کے لئے صحت ایمرجنسی نافذ بھی کی تھی لیکن حیرت انگیز طور پر اس کے ثمرات آج تک عوام تک نہیں پہنچ سکے۔ صحت کے شعبے میں بہتری تو اپنی جگہ، غیر قانونی طور پر انسانی جانوں سے کھیلنے والے اتائیوں، غیر معیاری، جعلی ادویات فروخت کرنے والوں کے خلاف بھی کوئی بڑی کارروائی دکھائی نہیں دی جس کے باعث اس گھناؤنے کاروبار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو کہ موجودہ حکومت کی صحت ایمرجنسی پر سوالیہ نشان ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ سندھ بھر میں خاص طور پر سکھر میں صحت کے شعبے کی بہتری کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں ، غیر قانونی طور پر ادویات کا کاروبار کرنے والے عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے اور ان کی سرپرستی کرنے والے متعلقہ افسران اور اہلکاروں کے خلاف بھی قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ صحت ایمرجنسی کے مثبت نتائج سامنے آسکیں اور صحت کے شعبے کو بہتر بنایا جاسکے۔