وہ لاہور کہیں کھو گیا

January 10, 2021

(گزشتہ سے پیوستہ)

اسی طرح کبھی قلعہ گوجر سنگھ کے قریب بھی ایک باغ تھا جو زین خاں کو کلتاش نے بنوایا تھا اور یہ فیض باغ کے نام سے معروف تھا، انار کلی کے مقبرے کے ساتھ بھی کبھی ایک باغ تھا۔ لاہور میں بے شمار باغات تھے جو قیام پاکستان کے بعد حکومتوں اور لوگوں کی وجہ سے مٹ گئے۔ وہاں لوگوں نے مکانات اور دکانیں بنالیں۔ چوبرجی باغ بھی کبھی وسیع و عریض تھا اور مقبرہ زیب النساء تک پھیلا ہوا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ یہ باغ بھی ختم ہو گیا۔ ہم نے جس زمانے میں مقبرہ زیب النساء دیکھا‘ اس وقت ملتان روڈ پر چوبرجی سے یہ مقبرہ نظر آتا تھا مگر اب یہ مقبرہ مکانوں اور لکڑی کا کاروبار کرنے والی دکانوں کے درمیان آ گیا ہے اور یہ دکانیں اس مقبرے کی طرف جانے والے راستے کو آہستہ آہستہ تنگ کر رہی ہیں، کسی دن یہ صرف ایک گلی رہ جائے گی۔ ہم ایک زمانے میں وہاں گئے تھے۔ چوبرجی کسی باغ کی ڈیوڑھی لگتی ہے جس طرح گلابی باغ کے باہر ایک ڈیوڑھی ہے اور کچھ عرصہ قبل ہم جب گلابی باغ دیکھنے گئے تو بڑی حیرت ہوئی کہ کئی مکانات کے دروازے اور کھڑکیاں گلابی باغ کی طرف کھلتی ہیں اور رات کو ان مکانوں کے مکین یہاں بیٹھ کر کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

جنرل ونتورہ کا مقبرہ ایک زمانے میں دور سے نظر آتا تھا۔ جب ہم نے دیکھا تھا‘ وہ کافی بلند مقبرہ تھا۔ لال اینٹ کا ہوتا تھا۔ اب اونچی اونچی عمارتوں میں چھپ گیا ہے اور اس کی حالت بھی اتنی اچھی نہیں۔ اُس وقت یہاں منشی چیمبرز اور دیگر عمارتیں نہیں تھیں۔ کئی برس قبل فرانسیسی سفارت خانے کے کچھ لوگ اور سفیر آئے تھے تو انہوں نے یہاں اس کے نام کی تختی نصب کر دی تھی۔ یہ مقبرہ پرانی انار کلی میں واقع قدیم ترین بیکری اور اگرتھلہ ہائوس کے قریب واقع ہے۔ آئندہ کسی کالم میں آپ کو جنرل ونتورہ کے بارے میں تفصیل سے بتائیں گے۔ کبھی یہاں بڑا وسیع باغ تھا جو حضرت موج دریا بخاریؒ کے مزار مبارک تک پھیلا ہوا تھا۔ حضرت موج دریا بخاریؒ اکبر بادشاہ کے دور میں لاہور تشریف لائے تھے۔ کبھی یہاں بھی ایک باغ تھا۔ انکم ٹیکس اور دیگردفاتر کی وجہ سے اس علاقے کی خوبصورتی ختم ہو گئی۔ پرانی انار کلی کسی زمانے میں کھانے پینے کی مختلف چیزوں کی وجہ سے بڑا مشہور تھا۔ کئی برس قبل یہاں فوڈ اسٹریٹ بھی تھی۔ حضرت موج دریا بخاریؒ بڑے صاحب کرامت بزرگ تھے، ان کے مزار مبارک میں کئی دیگر قبریں بھی موجود ہیں۔ پرانی انار کلی کے قریب کبھی جین مندر بھی تھا جس کو بابری مسجد کو شہید کرنے کے واقعہ کے ردِعمل میں لوگوں نے گرا دیا تھا اور شاہ عالمی کا مندر بھی گرا دیا تھا۔ لاہور میں کسی زمانے میں کئی مندر تھے۔ ان کا ذکر بھی کبھی کریں گے۔ جین مندر کے پاس سر گنگا رام کی کوٹھی آج بھی موجود ہے جہاں کبھی ہیلے کالج آف کامرس ہوا کرتا تھا‘ اب ہیلے کالج آف بینکنگ ہے۔ ہیلے کالج آف کامرس 90ء کی دہائی تک یہاں رہا۔ یہ کوٹھی ہم نے آج سے چالیس برس قبل دیکھی تھی۔ اس تاریخی کوٹھی کی آج تک پنجاب یونیورسٹی والے مرمت اور دیکھ بھال نہیں کر سکے۔ نہ اس تاریخی عمارت کے بارے میں کسی کو آج تک پتہ چل سکا ہے۔ اس طرح اس کے قریب جسٹس شادی لال کا محل بھی ہے۔ کیا محل ہے مگر افسوس اس کو بھی محفوظ رکھنے کے لئے کچھ نہیں کیا جا رہا۔ جسٹس شادی لال کا محل لٹن روڈ پر ہے۔ اس میں آج کل لڑکیوں کی فنی تعلیم کا ادارہ ہے۔ اس کے قریب تاریخی فرید کوٹ ہائوس بھی تھا۔ اس تاریخی عمارت کو بھی مسمار کر دیا گیا۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے لاہور کا پہلا سینما جس کو کبھی عزیر تھیٹر اور رائل ٹاکیز کا نام بھی دیا گیا تھا، پھر یہ پاکستان ٹاکیز بن گیا، اس تک کو محفوظ نہ رکھ پائے۔ پاکستان ٹاکیز کے قریباً سامنے ہی تانگوں کا اڈا تھا۔ یہ تانگوں کا اڈا 1985ء تک رہا۔ یہیں گھوڑوں کو پانی پلانے کا حوض بھی تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ یہاں دو طرح کے تانگے کھڑے ہوتے تھے۔ ایک تو وہ تانگے جن پر لاہور کارپوریشن کی ہدایت کے مطابق پیلا رنگ ہوتا تھا اور اوپر بڑا سا چھتا ہوتا تھا۔ جو خاکی رنگ کا ہوتا تھا جس میں بارش کا پانی نہیں آ سکتا تھا۔

دوسرے تانگے پرائیویٹ تانگے کہلاتے تھے۔ جو شوقین لوگوں کے لئے تھے اور مختلف رنگوں کے ہوتے تھے۔ البتہ زیادہ تر کالے، لال اور سبز رنگ کے ان پر لکیریں اور بیل بوٹے بھی بنے ہوتے تھے۔ یہ تانگے چھاتے اور بغیر چھاتے کے بھی ہوتے تھے۔ تانگے کے فرش پر ایک گھنٹی لگی ہوتی تھی جو پائوں کے دبانے سے بجتی تھی۔ البتہ ہر کوچوان کے پاس چھینٹا ضرور ہوتا تھا۔ البتہ رنگ برنگ کے تانگے والوں کے کوچوان کے پاس پھولوں والا چھینٹا ہوتا تھا۔

پاکستان ٹاکیز (رائل ٹاکیز، عزیر تھیٹر) 1908ء میں لاہور میں تعمیر ہوا۔ اس واحد سینما میں صرف تماش بین جایا کرتے تھے۔ اس سینما گھر میں کوئی شریف خاندان جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ سینما کیا تھا، لوہے کا جنگلا جو کہ کسی زمانے میں ہر دکان میں لگا ہوتا ہے، چھوٹا سا برآمدہ پھر سینما گھر کا دروازہ اور گیلری کو جانے کے لئے سیڑھیاں۔ سینما کی عمارت سبز رنگ کی تھی مگر اس پر وقتاً فوقتاً مختلف رنگ ہوتے رہے۔ میو اسپتال کی تاریخی لفٹ لکڑی کی تھی جو دونوں طرف سے کھل جاتی تھی اور جس میں آر پار نظر آتا تھا کم از کم سو برس تک اس نے کام کیا۔ پھر کسی لالچی ایم ایس نے اتار دی تھی حالانکہ وہ کام کر رہی تھی۔ اس میں اس قسم کا جنگلا لگا ہوتا تھا وہ لفٹ اتنی آرام دہ تھی کہ انسان کو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ لفٹ چل رہی ہے۔ اب تو سارے میو اسپتال کو ہی برباد کر دیا گیا۔ میو اسپتال میں کئی تاریخی کتبے ہیں‘ کبھی ان کا بھی حال بتائیں گے۔ (جاری ہے)