ماسی برکتے…

January 14, 2021

حرف و حکایت…ظفر تنویر
ماسی برکتے کو ہسپتال میں داخل ہوئے یہ تیسرا روز تھا لیکن ماسی کو لگتا تھا کہ اسے برسوں سے ہسپتال کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، کوویڈ19 کی وجہ سے ویسے بھی اس کے بچے یا عزیز رشتہ دار اسے ہسپتال ملنے نہیں آسکتے تھے ،ماسی کو کورونا یا پھیپھڑوں کا کوئی عارضہ نہیں بلکہ پیٹ سے اچانک اٹھنے والے مروڑ (درد) کے باعث ہسپتال لیکر آئے تھے، درد ابھی تک اٹھ رہا تھا اور ڈاکٹروں کی تشخیص تھی کہ مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ماسی رات کا بیشتر حصہ درد سے مقابلے میں گزار دیتی اور دن بھر اس کی نگاہیں ہسپتال کی اس وارڑ کے دروازے پر لگی رہتیں جہاں سے لوگ وارڈ میں داخل ہوتے، ماسی برکتے خدانخواستہ کوئی لاوارث نہ تھی بلکہ اس کے دو بیٹے اور دوبیٹیاں بھی اسی ملک بلکہ اسی شہر میں آباد تھے، ماسی برکتے کا آبائی تعلق کاکڑہ ٹائون سے ہے جو کشمیر کا ایک قصبہ ہے ماسی برکتے بھی اسی علاقے میں پیدا ہوئی تھیں، ماسی ہی کیا ماسی کا پورا خاندان اور ماں باپ کا وطن بھی یہی تھا البتہ ماسی کے دو بھائی اور بہت سے قریبی عزیز ایک عرصہ سے برطانیہ میں آباد تھے اور یہ ان ہی بھائیوں اور عزیزوں کی ماسی برکتے سے محبت اور ماسی برکتے کا اپنے بھائیوں سے پیار ہی تھا کہ اس کے چاروں بچے باری باری بیاہ کرکے برطانیہ میں آباد ہوگئے، بچے یہاں کیا بسے کہ ماسی کی بھی اس ملک کیلئے راہ کھل گئی اب وہ ہر ڈیڑھ دو سال بعد آتی پانچ چھ ماہ اپنے بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے کے بعد واپس اپنی جنم بھومی کو لوٹ جاتی لیکن چار پانچ برس قبل بچوں نے ماسی کی منت سماجت کرتے ہوئے اسے بھی مستقل بنیادوں پر یہیں رکھ لیا، ماسی اب اس تمام عرصہ میں پہلی مرتبہ ایک برطانوی کی حیثیت سے اس ملک میں آباد ہے، ماسی خوش بھی ہے چاروں بچے بھی ہر وقت نظروں کے سامنے ہیں اور جس اسٹریٹ اور شہر میں وہ رہتی ہے وہ بھی اپنے علاقےکے لوگوں سے بھرا ہوا ہے، وہی کلچر وہی رہن سہن اور وہی زبان اس کے ارد گرد کے لوگ بھی وہی زبان بولتے تھے جو ماسی کا خاندان صدیوں سے بولتا چلا آیا ہے، مصیبت تو اب پڑی ہے جب سے اسے ہسپتال لایا گیا ہے نہ ہسپتال والوں کی زبان ماسی کو سمجھ آتی ہے اور نہ ہی ماسی انہیں بتا سکتی ہے کہ اسے کس قسم کے درد اٹھ رہے ہیں، ہسپتال کا عملہ بڑی محبت سے اس کی بات سمجھنے کی کوشش کررہا ہے۔اسے پاکستانی جان کر کبھی اردو زبان کا کوئی ترجمان بلایا جاتا ہے اور کبھی پنجابی جان کر مشرقی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کے ذریعہ ماسی کا دکھ جاننے کی کوشش کی جاتی لیکن مسئلہ حل نہ ہوسکا نہ تو ماسی کو اردو آتی اور نہ ہی وہ جالندھری پنجابی سمجھ سکتی وہ تو بھلا ہو ہسپتال کی ہی ایک نرس کا جس کا اپنا آبائی تعلق ماسی کے ہی علاقے سے تھا اور صرف وہی جان سکتی تھی کہ مروڑ کسے کہتے ہیں’’کاہلی پنیا‘‘ کس کو کہتے ہیں اور آفارہ اور وٹ کس بلا کا نام ہے۔ برطانیہ ایک ایسا ملک ہے جہاں بسنے والوں کو سہولتیں فراہم کرنے کیلئے ہر طرح کی تدبیر اختیار کی جاتی ہے قومی سطح پر بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ یہ کسی ایک قوم نہیں بلکہ چار اقوام (انگریز، سکاچ، آئرش اور ویلش) کا وطن ہے یہی نہیں باہر سے آکریہاں آباد ہونے والی دیگر قوموں اور کمیونٹیز کا بھی بہت خیال رکھا جاتا ہے، ہر دس سال بعد تواتر سے مردم شماری کی جاتی ہے صرف یہی جاننے کیلئے نہیں کہ اس ملک میں کتنے لوگ بستے ہیں بلکہ یہ بھی جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ نئے آنے والوں کا نسلی پس منظر کیا ہے، وہ کس ثقافت سے متعلق ہیں اور ان کی زبان کیا ہے، یہ سب کچھ جاننے کی کوشش اس لئے کی جاتی ہے کہ تیزی سے بدلتے معاشرہ میں شامل ہونے والوں کی ضرورتوں کو پورا کیا جاسکے جب تک ریاست کے پاس اپنی ریاست کے باسیوں کے صحیح اعداد و شمارنہیں ہوں گے تو وہ کس طرح ماسی برکتے جیسے بزرگوں کی مدد کرسکیں گے۔ اس سال مارچ میں پھر مردم شماری ہو رہی ہے، برطانیہ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق نولاکھ کشمیری آباد ہیں، ان میں سے اکثریت کا تعلق میرپور ڈویژن (میرپور، کوٹلی، بھمبر) سے ہے اور ان کی زبان اردو یا جالندھر پنجابی نہیں بلکہ پہاڑی،پوٹھوہاری ہے اور یہی وہ زبان ہے جو برطانیہ میں آباد اس علاقے کے لوگ بولتے ہیں، آپ کسی بھی کالج یا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل کسی میرپوری کی زبان سن لیں یا کسی میرپوری مزدور سے بات کرکے دیکھ لیں آپ پر یہ بات کھل کر واضح ہو جائے گی کہ یہ بچے، یہ مزدور اور یہ پڑھے لکھے لوگ یا انگریزی بولتے ہیں یا اپنی مادری زبان، نہ انہیں اردو آتی ہے اور نہ ہی پنجابی ان کے قریب سے گذرتی ہے اور ایسا صرف اس خطہ کے لوگوں سے ہی نہیں ہے برطانیہ میں جنم لے کر بڑا ہونے والا ہر بچہ اگر انگریزی کے بعد کوئی دوسری زبان سمجھتا ہے تو وہ زبان ہے جو اس کے گھر میں بولی جاتی ہے اس کی ماں بولتی ہے یعنی اس کی ماں بولی، برطانیہ میں آباد ہم وہ سب لوگ جنہوں نے برطانیہ کو اپنا وطن بنا لیا ہے، کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا، ریاست برطانیہ کی مدد کرنا ہوگی اور مردم شماری کے دوران انہیں بتانا ہوگا کہ ہم کشمیری ہیں اور ہماری زبان پہاڑی،گوجری،کشمیری،گلگتی یا ریاست جموں و کشمیر کی وہ زبان ہے جو ہم نے اپنی ماں کے منہ سے سنی اور جو ہمارے گھروں میں بولی جاتی ہے۔یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کیلئے آسانیاں پیدا کریں۔