موسوی نے براڈشیٹ کی ادائیگی کروانے پر 2ملین ڈالر کی پیشکش کی، ظفرکیوسی

January 21, 2021

لندن ( مرتضیٰ علی شاہ) براڈشیٹ کے سی ای او کاوے موسوی نے جن تین افراد کے بارے میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ ممکنہ طور پر نئے اثاثوں کی بازیابی کے معاہدے پر پاکستانی حکومت کی طرف سے بات کر رہےتھے، انہوں نے مسٹر موسوی پرجھوٹ بولنے اور جان بوجھ کر غلط بیانی کا الزام عائد کردیا، اس کے برعکس انہوں نے الزام عائد کیا کہ مسٹر موسوی نے حکومت پاکستان کی جانب براڈ شیٹ کی واجب الادا تقریبا 29 ملین امریکی ڈالر کی رقم دلوانے پر 20 لاکھ امریکی ڈالر کی پیش کش کی تھی۔دی نیوز اور جیو نے ایک قانونی دستاویز دیکھی ہے جس میں تین افراد بیرسٹر ظفر علی کیوسی ، ڈاکٹر کرسٹن پکس ، مینجمنٹ کنسلٹنٹ ، اور انگلینڈ ویلز کی عدالت عظمیٰ کے سالیسیٹر شاہد اقبال نے کروم ویل اینڈ مورنگ ایل ایل پی میں براڈشیٹ کے سی ای او کاوے موسوی کے وکلا کی جانب سے تینوں افراد کے خلاف تیار کی گئی 13 صفحات پر مشتمل دستاویز کو قطعی طور پر مسترد کر د دیا ، یہ دستاویز وسیع پیمانے پر میڈیا میں شائع ہوئی۔قانونی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر پکس مسٹر موسوی کے الزامات پر اس قدر دل برداشتہ ہیں کہ انہوں نے مسٹر کاو ے موسوی کے خلاف قانونی کارروائی کرنےکا ارادہ ظاہر کیا ہے۔قانونی کاغذت میں براڈشیٹ کے سی ای او مسٹر کاوے موسوی اور ظفر علی کیو سی کے درمیان متعدد پیغامات موجود ہیں ۔ واضح رہے کہ 13 صفحات پر مشتمل "2019 موسوی دستاویز" جو اس نمائندے نے جیو اور دی نیوز واشنگٹن کے نمائندے واجد علی سید کے ساتھ خصوصی طور پر رپورٹ کی تھی اس میں بتایا تھا کہ 12 مئی 2019 کو برطانیہ کے ایک وفد نے ملاقات کی اور بیرون ملک چوری شدہ اثاثے بازیافت کرنے کی تجاویز دیں۔ گزشتہ ہفتہ ، براڈشیٹ کے پاکستان سے تقریبا 65 ملین امریکی ڈالر کا کیس جیتنے کے بعد ، "موسوی دستاویز" کے مندرجات نے پاکستانی میڈیا میں سنسنی پھیلادی۔ ڈکلریشن آف فیکٹس کے عنوان سے ان کی قانونی دستاویز میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ دسمبر 2018 کے آخر تک ، کاوے موسوی نے ظفر علی کیسی کو بار بار پاکستان حکومت سے رجوع کرنے اور براڈشیٹ کے واجب الادا بقایاجات ادا کرنے پر راضی کرنے کی صورت میں رقم کی پیش کش کی لیکن ظفر علی نے کمیشن کی پیش کشوں کو مسترد کردیا۔ انہوں نے بار بار غیر یقینی حالت میں یہ کہا کہ انہیں پاکستان کی جانب سے ہدایت نہیں دی گئی ۔ قانونی دستاویز سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ نئی انتظامیہ نے ظفر علی کیو سی سے بیرون ملک رقوم کی بازیابی کے نئے پروگرام پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے رابطہ کیا تھا۔ اس کے بعد ، ظفر علی کیو سی اور ڈاکٹر کرسٹن پکس نے اثاثوں کی وصولی کی تجویز کا مسودہ تیار کیا ۔ظفر علی اورشاہد اقبال نے میڈیا کی شخصیت اور تاجر محسن بیگ کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کیا اور تجاویز پر تبادلہ خیال کیا۔دستاویز میں دعوی کیا گیا ہے کہ اجلاس میں حکومتنے واضح کیا کہ وہ سیاسی وابستگی سے قطع نظر ، چوری شدہ تمام رقم کی بازیابی چاہتے ہیں۔دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ایسا کوئی اجلاس نہیں ہوا جس میں مسٹر علی نے یہ تجویز انٹلی جنس سروسز یا مسلح افواج کے کسی رکن کے سامنے پیش کی ہو۔ڈکلریشن آف فیکٹس کے مطابق ، مسٹر علی اور ڈاکٹر پکس چوری شدہ اثاثوں سے متعلق وسیع و عریض معلومات تک رسائی حاصل کرنا چاہتے تھے جس کا مسٹر موسوی نے دعوی کیا تھا اور مسٹر موسوی کو اس طرح کی معلومات شیئر کرنے کی سرگرمی سے حوصلہ افزائی کی تھی۔ قانونی دستاویز میں الزام لگایا گیا ہے کہ موسوی کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کے دوران ، یہ بات واضح ہوگئی کہ موسوی کی مصروفیت میں بنیادی دلچسپی اپنی کمپنی ، براڈشیٹ کے لئے پاکستانی حکومت سےاربوں ڈالر کی وصولی کی امید تھی۔ انہوں نے اپنی فرم براڈشیٹ کے سود کا کچھ حصہ "اربوں ڈالر" کے ہیج فنڈز کو فروخت کرنے کے بارے میں بھی بات کی اور دعویٰ کیا کہ اگر براڈشیٹ کا قرض "ایک ہفتے کے اندر اندر" حل نہ کیا گیا تو وہ پاکستانی طیارے گرائونڈ کروانے کی اپنی اہلیت رکھتے ہیں۔مسٹر علی اور ڈاکٹر پکس اس طرح کے دعوؤں کے بارے میں سخت پریشان اور بے چین ہو گئے اور ان بڑھتے ہوئے خدشات کے نتیجے میں 2018 کے آخر تک مسٹر موسوی کے ساتھ مصروفیات ختم کر دیں۔ پاکستان کی جانب سے ان کی تجاویز کو قبول نہیں کیا گیا اور معاملہ مزید آگے نہیں بڑھا۔ مسٹر موسوی کے خلاف ان کے 2019 کی قانونی دستاویز میں ان تینوں کی بنیادی شکایت یہ دعوی ٰہے کہ مسٹر علی نے حکومت پاکستان کی جانب سے براڈشیٹ کے دعوؤں کو طے کرنے کے لئے کام کیا۔انہوں نے واضح طور پر کہا کہ انہوں نے بار بار اس بات پر زور دیا تھاکہ مسٹر علی کسی بھی طرح پاکستان کی نمائندگی نہیں کرتے۔ وہ خود بھی حکومت پاکستان سے اثاثوں کی بازیابی کے لئے مینڈیٹ تیار کررہے ہیں۔ انہیں ایسا اختیار نہیں دیا گیا تھا۔ اور وہ اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ پاکستانی حکام سے براڈشیٹ کے امور پر تبادلہ خیال بھی کرسکیں۔ اور وہ زور دیتے ہیں کہ ان کے دعویٰ کے متعدد گواہ موجود ہیں۔