نئے امریکی صدر کو درپیش چیلنجز

January 31, 2021

نومنتخب امریکی صدر، جوبائیڈن نے 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھا لیا۔یوں انتخابی نتائج کے بعد سے جاری تنازع بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔ جوبائیڈن نے تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے اتحاد کو اپنا ’’کی ورڈ‘‘ قرار دیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اسی کے ذریعے تمام مشکلات پر قابو پالیں گے۔ نیز، اُنہوں نے اپنے اتحادیوں کو بھی مل کر چلنے کی یقین دہانی کروائی۔ سابق صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تقریب میں شرکت نہیں کی، تاہم، نائب صدر، پینس موجود تھے۔ تقریب حلف برداری اِس بار بہت پھیکی رہی، جس کی دو وجوہ تھیں۔

ایک تو یہ کہ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے کچھ روز قبل کیے گئے احتجاج کی وجہ سے سیکیوریٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ وائٹ ہائوس کے باہر سناٹا تھا اور 15 ہزار سے زاید فوجیوں نے علاقہ گھیر رکھا تھا۔ چوں کہ حسّاس اداروں نے ممکنہ حملوں سے متعلق الرٹ جاری کیے تھے، اِس لیے عام افراد کو تقریب میں آنے کی اجازت نہیں دی گئی، حالاں کہ حلف برداری کی تقریب میں لاکھوں افراد کی شرکت روایت رہی ہے۔ اس بار عوام کی جگہ دو لاکھ امریکی جھنڈے لگائے گئے تھے۔ عوامی اجتماع نہ ہونے کی ایک اور وجہ کورونا وائرس کا پھیلائو بھی ہے، جس نے اب بھی امریکا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جوبائیڈن نے عُہدہ سنبھالتے ہی احکامات جاری کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔

اُنہوں نے پہلے ہی روز مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکا کے سفر پر عاید پابندیاں ختم کردیں۔ میکسیکو سرحد پر باڑ لگانے کا کام روک دیا۔ ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے میں شمولیت کا اعلان کیا، جس پر امریکا میں خاصی بحث جاری تھی۔ دنیا بھر کے حکم رانوں نے اُنھیں مبارک باد کے پیغامات بھیجے۔پاکستان کے وزیرِ اعظم، عمران خان نے بھی اُنہیں عُہدہ سنبھالنے پر مبارک باد دیتے ہوئے اِس خواہش کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک تجارت کے فروغ اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے مل جُل کر کام کریں گے۔

78 سالہ جوبائیڈن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے اور وہ امریکی سیاست میں نئے نہیں ہیں۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے جوبائیڈن، اوباما دورِ حکومت میں دو مرتبہ نائب صدر رہ چُکے ہیں، جب کہ چھے بار سینیٹر بھی رہے۔ چوں کہ امریکا میں نائب صدر پس منظر ہی میں رہ کر کام کرتا ہے، اِس لیے جوبائیڈن زیادہ نمایاں نہیں ہوئے، مگر ایسا بھی نہیں کہ اُنہوں نے کوئی کام ہی نہ کیا ہو۔ کئی معاملات میں، بالخصوص مختلف بلز کی منظوری میں، اُن کا کلیدی کردار رہا۔ عالمی اقتصادی بحران کے دَوران اقتصادی پیکیج کی تیاریوں میں بھی وہ پیش پیش رہے۔ گویا اُنہیں سیاسی امور کا خاصا تجربہ ہے، تاہم اُن کا اصل میدان خارجہ پالیسی ہے۔

وہ سینیٹ کی طاقت وَر ترین کمیٹی، فارن ریلیشنز کمیٹی کے چیئرمین رہ چُکے ہیں اور وہ گزشتہ انتخابات میں بھی صدر کے عُہدے کے امیدوار تھے، تاہم بعد ازاں ہلیری کلنٹن کے حق میں دست بردار ہو گئے تاکہ وہ ٹرمپ سے براہِ راست مقابلہ کر سکیں۔ اُنہوں نے اوباما دَور کے آخری برسوں میں مشرقِ وسطیٰ، ایران سے تعلقات اور مشرقی ایشیا سے متعلق پالیسیز میں حصّہ لیا اور صدر اوباما کی جگہ ان علاقوں کے دَورے بھی کرتے رہے۔ جوبائیڈن نے نائب صدر کے عُہدے کے لیے بھارتی نژاد امریکی شہری، کملا ہیرس کا انتخاب کرکے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔

وہ پہلی خاتون ہیں، جو اِس عُہدے تک پہنچنے میں کام یاب رہیں۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ کملا ہیرس کا انتخاب رنگ دار امریکیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کیا گیا، کیوں کہ ٹرمپ کے آخری دنوں میں سیاہ فام کمیونٹی کا مسئلہ خاصی شدّت اختیار کر گیا تھا، جب ایک سیاہ فام شہری کو پولیس اہل کار نے گولی مار دی تھی۔ شاید اِسی لیے صدر جوبائیڈن نے اپنی پہلی تقریر میں انتہا پسندی کی خلاف اور سفید بالاتری ختم کرنے کی بات کی۔

ڈونلڈ ٹرمپ تارکینِ وطن کے حوالے سے سخت موقف رکھتے تھے اور اِس ضمن میں مختلف اعلانات بھی کرتے رہے تھے، جن سے تارکینِ وطن اپنے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار تھے۔ جوبائیڈن نے کملا کو نائب صدر کا امیدوار بنا کر آبادی کے اِس طبقے کے ووٹس حاصل کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، ایک رائے یہ بھی ہے کہ امریکا میں مقیم بھارتیوں کا وہاں کے سیاسی اور کاروباری حلقوں میں اثر و رسوخ بڑھتا جارہا ہے، جس کی ایک علامت کملا کا انتخاب ہے۔

بھارت اور امریکا کے درمیان تعلقات میں خاصی گرم جوشی پائی جاتی ہے۔ صدر بش سے لے کر ٹرمپ تک، دونوں ممالک کے تعلقات مضبوط ہی ہوتے رہے۔ گو کہ نائب صدر کے پاس بہت زیادہ اختیارات نہیں ہوتے، مگر پھر بھی وائٹ ہائوس میں بھارتی نژاد شہری کی اہم عُہدے پر موجودگی بھارت کے لیے خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ ویسے بھی ڈیمو کریٹس بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ صدر اوباما اپنے 8 سالہ دَورِ اقتدار میں دو مرتبہ بھارت آئے اور ایک مرتبہ تو ایک ہفتے قیام کیا۔ اُنہی کے دَور میں دونوں ممالک کے درمیان سِول نیوکلیئر معاہدہ ہوا۔

امریکا کے اندرونی سیاسی معاملات کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے کانگریس سے ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک منظور کروالی ہے، یوں ٹرمپ وہ پہلے امریکی صدر ہیں، جنہیں دوسری بار مواخذے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کانگریس سے مواخذے کی تحریک کی کام یابی میں ری پبلکن پارٹی کے اُن 10ارکان کا بھی ہاتھ ہے، جنہوں نے اپنے پارٹی رہنما کے خلاف ووٹ دیا۔ جوبائیڈن کے لیے مواخذے کا معاملہ دردِ سر سے کم نہیں، کیوں کہ اب مواخذے کی تحریک سینیٹ میں زیرِ بحث ہے۔ نئے صدر کے لیے پہلے 100 دن اہم قرار دیے جاتے ہیں، جن میں وہ اہم پالیسیز پر کام کرتے ہیں، مگر جوبائیڈن ان دنوں میں بھی مواخذے کی تحریک سے متعلقہ امور میں اُلجھے رہیں گے۔

ٹرمپ نے کیپٹل ہل میں جمع ہونے والے مظاہرین سے خطاب میں اُنہیں آگے بڑھنے کا کہا، جس کے بعد اُن کے حامی اہم عمارتوں پر چڑھ دوڑے۔ یہ واقعہ ٹرمپ کے مواخذے کے لیے کافی ہے۔ اس واقعے سے ری پبلکن پارٹی سخت دبائو میں آگئی اور اُسے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ امریکی جمہوری اقدار کی پاس دار ہے، کچھ علامتی اقدامات کرنے پڑے۔ اسی لیے 10 پارٹی ارکان نے ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا۔ نیز، ٹرمپ کے 2024ء کے صدارتی انتخابات میں حصّہ لینے کے اعلان نے بھی پارٹی میں تقسیم بڑھائی۔ بہت سے ارکان ٹرمپ کو پارٹی کے لیے خطرہ تصوّر کرتے ہیں۔ ری پبلکن پارٹی نے مواخذے کے حق میں ووٹ دے کر عوام کو یہ پیغام دیا کہ وہ کسی غیر جمہوری یا پُرتشدّد طریقے سے اقتدار کی منتقلی کی حامی نہیں۔ امریکا جیسے ممالک میں سیاسی جماعتیں دیرپا اہداف سامنے رکھتی ہیں اور اسی کے مطابق اپنی حکمتِ عملی طے کرتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ وہ بعض اوقات کئی معاملات پر پسپائی تک اختیار کر لیتی ہیں کہ اُنہیں بہرحال سیاسی میدان میں رہنا ہوتا ہے۔ سینیٹ میں مواخذے کی تحریک کی کام یابی کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اگر سینیٹ اسی میں اُلجھا رہا، تو اُن بلز کا کیا بنے گا، جو صدر جوبائیڈن اپنے ابتدائی 100 دنوں میں منظور کروانا چاہتے ہیں؟ ان بلز میں سے کئی ایک کا تعلق کورونا وبا اور معاشی معاملات سے ہے۔ عوام نے اُنہیں اِن بلز ہی کے لیے ووٹ دئیے ہیں۔ نیز، مواخذے کا معاملہ جوں جوں آگے بڑھے گا، اس سے امریکی معاشرے میں تقسیم بھی بڑھتی جائے گی کہ ٹرمپ کے حامیوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔ جوبائیڈن کے لیے یہ ایک بڑا امتحان ہے کہ وہ عوام کو انتخابی معاملات سے نکال کر دوبارہ معمول کی زندگی کی طرف کیسے لاتے ہیں؟ یہ معاملہ سیاسی فتح یا شکست سے حل نہیں ہوگا، اِس کے لیے سیاسی تدبّر سے کام لینا ہوگا۔

امریکا جیسے جمہوری معاشرے میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی بہت اہمیت دی جاتی ہے۔اس کا اندازہ اِس اَمر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کیے گئے، تو اس کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں کہ یہ’’ فِری اسپیچ‘‘ کے حق کے خلاف ہے۔مغربی دنیا میں ٹرمپ کی سب سے بڑی مخالف، جرمنی کی چانسلر، مرکل تک نے اِس پابندی پر تشویش کا اظہار کیا۔ دراصل، اظہارِ رائے کی آزادی مغربی جمہوریت کی بنیاد ہے۔

یہ تو امریکا کے اندرونی چیلنجز ہیں، تاہم دنیا کی دِل چسپی صدر جوبائیڈن کی اقتصادی پالیسیز میں ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے ساتھ اقتصادی جنگ مول لے رکھی تھی اور اُن کا اپنی انتخابی مہم میں بھی یہی کہنا تھا کہ امریکی معیشت کو سب سے زیادہ نقصان چین نے پہنچایا۔ وہ اُس پانچ بلین ڈالرز کے تجارتی خسارے کا خاص طور پر ذکر کرتے رہے، جو اوباما اُن کے لیے چھوڑ گئے تھے۔اِس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باوجود تجارتی معاملات میں تعطّل نہیں آیا، بلکہ اعلیٰ ترین سطح پر روابط برقرار رہے۔دراصل، ٹرمپ چاہتے تھے کہ چین کی قیادت اُنھیں کوئی ایسی ٹھوس رعایت دے، جسے وہ اپنی صدارتی مہم میں فتح کے طور پر پیش کرسکیں، لیکن غالباً کورونا کے سبب ایسا نہ ہوسکا۔ جوبائیڈن کا اپنی انتخابی مہم میں معاشی معاملات پر چین سے بات چیت پر زور رہا، لیکن اُن کے لیے بھی ممکن نہ ہوگا کہ ٹرمپ دَور میں اُٹھائے گئے سوالات کا تشفّی بخش جواب دئیے بغیر کسی نئے معاہدے کی جانب پیش رفت کرسکیں۔

ٹرمپ نے اپنے یورپی اتحادیوں، کینیڈا اور آسٹریلیا کو بھی اقتصادی معاملات میں زچ کیے رکھا۔کئی بار تلخی بڑھی، لیکن معاملات سنبھال لیے گئے، یوں لگتا ہے کہ ٹرمپ کے جانے سے ان اتحادیوں نے بھی سُکھ کا سانس لیا ہے، کیوں کہ اُن کی سیمابی طبیعت کسی بھی وقت کوئی بھی تنازع کھڑا کر سکتی تھی۔صدر جوبائیڈن کی معتدل شخصیت اُن کے لیے معاون ثابت ہوگی اور وہ دوبارہ امریکا کے روایتی اتحادیوں کو قریب لانے میں کام یاب ہوسکتے ہیں ۔ جوبائیڈن کے لیے خارجہ امور میں ایران کا نیوکلیئر معاہدہ اور عرب ممالک سے تعلقات اہم چیلنجز ہیں، کیوں کہ صدر ٹرمپ نے ان معاملات سے متعلق پالیسی کو نئی جہت دی تھی۔

اُنہوں نے ایران سے ایٹمی معاہدہ ختم کیا اور ساتھ ہی عربوں سے قریبی تعلقات بحال کیے۔نیز، اسرائیل کو خطّے میں اہم کردار سونپتے ہوئے عرب، اسرائیل سفارتی تعلقات قائم کروانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ گزشتہ سال ستمبر سے اب تک متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش اسرائیل سے سفارت تعلقات قائم کرچُکے ہیں۔قطر دوبارہ خلیج کاؤنسل کا فعال رُکن بن چُکا ہے۔اِس طرح اُنہوں نے خطّے میں ایران کو تنہا کرنے کے انتظامات کر لیے تھے۔ یہاں تک کہ تُرکی کے صدر طیّب اردوان نے بھی،جو عرب، اسرائیل تعلقات پر شدید تنقید کرتے رہے، اسرائیل میں اپنا سفیر تعیّنات کرکے سفارتی تعلقات بحال کرلیے۔اس طرح ایران کا ایک اور غیر عرب اتحادی اُس سے دُور ہوگیا۔ اِن حالات میں جوبائیڈن کے لیے ممکن نہ ہوگا کہ وہ عربوں اور اسرائیل کو اُسی طرح نظر انداز کرکے ایران سے ایٹمی ڈیل بحال کردیں، جس طرح اوباما دَور میں کی گئی۔ٹرمپ کے دَور میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا آخری مراحل میں پہنچ چُکا تھا۔طالبان اور افغان حکومت میں رابطے ہوچُکے تھے اور اب صرف سیاسی مفاہمت باقی ہے۔

بھارت، چین، روس اور دوسرے علاقائی کھلاڑی، جو افغان امن عمل کا حصّہ ہیں، سب وہاں اپنا اپنا کردار طے کرچُکے ہیں۔ اُن کا افغانستان کی تباہ حال معیشت کی بحالی میں بنیادی کردار ہوگا۔اِس مُلک نے طویل جنگیں دیکھی ہیں، لیکن اگر مالیاتی اور اقتصادی اداروں کے اشارے دیکھیں، تو افغانستان اب علاقے کے ترقّی کرتے ممالک کی صف میں شامل ہوچُکا ہے۔ایران نے چا بہار پورٹ سے جو راہ داری اور سات سو میل لمبی سڑک بنائی ہے، اس سے بھی بہت کچھ سمجھا جاسکتا ہے۔یوں لگتا ہے، اب افغانستان شاید اُسی ڈگر پر چلے گا، جس پر ویت نام جیسا انقلابی مُلک چل رہا ہے۔یعنی معاشی ترقّی کی راہ۔

پاکستان کو اسی تناظر میں نئی امریکی انتظامیہ سے توقّعات رکھنی ہوں گی ۔یاد رہے، اوباما اپنے آٹھ سالہ دَورِ اقتدار میں ایک بار بھی پاکستان نہیں آئے۔اُنہی کے دَور میں ریمنڈ ڈیوس اور اُسامہ بن لادن کے قتل جیسے واقعات ہوئے۔اُنہوں نے امریکا، پاکستان تعلقات کو نچلی ترین سطح ہر پہنچا دیا تھا، بلکہ ایسے لمحات بھی آئے کہ یہاں لوگ امریکا کو اپنا نمبر وَن دشمن قرار دیتے تھے، لیکن ٹرمپ کے آخری دو سالوں میں یہ پالیسی تبدیل ہوگئی۔ امریکا اور پاکستان پھر سے قریب آنے لگے۔اس کی بنیادی وجہ ٹرمپ کی وہ افغان پالیسی تھی، جس پر اُنہیں اسلام آباد کے تعاون کی ضرورت تھی۔وہ ہر قیمت پر امریکی فوج کی واپسی چاہتے تھے اور اس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار تھے۔

اُنہوں بڑی چالاکی سے پاکستان سے سہولت کاری کروائی اور افغان طالبان کو دوحا مذاکرات پر مجبور کیا۔اس کے لیے وہ دو بار وزیرِ اعظم، عمران خان سے واشنگٹن میں ملے۔اُنہیں اپنا بہت اچھا دوست قرار دیا، بلکہ اس سے بڑھ کر اُنہوں نے کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کا شوشا بھی چھوڑا۔نیز، پلواما کے بعد پاک، بھارت تعلقات میں کشیدگی میں کمی کے لیے بھی اہم کردار ادا کیا۔ویسے یہ بھی یاد رہے، خواہ کوئی بھی امریکی صدر ہو،پاک، بھارت کشیدگی میں کمی کے لیے سب ہی کا کردار اہم رہا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہوگا کہ جوبائیڈن کی پاکستان پالیسی کیا ہوگی؟مِڈل ایسٹ کی امریکی پالیسی کے اثرات بھی ہم پر مرتّب ہوں گے، کیوں کہ ہمارے اُن ممالک کے ساتھ بہت سے معاشی اور جذباتی مفادات وابستہ ہیں۔ڈیمو کریٹس کی بھارت کے ساتھ ہمیشہ قربت رہی ہے، دیکھتے ہیں، اِس بار یہ قربت کس نوعیت کی ہوگی؟