انتخابی نظام میں بہتری سے اجتناب کیوں؟

February 11, 2021

پاکستان تحریک انصاف حکومت کی جانب سے حال ہی میں سینیٹ سے متعلق 26ویں آئینی ترمیم پیش کی گئی ہے جس کی وجہ سے پارلیمان میں ایک دھواں دار بحث چھڑ گئی۔ حزبِ اختلاف کی جانب سے اس ترمیمی بل کی سخت مخالفت کی جارہی ہے۔ حزبِ اختلاف کی مخالفت ایک جمہوری عمل ہے اور نمائندگان کا جمہوری حق بھی مگر مخالفت برائے مخالفت کی بجائے اگر اپوزیشن اس ترمیمی بل کا غیرجانبدارانہ جائزہ لے اور پھر اپنا ردِعمل یا اپنی رائے کا اظہار کرے تو اس سے پارلیمانی نظام مضبوط اور ہمارا انتخابی عمل شفاف ہوگا۔ دراصل اس ترمیم پر تفصیلی بحث اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس میں ایک طرف پارلیمان کے انتخابی عمل کی شفافیت اور دوسری جانب خفیہ رائے شماری کے بنیادی اصول کی ازسرنو اصلاح کی کوشش کی گئی ہے جس سے پاکستان کی مجموعی سیاست پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ پارلیمان اور خصوصاً جدید پارلیمانی نظام کی تاریخ اتنی پرانی نہیں جتنی خفیہ رائے شماری (Secret Ballot) کی ہے۔ قدیم روم اور قدیم یونان میں خفیہ رائے شماری کا اصول موجود تھا۔ جدید پارلیمانی نظام کے وجود میں آنے کے بعد زیادہ تر ممالک میں خفیہ رائے شماری کو جمہوریت کا اہم جزو مانا جاتا تھا۔ فرانسیسی آئین کی شق 31، برطانیہ کے BALLOT ACT, 1872اور آسٹریلیا کے 1901میں ملک کے پہلے انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے ہی اصول کو اختیار کیا گیا تھا۔ مزید براں امریکہ میں 1891میں ریاست کینٹکی میں پہلی بار سیکرٹ بیلٹ کا عمل اختیار کیا گیا تھا مگر پورے امریکہ میں خفیہ بیلٹنگ کو انتخابی عمل کا حصہ بنانے میں چھپن سال لگے۔ 1950میں سائوتھ کیرولینا خفیہ رائے شماری پر عمل پیرا ہونے والی آخری ریاست تھی اور یوں آہستہ آہستہ پورے امریکہ میں سیکرٹ بیلٹنگ کا اصول رائج ہوتا چلا گیا۔ اس تاریخ پر روشنی ڈالنا اس لئے بھی مقصود ہے کہ ہم اپنی تاریخ کا جائزہ لے کر اپنے مجموعی نظام یا اپنے انتخابی طریقہ کار کی اپنے سیاسی ماحول اور حالات کے مطابق اصلاح کر سکیں۔

پاکستان کے انتخابی عمل کی شفافیت ہمیشہ متنازع رہی ہے اور اسے شفاف بنانا جملہ سیاست دانوں اور پارلیمانی نمائندگان کی قانونی، سیاسی اور اخلاقی ذمہ داری ہے ۔ پاکستان میں ہمیشہ سینیٹ انتخابات کے دوران ارکان کی خرید و فروخت کا بازار مبینہ طور پر گرم ہو جاتا ہے جسے ہارس ٹریڈنگ بھی کہتے ہیں۔ جب 2018میں وزیراعظم عمران خان کو بتایا گیا کہ پی ٹی آئی کے20 اراکینِ اسمبلی جن میں خواتین بھی شامل تھیں، نے بھاری رقوم کے عوض اپنا ووٹ بیچا ہے تو عمران خان نے پاکستان کی جدید سیاسی تاریخ میں پہلی بار تمام اراکینِ اسمبلی کو پارٹی سے بےدخل کردیا۔ دراصل عمران خان 2013سے سینیٹ انتخابات کے طریقہ کار کی اصلاح کرنے کی سعی کررہے ہیں اور اسی انتخابی خامی کو دور کرنے کے لئے تحریک انصاف کی حکومت نے 26واں آئینی ترمیمی بل پیش کیا تاکہ انتخابات جیسے احسن عمل کو کرپشن سے آلودہ کیا جا سکے۔ ہر ملک اپنے انتخابی نظام کو شفاف سے شفاف تر بنانے کے لئے ایک ارتقائی عمل سے گزرتا ہے اور مختلف تجربے کرتا ہے۔ مثلاً امریکہ کا آئین 1788میں منظور ہوا لیکن 125سال تک امریکہ میں سینیٹ کےDirect Electionکا کوئی طریقہ رائج نہ تھا۔ 1826میں پہلی بار سینیٹ میں ڈائریکٹ الیکشن کی بات ہوئی اور کہا گیا کہ سینیٹ صرف Millionaire Clubبن کر رہ گیا ہے۔ سو سال تک سینیٹ میں بیٹھے لوگوں نے اِس ترمیم کو پاس نہیں ہونے دیا بالآخر 1912میں امریکی آئین کی سترہویں ترمیم کی شکل میں سینیٹ میں براہِ راست انتخابات کو آئینی اور قانونی شکل دی گئی اور اِس اصلاح کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی سینیٹ میں ایسے فصیح و بلیغ، تجربہ کار اور دانشوروں کا انتخاب ممکن ہوا کہ آج امریکی سینیٹ دنیا کا طاقتور ترین ایوانِ بالا ہے۔ حتیٰ کہ ہندوستان میں بھی راجیہ سبھا کے انتخابات میں اسی طرح کی اصلاحات متعارف کروائی گئیں تاکہ انتخابات کے عمل کو شفاف بنایا جا سکے۔ 2010میں ہندوستان کے راجیہ سبھا کے انتخابات میں خفیہ رائے شماری کو ختم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس کیلئے بھارت کے The Representation Act, 1951میں ترمیم کی گئی۔ اب ہندوستان میں یہ طریقہ رائج ہے کہ ہر جماعت اپنا نمائندہ مقرر کرے گی جو ووٹ کی تصدیق کرے گا۔ بصورت دیگر ووٹ کو مسترد مانا جائے گا۔ جب پوری دنیا اپنے انتخابی نظام کو بہتر اور حقیقی جمہوری اقدار پر استوار کر رہی ہے تو پاکستان میں ایسی اصلاحات کیوں ممکن نہیں؟ ۔ پاکستان میں بھی جمہوریت پنپ رہی ہے جہاں ہم ہر نظام کی اصلاح کرنے کا بیڑا اٹھائے ہوتے ہیں تو پھر اپنے انتخابی نظام کی اصلاح کرنے میں کیوں روگردانی کا مظاہرہ کیا جائے؟ سینیٹ میں Open Ballot کے بہت مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ سینیٹ میں سیاسی لوگوں کا انتخاب ممکن ہوگا اور پیسے کے زور پر آنیوالے گھوڑوں کا راستہ روکا جا سکے گا۔ ایسی ترمیم سے سینیٹ حقیقی معنوں میں ایوانِ بالا بن سکے گا۔ بدقسمتی سے جمہوریت کے ٹھکیدار یعنی اپوزیشن پارٹیز ہی اس انتخابی اصلاح کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن کر کھڑی ہیں۔ ن لیگ کا تو میں جمہوریت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں سمجھتا مگر پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کا رویہ دیکھ کر مجھے تاسف ہوتا ہے کہ آج ان کی یہ جرأت کے شہید بینظیر بھٹو کی جمہوریت کیلئے خدمات کو فراموش کرکے وہ جمہوری عمل کی اصلاح میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ انتخابی اصلاحات پاکستان تحریک انصاف کے منشور کا بنیادی حصہ ہے اور تحریک انصاف ان جمہوری اور انتخابی اصلاحات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ہرممکن کوشش کرے گی اور ہر رکاوٹ کو سر کرکے پاکستان میں ایک حقیقی جمہوری اور پارلیمانی نظام قائم کرے گی۔