پاکستان میں پھر ون یونٹ مسلط ہورہا ہے؟

February 21, 2021

بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ شاید ایک بار پھر پاکستان میں ’’ون یونٹ‘‘ مسلط ہوچکا ہے۔ حکمرانوں کے قابل اعتراض اقدامات نے لوگوں کو یہ بات کہنے پر مجبور کردیا ہے کہ اس وقت نہ آئین محفوظ ہے، نہ وفاقی قوانین محفوظ ہیں اور نہ ماضی میں مختلف صوبوں کے درمیان ہونیوالے فیصلے محفوظ ہیں مگر زیادہ دکھ یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کے ان غیر آئینی، غیر قانونی اور ماضی کے فیصلوں کے منافی جو اقدامات کیے جارہے ہیں ان کا ٹارگٹ زیادہ تر سندھ ہے۔ یہ ساری صورتحال دیکھ کر سندھ کے اکثر دانشور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کیا سندھ کو صوبے کی بجائے فقط ایک ’’کالونی‘‘ کی حیثیت دی جارہی ہے۔ کچھ ایشوز کا ذکرمیں اپنے گزشتہ کالموں میں کرچکا ہوں مگر صورتحال بہتر ہونے کے بجائے مزید بدتر ہوتی جارہی ہے،میں ایک اور تشویشناک صورتحال کی طرف بھی توجہ مبذول کراتا چلوں کہ اس حکومت سے ملک کے کئی اہم ادارے آئین کے مطابق نہیں چلائے جارہے جس کے باعث یا تو ان کو بند کیا جارہا ہے یا پھر ان کو دوسرے ممالک کو فروخت کرنے کے بھی اشارے مل رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ان حکمرانوں سے اسٹیل مل جیسا ممتاز ادارہ چل سکا ہے نہ ہی پی آئی اے جیسا ادارہ چل سکا ۔ دریں اثنا یہ بھی اشارے مل رہے ہیں کہ حکمران سی پیک جیسا پروجیکٹ بھی عملی طور پر چین کے حوالے کرسکتے ہیں ۔ حکومت بلوچستان کی واحد بحری بندرگاہ گوادر چین کے پاس گروی رکھ چکی ہے کیونکہ اس بندرگاہ اور سی پیک پر اکثر اخراجات بھی فی الحال چین کی حکومت ہی برداشت کررہی ہے۔ مجھے یہ اطلاع دو تین سال پہلے ملی تھی۔ اس وقت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر میر حاصل بزنجو زندہ تھے،ایک بار ان کا حیدرآباد آنا ہوا جہاں انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کے بعد جیم خانہ میں پریس کے لوگوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا بھی کھایا۔ انہی دنوں مجھے یہ اطلاع ملی تھی کہ وفاقی حکومت کے پاس مطلوبہ فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے فی الحال گوادر بندرگاہ کوچین کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔ میں نے میر حاصل بذنجو سے سوال کیا تھا کہ یہ اطلاعات کہاں تک صحیح ہیںتو انہوں نے جواب میں کہاتھا کہ یہ اطلاعات کافی حد تک درست ہیں۔یہ بھی اطلاعات مل رہی ہیں کہ موجودہ حکومت کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر) کو بھی سی پیک کا حصہ بنانے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ اس فیصلے پر بھی سندھ کے اکثر سیاسی رہنمائوں کو شدید اعتراضات ہیں اور یہ لوگ سوال کررہے ہیں کہ سی پیک کا حصہ ہونے کی وجہ سے کے سی آر کوبھی چین کے پاس گروی رکھ دیا جائے گا۔بات فقط یہاں تک ختم نہیں ہوتی، اسٹیل مل پاکستان کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اس اسٹیل مل کا قیام پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا کارنامہ تھا۔ یہ اسٹیل مل روس کی مدد سے قائم کی گئی تھی۔ ایک خاص عرصے تک تو یہ اسٹیل مل خوش اسلوبی سے چلتی رہی مگر اب ایک طرف یہ کیا جارہا ہے کہ اسٹیل مل کی نجکاری کی جارہی ہے تو دوسری طرف اس قدم کو اٹھانے سے پہلے اسٹیل مل سے تقریباً 4500 ملازمین کو نکال دیا گیا ۔یہ ملازم کئی دنوں سے اسٹیل مل کے اردگرد اور سپر ہائی وے کے نزدیک مظاہرے کررہے ہیں اور دھرنے دے رہے ہیں۔ اس کارروائی کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اسٹیل مل سے نکالے گئے ملازمین زیادہ تر اسٹیل مل کے اردگرد کے علاقوں اور گوٹھوں کے باشندے ہیں۔ یہ بات بھی سب کے علم میں ہوگی کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ مل اس علاقے میں تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں کئی سو سال سے گوٹھ تھے مگر ذوالفقار بھٹو نے ان گوٹھوں کو تو اسٹیل مل میں شامل کیا مگر ان گوٹھوں کے عوض ان لوگوں کو نزدیک ہی متبادل زمین الاٹ کی گئی اور وہاں ان لوگوں کو اپنے گھر بنانے کیلئے قرضہ وغیرہ بھی دیئے گئے،اسٹیل مل میں ان علاقوں کے نوجوانوں کیلئے ملازمتوں کا کوٹہ بھی فراہم کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں اس علاقے کے لوگ بہت خوش ہوئے اور یہ نوجوان اسٹیل مل میں مزدوری بھی کرتے تھے تو کچھ دیگر ملازمتوں پر بھی مقرر کئے گئے مگر اب ان کو نکال باہر کیا گیا ہے۔ اب ہم پی آئی اے کا ذکر کرتے ہیں۔ جب پی آئی اے کے سربراہ ریٹائرڈ ایئر مارشل نور خان، ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان اور انور جمال جیسی شخصیات تھیںتو اس وقت پی آئی اے نہ فقط خود پاکستان میں مگر دیگر ملکوں میں بھی مقبول تھی۔ ایک خاص عرصے کے دوران پی آئی اے کی انتظامیہ نے پاکستان کے کچھ دوست ملکوں کی ہوائی کمپنیاں قائم کیں اور ان کے اسٹاف کو تربیت بھی دی۔ آج کل یہ ہوائی کمپنیاں تیز رفتاری سے ترقی کررہی ہیں جبکہ پی آئی اے ایسی کمپنی بنادی گئی ہے کہ اب اسے بھی پرائیوٹائز کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں اسی دوران پی آئی اے کے کراچی کے ہیڈ کوارٹر سے اسٹاف کو اسلام آباد منتقل کیا گیا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر سندھ کے اکثر لوگ یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ اس مرکزی حکومت کو کیوں سندھ اور اس کا بڑا شہر کراچی پسند نہیں ہے؟ (جاری ہے)