پیروں فقیروں کی پارلیمانی نشست کی بازگشت!

February 28, 2021

غلطی کی گنجائش نِشتہ والی بات مقصود ہے !

تاہم وہ بیتے دن بھی یاد ہیں جب 1985کے غیرجماعتی انتخابات میں خانقاہوں، ریٹائرڈ فوجیوں اور بلدیاتی سطح کے لیڈروں کی چاندی ہوگئی تھی۔ نظریاتی سیاست خوف کے سایوں، اندھیر نگریوں اور ہلکی پھلکی مزاحمتوں میں سانس لینے پر مجبور تھی۔ پیپلزپارٹی نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کرکے تاریخی غلطی کی سو 1988کے بعد پنجاب میں نمایاں کامیابی اس کا مقدر نہ بن سکی گو جونیجو لیگ کے سترہ اٹھارہ اراکین کے ساتھ مل کر پیپلزپارٹی 1993میں پنجاب حکومت کی اصل شراکت دار تو ہو گئی مگر وزارت اعلیٰ کی پگ پہلے منظور وٹو اور بعد ازاں سردار عارف نکئی جیسے جونیجو لیگیوں کے سر سجی۔ 1985تا 2018 تک سوائے 1993 تا 1996 اور 2002تا 2008 کے، نون لیگ ہی پنجاب کی سیاست کی سیاہ و سفید کی مالک رہی۔ ضیائی بلدیاتی الیکشن کے بعد 1985 تا 2013 تک کم از کم پنجاب کی سیاست گلی و نالی و سڑک اور برادری ازم یا پھر ’دوستوں‘ ہی کے گرد گھومی، نظریاتی سیاست محض نام کی رہی۔ 1985اور بعد سے ضلعی کونسلوں کے چیئرمین اور اربن مئیرز کے گروپ ہی اسمبلیوں تک پہنچتے رہے۔ وفاقی و صوبائی سطح پر 1988 تا 2013 تک پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ہی سیاست میں آمنے سامنے رہیں۔

2012 سے عمرانی اُٹھان کو پذیرائی ملنے اور ملانے کا آغاز ہوا اور الیکشن 2018 پی ٹی آئی کے عروج کے ساتھ طلوع ہوا۔ کوئی مانے نہ مانے مگر ہر گھر سے تبدیلی کی خواہش یا آواز اٹھنے لگی۔ تبدیلی کی اس ہوا نے سوائے اپر سندھ کے پیپلزپارٹی کو تو پورے ملک میں آڑے ہاتھوں لیا پھر پنجاب اور کے پی کے میں نون لیگ کو بھی نقب لگی، پنجاب کے متعدد جیالے اور متوالے گھرانے تقسیم ہوگئے، نتیجتاً اب بنتا تو یہ تھا کہ تبدیلی کے نعرے اور والے صرف پانچ سال نہیں دس پندرہ سال کی بنیادیں رکھتے مگر یہاں پہلا دور ہی ڈانواں ڈول ہو گیا۔ اپنا کام اور منصوبہ بندی کے بجائے قبل از انتخابات والا ہی وتیرہ رہا اور محض پیپلزپارٹی و نون لیگ پر جائز و ناجائز الزامات پر اکتفا کیا گیا تو کبھی نیب کی بیساکھیوں پر گزارا۔ کہیں اپنے اندر بھی پرانے نظام کے بوسیدہ کرداروں کو جلابخشی گئی تو کبھی مقتدر پرستی پر سو فیصد لبیک کے دریچے کھلے رہے۔ وعدے وہ جو خالصتاً سیاسی تھے اور عملی کم اور ادائوں سے کوسوں دور، کبھی ریاستِ مدینہ تو کبھی چین پسندی، کبھی امریکی نظام تو کبھی ملائشیا زندہ باد کی شاہراہ اور ایرانی انقلاب کی تمنا کی بات بھی عمران خان نے کی تاہم اپنا کوئی راستہ اور وژن تراشا ہی نہ گیا۔ وہ جو قرضے اتارنے کے مراد سعید کے دعوے اور غلط بیانیاں تھیں یا پٹرول سستا کرنے کی اسد عمر کی طفل تسلیاں، ان سب نے ایسے ایسے راز فاش کئے کہ نواز شریف و شہباز شریف کی میگا غلطیاں مائیکرو بدعنوانیاں لگنے لگیں، اور شریفوں کا پراجیکٹس ہی نہیں پیپلزپارٹی کے تھرپارکر و عمر کوٹ کی ترقیات و منصوبہ بندی اور سکھر و لاڑکانہ و خیرپور اور اپر سندھ کے دیگر اضلاع کے ہائر ایجوکیشن اور میڈیکل پراجیکٹس اعلیٰ و ارفع دکھائی دینے لگے ہیں۔ سیاق و سباق پر تھوڑا اور غور کریں تو لگتا ہے جیسے آصف علی زرداری کی سب بےباکیاں نواز شریف کی غلطیوں سے دھل گئیں اور نواز شریف کو عمران حکومت کی عاقبت نااندیشیوں نے ازسرِ نو ہیرو بنا دیا ہے۔ کیا تھا گر عمران خان اداروں کو عزت ان کی اہمیت سے کم دیتے نہ زیادہ۔ صرف آئین شناسی ملک و ملت میں نئی روح پھونک سکتی تھی، پارلیمنٹ کو مطلوبہ عزت، الیکشن کمیشن کو جائز عزت اور نیب کو منصفانہ ڈگر پر ڈال کر جمہوری و معاشی ترقی کو کوچہ و بازار کی زینت بنایا جا سکتا تھا۔

مشیروں، وزیروں اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار افسروں نے این اے 75سیالکوٹ کو اتنا سنجیدہ کیوں لیا؟ تحریک انصاف تو کچھ کھو بھی نہیں رہی تھی، یہ نشست تو خطیبِ الاسلام، جمعیت علمائے پاکستان کے چوتھے سابق صدر، تحریکِ ختم نبوت کے لیڈر اور تمغہ امتیاز حاصل کرنے والے صاحبزادہ پیر فیض الحسن کے بیٹے افتخارالحسن شاہ المعروف ظاہرے شاہ کے پاس سوائے 2002یعنی 1985 تا 2018 ہمیشہ رہی۔ 2002 میں افتخارالحسن شاہ مرحوم کا راستہ بی اے کی ڈگری نے روکا اور اسجد ملہی(ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے حالیہ امیدوار) قاف لیگ ٹکٹ پر جیتے مگر 2008میں مرحوم افتخارالحسن کے داماد مرتضیٰ امین (نوشین افتخار کے میاں) نے واپس جیت لی۔ 2013اور 2018 میں چونکہ بی اے کی شرط نہ رہی چنانچہ افتخارالحسن ہی کامیاب رہے۔ واضح رہے کہ اس قومی اسمبلی کے حلقہ میں نیچے صوبائی اسمبلی کا وہ حلقہ ہے جہاں سے قاف لیگ کے حاضر سروس بائو رضوان صوبائی وزیر ہیں۔ گویا پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر کی ناک تلے چند پولنگ اسٹیشنوں پر دھاندلی ہوئی، انگلی قاف لیگ پر اٹھائی جا سکتی ہے کہ عمران خان کو یہاں بدنام کیا گیا۔ لیکن ایسا نہیں لگتا۔ بائو رضوان شریف آدمی ہے، چوہدری پرویز الٰہی منجھا ہوا سیاست دان کہ جس کے تدبر نے پنجاب میں نشستوں کے مطابق نون لیگ، تحریک انصاف، قاف لیگ کو بلامقابلہ سینٹ سیٹیں دلوا دیں! کاش خان صاحب شیخ رشید اور فردوس عاشق اعوان وغیرہ جیسے ساتھیوں کے بجائے چوہدری صاحبان سے سیکھتے تو پیروں فقیروں کی یہ مقامی پارلیمانی نشست کی ہار جیت کی بازگشت ایک بین الاقوامی لیڈر پر الزام تراشی کیے جانے کی وجہ نہ بنتی! خان صاحب اور ہمنوا آئینی پیری مریدی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر اداروں اور جمہوریت کو جائز مقام دیں تو پورا ماحول اِن کیلئے فتح کی نوید اور خوشنودی کی بازگشت بن جائے گا، ورنہ نواز شریف و زرداری کی سیاسی پیری و فقیری کے آستانے پھر چل سو چل کیونکہ اس حکومت کیلئے اب غلطی کی گنجائش نِشتہ!